قصہ ایک باغی کا (آخری حصہ)

جاوید قاضی  پير 25 مارچ 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سیکڑوں حْر پھانسی کے پھندے پر وارے گئے۔ ایچ ٹی لیمبرک حیدرآباد کمشنر تھے ۔ جن کو ْحر تحریک کوکچلنے کا کام سونپا گیا۔ برصغیرکی کسی جگہ پر اگر پہلا انتظامی مارشل لاء لگا تو وہ سانگھڑ کا علاقہ تھا  اور اس طرح سے پھر  Sind Suppression of Hur-Outrages Act 1942  کے ذریعے انگریز نے قانون سازی بھی کی اور حر لفظ کے معنی دہشت گرد قرار دیے گئے۔

اس زمانے میں ایئر مارشل اصغر خان انڈین ایئر فورس میں پائلٹ تھے ۔ حکم ہوا کے جہاز اڑاؤ اور سانگھڑ کے نواح میں ان متحرک ْحروں پر بمباری کرو۔ یہ بات خود اصغر خان نے مجھے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتائی  کہ جب وہ جہاز بمباری کے لیے حیدرآباد سے اڑا کے وہاں پہنچے تو انھیں درجنوں بیل گاڑیاں نظر آئیں جن پر بچے اور خواتین بیٹھی تھیں ، جہازکو پلٹایا اور واپس چلے آئے اور انگریزکا حکم ماننے سے انکارکیا، اس بات پر اصغر خان کا کورٹ مارشل ہوا۔ اصغر خان نے کورٹ مارشل کا زمانہ سکھر جیل میں گذارا۔

ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے، انگریز نے سارے حروں کو، ان کے بچوں اور عورتوں کو کیمپوں میں منتقل کیا ۔ بھائی بہن سے بچھڑگئے ۔ خاندان کٹ گئے  اور یہ عمل دس سال تک لاگو رہا ۔ آئے دن کسی نہ کسی حْرکو پھانسی کے پھندے پے لٹکایا  جاتا تھا ۔ میرے والد نے 1948 میں مولانا حسرت موہانی کو نواب شاہ آنے کی دعوت دی جو یہاں آئے اور ان حروں کی کیمپوں کا دورہ کیا ان کی حالت ذرا دیکھی اور یہ روداد خود پارلیمنٹ میں بیان بھی کی۔

سندھ کی اس حر تحریک میں عورتوں کا کردار بہت عظیم و شاندار رہا۔ وہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں۔ یہ حْر تحریک برصغیرکی تمام تحاریک میں اپنا  مقام اونچا کچھ اس طرح بھی رکھتی ہے کہ جو اس جنگ میں خواتین مردوں کے ساتھ کھڑے ہوکے لڑیں وہ بات کسی بھی برصغیرکی تحریک میں اتنی واضع طرح نہیں ملتی۔

کہنے کا مْقصد یہ کہ ہمیں بھگت سنگھ کے حوالے سے تو بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے ، لیکن اس شخص کو سب نے بھلا دیا ۔ یہاں اس لیے کہ وہ مسلم لیگ سے نہ تھے وہ توکانگریس سے بھی وابستہ نہ تھے ۔ خود جب بلاول بھٹو نے سندھ کی تاریخ سے ’’ہوشو شیدی ‘‘کو اٹھایا تھا جس نے 1843 میں چارلس نیئپیئر سے جنگ لڑی تھی اور ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا ، مگر پیپلز پارٹی نے سورھیہ بادشاہ کو وہ مقام نہ دیا ۔ حالانکہ ان کی شہادت اور جدوجہد سندھ کی تاریخ کا روشن ترین باب ہے ۔

سورھیہ بادشاہ کے دونوں بیٹوں کو انگریز نے اپنی کسٹڈی میں لے لیا جن کی عمر اس وقت تیرہ اور چودہ سال تھی۔ کچھ عرصہ علی گڑھ اور باقی دس سال لندن میں رکھا۔ ان کی تعلیم کے لیے ٹیوٹر اور نصاب کا انتخاب خود کیا ۔ یہ لیاقت علی خان تھے جو ان کو واپس لائے ورنہ حْر ابھی تک بے قابو تھے ، ان کے بڑے خاندان کے لوگوں کو پیر پگاڑا کے خطاب سے نوازا مگر حْروں نے ماننے سے انکارکردیا۔

کہتے ہیں کہ محمد خان جونیجو کے والد دین محمد جونیجو پر یہ ذمے دار عائد کی گئی کہ وہ ان دونوں بیٹوں کو راضی کریں کہ وہ اپنے آپ کو ان کے حوالے کریں ، بصورت دیگر  جو نتائج نکلیں گے ان کے ذمے دار وہ خود ہونگے۔اب کیا کرتے جب سورھیہ بادشاہ کے دونوں بیٹوں کو ریلوے اسٹیشن پر لائے تو بچوں نے نہ جانے کی ضد کی اور معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ جونیجو صاحب کو ان بچوں پے ہاتھ اٹھانا پڑا اور خود رو پڑے ۔ اور گھر آکر اپنے ہاتھ آگ میں جلا دیے۔ ہم جس جنرل ضیاء الحق کے زمانے کے وزیر اعظم محمد خان جونیجوکو جانتے ہیں ، یہ ٹھیک ہے وہ آمرکا وزیر اعظم تھا لیکن اپنے کردار اور اصول میں اتنا اونچا مقام رکھتا تھا کہ شاید ایسا مسکین و دلیر وزیر اعظم کوئی نہ ہو، جو وزیراعظم بننے کے بعد جنرل ضیاء الحق کو یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ ’’جنرل صاحب آپ وردی کب اتاریں گے۔‘‘

قصہ مختصر 33 سالہ اس آزادی کے عظیم ہیرو سورھیہ بادشاہ کو پھانسی دینے والا کام کرنل کارگل کو سونپا گیا جو سورھیہ بادشاہ کا ان دنوں میں بہت گہرا دوست بھی بن گیاتھا اور صرف اس شخص کو سورھیہ بادشاہ سے ملنے کی اجازت تھی۔ وہ آپس میں شطرنج بھی کھیلتے تھے ۔ یہ ساری بات کارگل نے خود تحریر بھی کی ہے اور بلآخر جب پھانسی دینے کا دن آیا تو رات کو دونوں نے پہلے شطرنج کھیلی جس میں کارگل کو مات ہوئی۔ کارگل حیران تھا کہ اس چہرے پر ایک لمحے کو بھی موت کا ڈر نہیں ۔سورھیہ بادشاہ نے بعد ازاں نماز پڑھنے کی مہلت مانگی اورکارگل کو ہنس کر کہا کہ اب تم اپنا کام کر سکتے ہو ۔ اپنے پاؤں پر چل کر تختہ دار پر گئے اور اسی طرح اس آزادی کے متوالے نے وطن کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔ 33  سال کی عمر میں دس سال پابند سلاسل رہا ۔ اس کی حْر تحریک نے جو آزادی کا نعرہ دیا تھا وہ یہی تھا کہ ’’وطن یا کفن‘‘ اور اس طرح اس شخص نے آزاد وطن نہ ملنے پرکفن کو لباس جانا۔

انگریز نے اس کے جسد خاکی کو تو پایا مگر پریشانی یہ تھی کہ اسے اب دفنائے کہاں،کیونکہ اس کی قبر اس کے زندہ ہونے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی تھی اور اسی طرح آج تک یہ کسی کو خبرنہیں کہ اس باغی کی قبرکہاں ہے۔

ایسے درجنوں عظیم ہیروز ہوںگے۔ بھگت سنگھ ، سورھیہ بادشاہ ، سبھاش چندر بوس جو ہم سے انصاف کی نگاہ مانگتے ہیں۔ خود سبھاش چندربوس کو توکانگریس نے بھی اپنی صفوں سے الگ کردیا تھا۔

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم

مختصر کر چلے درد کے فاصلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔