- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری
- بنگلادیشی لڑاکا طیارہ فلمی کرتب دکھانے کی کوشش میں تباہ؛ ویڈیو وائرل
- پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مثالی بنائیں گے، مریم اورنگزیب
- آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- غزہ میں اسرائیل کا اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ؛ 2 غیر ملکی اہلکار ہلاک
- معروف سائنسدان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور متاثر
- ورلڈ کپ میں شاہین، بابر کا ہی نہیں سب کا کردار اہم ہوگا، سی ای او لاہور قلندرز
- نادرا کی نئی سہولت؛ شہری ڈاک خانوں سے بھی شناختی کارڈ بنوا سکیں گے
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت مسلسل دوسرے روز کم
- کراچی سے پشاور جانے والی عوام ایکسپریس حادثے کا شکار
- بھارتی فوج کی گاڑی نے مسافر بس اور کار کو کچل دیا؛ 2 ہلاک اور 15 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
- نیب ترامیم کیس؛ عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک سپریم کورٹ میں پیشی کی اجازت
- کوئٹہ؛ لوڈشیڈنگ کیخلاف بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاج 6 روز سے جاری
- حکومت کو نان فائلرز کی فون سمز بلاک کرنے سے روکنے کا حکم
- آئی ایم ایف کا پاکستان کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم میں خرابیوں پر اظہارتشویش
آپ عوام کو تحفظ نہیں دے سکتے؟
12 اپریل 2019 بروز جمعہ کی صبح کوئٹہ میں موجود اقلیتی برادری ہزارہ کے لیے تلخ رہی۔ کوئٹہ شہر میں ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں دھماکا ہوا اور ہزارہ برادری کے 9 افراد سمیت 20 لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ دہائیوں سے مظالم کا شکار ہزارہ برادری کو نجانے کون سے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومت کی طرف سے مسلسل نظرانداز کی گئی یہ برادری مزید کوفت اور مشکلات کی طرف گامزن ہے۔ اس سانحے پر ریاست مدینہ کے نام پر بننے والی نئی حکومت کی طرف سے کوئی دلچسپی نہیں لی گئی اور اگر کوئی دلچسپی تھی بھی تو وہ مذمتی بیان تک محدود رہی۔
سوشل میڈیا پر حکومتی حلقوں پر شدید تنقید ہوئی، جس کے نتیجے میں 15 اپریل بروز پیر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کوئٹہ تشریف لے گئے اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے ملے، تعزیت کی اور دھرنے پر موجود افراد سے مذاکرات کیے، کامیابی حاصل کی اور یوں جاں بحق افراد کے خاندان کی طرف سے ریاست کے خلاف دھرنا ختم کروایا۔ اور کہا کہ ’’ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے، تمام سازشیں ناکام بنائیں گے‘‘۔ ملزموں کو جلد پکڑنے کی یقین دہانی بھی کروا ڈالی۔ جب اس واقعے سے کچھ روز پہلے کالعدم تنظیم کے رکن اور شدت پسند کو رہا کیا گیا، اور دھماکے والے روز ہی سعودی عرب سے آئے ہوئے مہمان امام کعبہ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عوادالجہنی سے احمد لدھیانوی صاحب کی ملاقات بھی کروائی۔ مگر موصوف کی فرمائش ہے کہ ان کی نیت پر شک نہ کیا جائے۔ کیونکہ موصوف ملزموں کو جلد پکڑ کر رہا کردیں گے۔ اور ریاست مدینہ کے امیرالمومنین جناب عمران احمد خان نیازی وزیراعظم پاکستان کو توفیق حاصل نہ ہوسکی کہ وہ جائیں اور لواحقین سے تعزیت اور زخمیوں کی عیادت ہی کرلیں۔
ریاست مدینہ کی بنیاد رکھنے سے پہلے موصوف اُس وقت کے حکمرانوں کی ہر ایسے موقعے پر حکمرانی غیرت جگایا کرتے تھے۔
مگر ریاست مدینہ کی بنیاد رکھتے ہی وہ غیرت اور اخلاقی جرأت بنی گالہ چھوڑ کر پرانے وزیراعظم ہاؤس (موجودہ یونیوررسٹی) منتقل ہوچکے ہیں۔
اقلیتی برادریاں اب اس عظیم کرشماتی لیڈر کے فیض کی راہیں دیکھ رہی ہیں، جسے وزیراعظم بننے سے پہلے اپنے عوام کے دکھ درد کا بہت زیادہ خیال تھا، جن کے درد کی وجہ سے کپتان کو نیند نہیں آتی تھی۔ بقول فیض احمد فیض:
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
حکمران جماعت تحریک انصاف کے اتحادی جماعت کی صوبہ بلوچستان میں حکومت ہے۔ وہاں کے وزیر داخلہ ضیااللہ لانگو کے بقول یہ دھماکا کسی خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ بنانے کے لیے نہیں تھا، جبکہ ڈی آئی جی کوئٹہ کے بقول یہ خاص طور پر ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں شدید معاشی بحران ہے، فرقہ واریت اور دہشتگردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ پڑوسی ممالک انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہورہے۔ اس سارے بحران اور ہیجانی صورتحال میں حکومت اور ان کے وزرا کے رویے قابل غور اور قابل فکر ہیں۔
وزرا کی چرب زبانی اور طوفان بدتمیزی سے سنجیدہ طبقے بہت نالاں اور مایوس نظر آتے ہیں۔ ہمیشہ ایسے مواقعوں پر عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ حکومت کا ساتھ دیں اور تعاون کریں۔
مگر ایسے دور میں عوام ایک طرف مہنگائی کا طوفان برداشت کریں، دوسری طرف وزرا کی بدتہذیبیاں اور بدتمیزیاں اور پھر حکومت سے تعاون بھی؟ اگر سب کچھ عوام نے ہی کرنا ہے تو ریاست کس کام کے لیے ہے؟
عوام کو تحفظ آپ نہیں دے سکتے، اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، فرقہ واریت کو روکنے کے بجائے آپ ایسے عناصر کی پشت پناہی کررہے ہیں جو فرقہ واریت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ اگر حکومتی رویوں میں بدلاؤ نہ آیا اور فرقہ واریت کو ختم نہ کیا گیا تو پھر دہشت گردی کی ختم ہونے والی لہر دوبارہ سے ابھر کر آئے گی اور بھرپور طریقے سے آئے گی اور ہمارے لیے یہ اچھا شگون نہیں ہوگا۔
اے ظلم کے ماتو لب کھولو چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا کچھ دور تو نالے جائیں گے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔