فلاحی ریاست کا تصور

ایم اسلم کھوکھر  بدھ 3 جولائی 2019

ایک فلاحی ریاست کا تصور یہ ہے کہ ایسی ریاست اپنے تمام شہریوں کا ذمے خود لیتی ہے جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ فلاحی ریاست میں تمام شہری ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں اور ریاست پابند ہوتی ہے کہ اپنے تمام شہریوں کو یہ چھ بنیادی سہولیات فراہم کرے۔ وہ چھ سہولیات یہ ہیں۔

(اول)۔ خوراک جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور بھی ناممکن ہے۔

(دوم)۔ پوشاک جوکہ انسان کی خوراک کے ساتھ ساتھ ایک اہم ضرورت ہے۔

(سوم)۔ رہائش جس کے بغیر مہذب سماج کا تصور بھی ممکن نہیں۔

(چہارم)۔ علاج کی سہولیات۔

(پنجم) ۔ تعلیم۔

(ششم)۔ روزگار۔

ہمارے خیال میں یہ چھ چیزیں انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ اب اگر کوئی ریاست یہ چھ بنیادی ضروریات اپنے تمام شہریوں کو بلاتفریق فراہم نہیں کرتی، تو ایسی ریاست فلاحی ریاست کہلانے کا حق نہیں رکھتی۔ ہمارے سماج میں کیفیت یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کوکوئی بھی بنیادی سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کی جو شکل سامنے آتی ہے وہ یہ ہے جیسے کہ ایک اخباری خبر میں بیان کی گئی ہے۔

خبر یہ ہے کہ سانگھڑ شہر میں ایک ٹی بی کا مریض بچہ 3 سالہ قاسم گاہو جوکہ ٹی بی کا مریض تھا اور سانگھڑ کے مقامی اسپتال میں جس کا علاج جاری تھا کہ اس بچے کی نازک حالت کے باعث ڈاکٹروں نے مزید علاج جاری رکھنے سے انکارکرتے ہوئے بچے کے والدین کو مشورہ دیا کہ بچے کا علاج سانگھڑ کے اسپتال میں ممکن نہیں چنانچہ ننھے مریض کو کراچی لے جاؤ تاکہ وہاں اس کا علاج ہوسکے۔ البتہ مریض بچے کے والدین کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ فوری طور پر عجلت میں وہ کراچی جانے، وہاں علاج کرانے کے اخراجات برداشت کر پاتے اپنی مفلسی کے باعث۔ چنانچہ لاچار والدین پریشانی کے عالم میں سڑک کنارے بیٹھ گئے اور ان حالات میں مریض بچے کی حالت بگڑتی چلی گئی۔

ذرا تصورکریں ان لمحات میں والدین کس کرب سے دوچار ہوئے ہوں گے البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان لمحات کی کسی دل جلے نے ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی اور جب کمشنر سانگھڑ کو ان تمام حالات کی خبر ہوئی تو انھوں نے فوری طور پر ہدایات جاری کیں کہ مریض کو فوراً کراچی منتقل کیا جائے اور سرکاری خرچ پر اس معصوم کا علاج کروایا جائے قاسم گاہو اپنے والدین کے ساتھ علاج کی غرض سے کراچی کے لیے روانہ ضرور ہوا مگر اب دیر ہوچکی تھی چنانچہ قاسم گاہو زندگی کی بازی ہار گیا، موت جیت گئی۔

ہم کالم کو آگے بڑھنے سے پہلے مرض یعنی کہ ٹی بی سے متعلق تھوڑی بات کرلیں۔ یہ مرض عام طور پر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں وہ یہ ہیں غذائی قلت جیسے کہ ہمارے سماج میں ساٹھ فیصد لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ دوم فضائی آلودگی مثلاً صنعتی آلودگی، ٹریفک کا دھواں، جنگلات کی کمی کہ ان جنگلات کے باعث ہی تمام جانداروں کو صاف ہوا میسر ہوتی ہے ان اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اور باعث بھی ہوتا ہے جوکہ ٹی بی کے مرض کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے وہ یہ کہ اکثر مریضوں کی بیماری کی تشخیص نہیں ہو پاتی اور مریض روایتی کھانسی جان کر توجہ نہیں دے پاتا البتہ جن مریضوں کی تشخیص ہوجاتی ہے وہاں بھی کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ ایسے مریض دوران علاج اکثر غائب ہوجاتے ہیں یعنی کوئی 48 فیصد مریض دوران علاج اپنا علاج ادھورا یا نامکمل چھوڑ کر غائب ہوجاتے ہیں ۔ ایسا مریض 12 سے 15 صحت مند لوگوں میں ٹی بی کا مرض پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔

پھر وہ 12 سے 15 فیصد لوگ کتنے صحت مند لوگوں میں اس مرض کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں ایوریج آپ نکال لیں۔ ٹھیک ہے کہ عصر حاضر میں ٹی بی کے مرض کی علاج کی سہولیات عام ہوچکی ہیں اور سرکاری اسپتال کے ساتھ ساتھ کچھ فلاحی ادارے بھی ادویات مفت فراہم کر رہے ہیں مگر جیسے کہ ماہر معاشیات سیموئل یلسن نے کہا ہے کہ علاج مرض سے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

یہ حقیقت بھی ہے کہ علاج کے دوران مریض یا اس سے متعلقہ لوگ جس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں اس اذیت کو اگرچہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ٹھیک ہے کہ ایسے مریض کو ادویات مفت فراہم ہوجاتی ہیں مگر ایسے مریض کی ضرورت ہوتی ہے ایک متوازن غذا جس میں بکرے کا گوشت مرغی کا گوشت، مچھلی، تازہ سبزیاں تمام موسمی پھل وہ بھی اچھے معیارکے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے مریض کے علاج کا دورانیہ ہوتا ہے چھ ماہ سے ایک برس تک اب تصور کریں عصر حاضر میں کتنے مریض اپنا مکمل علاج کر پائیں گے جب کہ عام محنت کش کو جو ماہانہ اجرت حاصل ہوتی ہے وہ ہے 12 ہزار سے 13 ہزار روپے جب کہ ٹی بی کے مریض کے دوران علاج فقط متوازن غذا لینے کی صورت میں اٹھنے والے ماہانہ اخراجات کا تخمینہ ہے کم سے کم اٹھ ہزار روپے۔ اب اگر ٹی بی کا مریض اگر متوازن غذا نہ لے تو اندازہ کریں کہ ایسے مریض کا علاج کس قدر کارگر ثابت ہوسکے گا۔ یہ احوال ہم نے بیان کیا معصوم قاسم گاہو ٹی بی کے مرض کے بارے میں۔

اب ہم رخ کرتے ہیں پیارے صوبہ سندھ کے ایک اور شہر مٹھی کا۔ جہاں کی کیفیت یہ ہے کہ مٹھی کے اسپتال میں ماہ جون 2019ء میں غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد لگ بھگ 70 ہے اور رواں برس ان معصوم مرجھانے والی کلیوں کی تعداد ہے چار سو بیس۔ گویا ایک برس میں ان معصوم جاں بحق ہونے والوں کی تعداد آٹھ سو سے تجاوز کر جائے گی اگر اموات کا یہ سلسلہ تھمتا نہیں تو اس تمام تر حالات میں افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ حکومت سندھ میں شریک ایک خاتون بار بار میڈیا پر آکر فرماتی ہیں کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ مٹھی میں بچے غذائی قلت کے باعث جاں بحق ہو رہے ہیں کیونکہ اتنی چھوٹی عمر کے بچے تو غذا کھاتے ہی نہیں۔

ہم ان محترمہ کی خدمت میں بارہا یہ عرض کر چکے ہیں کہ درحقیقت غذائی قلت کا شکار ان نونہالوں کی مائیں ہیں جس کے باعث وہ اپنے معصوم بچوں کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں مگر وہ خاتون ہونے کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اب ذکر کرلیں لاڑکانہ شہر کا جہاں ایک مہلک ترین مرض ایڈز نے اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہیں جب کہ اس مرض سے متاثر ہونے والوں میں اکثریت کم عمر نونہالوں کی ہے یہ بھی حقیت ہے کہ کراچی کے بعد لاڑکانہ وہ شہر ہے جہاں ایڈز اس قدر سرعت سے پھیل رہا ہے چنانچہ ضروری ہے کہ ہمارے حکمران عوامی مسائل کو بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ کنکریٹ کی ترقی حقیقی ترقی نہیں ہوتی بلکہ حقیقی ترقی یہ ہے کہ ریاست کے تمام شہریوں کو پوری خوراک رہائش کی سہولیات علاج کی سہولیات حاصل ہوں تمام شہریوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے تمام کام کرنے والے شہریوں کو روزگار ملے تمام شہری من پسند پوشاک زیب تن کریں یہ ہے ترقی گویا سماجی ترقی۔ امید ہے ہمارے حکمران ہماری گزارشات پر عمل کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔