یہ تضاد فکر و عمل

ڈاکٹر یونس حسنی  پير 22 اپريل 2019

بھارت کے صوبے آسام میں ایک 68 سالہ قصائی بزرگ پرگائے کا گوشت فروخت کرنے کا الزام لگا کر اس پر انسانیت سوز مظالم کیے گئے، اسے اٹھا کرکیچڑ بھری دلدل میں بٹھا دیا گیا اور اسے سور کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا ۔ وہ رحم کی بھیک مانگتا رہا۔ مگر اس کے گرد جمع ہجوم نے اس کی کوئی مدد نہیں کی یہاں تک کہ وہ مار کھاتے کھاتے  بے ہوش ہوگیا۔

یہ کارروائی سیکولر بھارت میں ہوئی جہاں ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ ہم نے تسلیم کیا کہ ہندوؤں کے نزدیک گائے مقدس جانور ہے۔ اس کا ذبح کرنا ان کے نزدیک اس کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔

مگر مسلمانوں پر یہ الزام پہلی بار نہیں لگا۔ یہ الزام آئے دن لگایا جاتا رہتا ہے اور ایک گائے کے قتل کے جرم میں متعدد انسان قتل کردیے جاتے ہیں۔

یہ گوشت گائے کا ہو نہ ہو اس سے کسی کو غرض نہیں ہوتی ظاہر ہے الزام لگانے والے گوشت کا معائنہ تھوڑا ہی کراتے ہیں وہ تو جب ان کی رگ تعصب پھڑکتی ہے تو بس یہ افواہ اڑا دیتے ہیں کہ یہ شخص گائے ذبح کر رہا تھا یا گائے کا گوشت فروخت کر رہا تھا ۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہوتا ہے پھر اس شخص کا جو حال ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ اس میں صرف ہندو انتہا پسند شامل نہیں ہوتے بلکہ ایسی افواہ سے استفادہ کرنے والے سبھی ہندو ہوتے ہیں اور اپنے ’’جذبہ ایمانی‘‘ کے بقدر اس کار خیر میں شریک ہوتے ہیں۔

مذکورہ واقعے کے وقت بھی اس 68 سالہ بزرگ شخص کے اردگرد ایک جم غفیر موجود تھا۔ اس بھیڑ میں چند مسلمان بھی ہوں گے مگر کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس کی داد رسی کرتا۔ اگر اس مجمع میں مسلمان ہوتا اور وہ اپنی جرأت ایمانی کا اظہار کرتا تو اس کا اس شخص سے بدتر حال ہوتا۔ بلکہ اس کی مداخلت فرقہ وارانہ فساد کی صورت اختیار کرلیتی اور متعدد جانیں جاتی رہتیں اس خوف سے بھی مسلمان دم سادھ کر ایسے واقعات کو ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنائے رکھتے ہیں۔

بھارت میں سال رواں میں ایسے 44 واقعات ہوچکے ہیں جن میں 36 کے ملزم، ملزم تو ہم کہہ رہے ہیں ان کے نزدیک مجرم مسلمان تھے۔ خدا جانے یہ 8 افراد فرشتے تھے یا کوئی اور خلائی مخلوق کیونکہ کس مائی کے لال میں ہمت ہے کہ وہ بھارت میں گائے کاٹ سکے۔ اس الزام کے مورد صرف مسلمان ہیں اور اس ’’بہانے‘‘ سے ان کو ذلیل کیا جاتا ہے، زد و کوب یہاں تک کہ قتل بھی کردیا جاتا ہے۔

سنا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی پر نظر رکھتی ہیں اور ایسے واقعات کو بزور قوت نہیں کمزور ایمان کے انداز میں روکنے کی کوشش کرتی ہیں مگر مسلمانوں کے حق میں یہ تنظیمیں بھی اونگھنے لگتی ہیں انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی اور جب خبر ہی نہ ہو تو احتجاج کیا کریں گی۔ اس واقعے کے نتیجے میں ہیومن رائٹس واچ نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کی آواز حلق میں اٹک کر رہ گئی اور سوزش دہن کے انداز میں کچھ بے معنی سی باتیں کہہ کر رہ گئی۔

ادھر کچھ دن پہلے ہوا یہ کہ ایک ہی محلے میں رہنے والی دو بالغ بہنوں نے جو ہندو مذہب کی تھیں اپنے محلے کے دو لڑکوں سے جن کے ان سے روابط تھے، آنا جانا ملنا جلنا تھا ایک دوسرے کو پسند کرکے شادی کرنا چاہی۔ ظاہر ہے کہ شریعت اسلامی کی رو سے اس شادی کے لیے لڑکیوں کا اسلام قبول کرنا ضروری تھا۔ ظاہر ہے کہ جذبہ محبت ایک ’’ تند و تیز‘‘ دریا کی طرح ہوتا ہے۔ لڑکیوں نے چپکے سے اسلام قبول کیا، لڑکوں سے شادی کی اور شہر چھوڑ گئیں۔

اب تو قیامت برپا ہوگئی۔ ہندو برادری نے بھی فطری طور پر احتجاج کیا۔ حکومت نے دونوں لڑکیوں کی تلاش شروع کی اور بالآخر انھیں پالیا۔ انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انھوں نے بیان دیا کہ شادی بغیر کسی دباؤ کے اور ترک مذہب اپنی مرضی سے کرکے انھوں نے شادی کی ہے۔

لڑکیوں کے والدین نے انھیں نابالغ قرار دیا تاکہ لڑکوں پر ورغلانے کا بھی الزام عائد ہو اور مذہب کی تبدیلی بھی غیر موثر ہو۔ پاکستان کی عدالت نے ان کا طبی معائنہ کرایا تو دونوں کی عمریں حد بلوغت کو پہنچ چکی ہیں۔

اسی دوران ہندوستانی حکومت کے پیٹ میں مروڑ ہوئی اور انھوں نے پاکستان میں اقلیتوں کو زبردستی مسلمان بنانے اور ان پر ظلم توڑنے کے الزامات عائد کیے۔

خیر اس پر تو ہماری وزارت خارجہ نے یہ کہہ کر بھارت کے لبوں پر مہر لگا دی کہ لڑکیوں کا قبول اسلام اور ان کی شادی ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ ہندوستان کو اس سے کیا لینا دینا۔ ہماری عدالتیں اس کا فیصلہ قانون کے مطابق انجام دیں گی۔ لیکن پھر بھی انسانی حقوق کی علمبردار انجمنیں پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کی فکر میں دبلی ہوتی رہیں۔ آخر اس موقع پر یہ شور شرابا اور اس موقع پر یہ خاموشی چہ معنی دارد۔

ہماری عدالتیں بڑی نیک نیتی اور انتہائی احتیاط سے اس پورے معاملے کا جائزہ لے رہی ہیں اور کوشش کر رہی ہیں کہ اہل ہنود کی شکایت دور کرنے کا کوئی موقع میسر آئے مگر معاملہ اتنا سادہ اور شفاف ہے کہ عدالت کو اس معاملے میںالجھاؤ دکھائی نہیں دیا ہے۔ لڑکیاں عدالتی تحفظ میں دارالامان میں ہیں اور عدالتی فیصلے کے بعد ہی جو وکلا کے دلائل اور دیگر شواہد کی بنا پر ہوگا انھیں شوہروں یا والدین (جس کے حق میں انصاف کا تقاضا ہوا) کے سپرد کردیا جائے گا۔

پاکستان کی بیورو کریسی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں مبارک باد کی مستحق ہیں کہ وہ اس حساس معاملہ پر انصاف کے تمام تقاضوں کو مکمل کر رہے ہیں مگر وہ تمام طاقتیں جو پاکستان مخالف ہیں پھر بھی پاکستان پر الزام تراشی سے باز نہیں آتیں۔

شاید اس کا فیصلہ چودہ سو سال قبل ہوچکا تھا کہ دنیا میں صرف دو طاقتیں ہیں اسلام اور غیر اسلام ۔ یہی وجہ ہے جب جب نازک موقع آتا ہے تمام غیر اسلامی طاقتیں ہمارے خلاف صف آرا ہوجاتی ہیں پھر کوئی نادیدہ قوت مسلمانوں کی دست گیری فرما ہی دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔