دامن پر کوئی چھینٹ نہ۔۔۔!

س۔ الف۔احمد  جمعـء 19 جولائی 2019

اچھی حکمرانی کا مطلب عوام کی بہتری کے خلاف تمام اقدامات سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہے اور یہ بات سمجھنے کے لیے کسی ارسطوئی عقل کی ضرورت نہیں کہ ان اقدامات کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک ایماندار، محب وطن اور محنتی حکومتی ڈھانچہ ناگزیر ہے۔

اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی خود مختاری ہے، جس کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے کی بجائے پچھلی حکومتوں کے طریقہ کار کو ہی اپنایا گیا ہے جس میں عوام کی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمت میں اضافہ اور طبقہ اشرافیہ پر معمولی ٹیکس یا ٹیکس چھوٹ شامل ہے۔

سیمنٹ اور سریے کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ ہوا ہے بجائے لائن لاسز کم کرنے کے جو 25 سے 30 فیصد ہے اور بجلی چوری روکنے کے بجائے بجلی کی قیمت بڑھادی گئی ہے یہی طریقہ کار گیس کی قیمت بڑھا کر اختیار کیا گیا ہے جب کہ پچھلے دنوں جو زائد بلوں کی مد میں کروڑوں کی زائد وصولی کی گئی تھی اس کی ریکوری کرکے اس سے بچا جاسکتا تھا۔

ایماندار اور قابل ماہرین معیشت اور سائنسدانوں کی موجودگی میں آئی ایم ایف کو مسیحا مان کر ان کی پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ کیمرون میں ماہرکیمیا چارکوٹے کوواما نے کچرے سے پائیدار سیمنٹ بنانے کا ڈاکٹر عطا الرحمن انعام حاصل کیا۔ اس سیمنٹ کی تیاری میں شیشے کی پرانی بوتلیں، چاول کی پھوگ اور گنے کا چھلکا استعمال ہوگا اور اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ عام سیمنٹ کی تیاری میں 1500 درجے سینٹی گریڈ کی حرارت استعمال ہوتی ہے جب کہ اس کی تیاری میں صرف 700 درجے سینٹی گریڈ حرارت کا استعمال ہوگا اور اس طرح اس کی لاگت میں کمی غریب ممالک کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں مگر سیمنٹ مافیا حکومت کی گود میں بیٹھی ہے اور شوگر مافیا حکومت سے سبسڈی لے کر عوام کے لیے اس کی قیمت بڑھا رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے کفایت شعاری اختیار کرنے کی بڑی دھوم ہے مگر ایک اخباری اطلاع کے مطابق وفاقی وزرا کے بنگلوں کی تزئین و آرائش کے لیے متعلقہ محکمے کی جانب سے پندرہ لاکھ کا بجٹ مختص ہے مگر اس کو بڑھا کر ساڑھے پانچ کروڑ کرنے کا مطالبہ سامنے آگیا ہے اور وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے اس کو منظور کرتے ہوئے وزارت منصوبہ بندی سے مزید فنڈ مہیا کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس رقم میں تو نیا بنگلہ بمعہ پلاٹ بن سکتا ہے یا ’’چھپر‘‘ میں صرف تزئین و آرائش بمعہ کفایت شعاری!

قانون کی کسمپرسی کا یہ عالم ہے کہ آپ باوجود ایک عرصہ گزرنے کے، کرپٹ مافیا کو جیل بھجوانے کے ایک دھیلا وصول نہیں کرسکے! اور وہ اور ان کے کارندے سڑکوں پر اور اسمبلیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور اس طرح تمام حکومتی اقدامات میں منصوبہ بندی اور دانش کا فقدان نظر آتا ہے۔ تعلیم کا حال یہ ہے کہ 25 سے 30 سال کے نوجوانوں کی اکثریت رکھنے کے باوجود ہم ان کی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔

حالیہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ کی رقوم میں نمایاں کمی کردی گئی ہے ممتاز سائنسدان، ماہر تعلیم اور دانشور، ڈاکٹر عطا الرحمن ایک عرصے سے ان تمام معاملات پر حکومت کی توجہ دلاتے رہے ہیں اور سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کی اپیلیں کرتے رہے ہیں مگر موجودہ حکومت بھی ان پر عمل پیرا ہونے میں ناکام ہے انھیں ایک اہم عہدہ ضرور دے دیا گیا ہے مگر ایک معقول فنڈ حکومتی ذرایع سے دیے بغیر ان کی پالیسیوں پر عمل درآمد ممکن نہیں۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ اخباری کالم میں بڑے دکھ سے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ 2018-19 کے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص صرف ایک ارب روپے خرچ کیے گئے لیکن اس سے تین سو گنا رقم یعنی 300 ارب روپے لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبے پر خرچ کیے جب کہ سبسڈی کی مد میں ایک خطیر رقم کی ادائیگی ہمیں مسلسل کرنا ہے۔

سرکاری اسکولوں کے مزید قیام اور انھیں بہترین سہولتوں اور بہتر اساتذہ کے تقرر کے بعد پرائیویٹ اسکول مافیا سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے مگر حالت یہ ہے کہ یہی محکمہ سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے جو تھوڑا بہت فنڈ ملتا ہے وہ بھی کھا پی لیا جاتا ہے۔ ہزاروں روپے لے کر جعلی نااہل افراد کی بھرتیاں کی جاتی ہیں جس میں اعلیٰ حکومتی عہدیدار ملوث ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں اگر کسی پر کیس بن بھی گیا تو ریکوری نہیں ہو رہی ۔

دوسری طرف امیر ترین امریکی شہریوں نے حکومت سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ انھوں نے ممکنہ صدارتی امیدواروں سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں درکار قانون سازی کی حمایت کریں۔ ان لوگوں کو پتا ہے کہ امیر لوگوں کے بجائے غریبوں پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا تو حالات مزید ابتری کی طرف جائیں گے۔ فرانس میں پیلی جیکٹ والوں کے مظاہرے ایک عرصے سے جاری ہیں کہیں امریکا میں بھی عوام ٹیکسوں میں ناانصافی کے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔

اسی طرح جرمنی میں امیر تاجروں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی آمدنی پر جو ٹیکس کاٹا جاتا ہے وہ کم ہے اسے بڑھا کر 30 فیصد تک کردیا جائے اس کی وجوہات بھی وہی ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان سے زیادہ ٹیکس وصول ہوگا تو یہ آمدنی متوسط اور غریب طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگی اور اس طرح ایک طرف تو ان کے کاروبار میں ترقی ہوگی دوسرے عوامی احتجاج سے محفوظ رہیں گے۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سرمایہ داروں، تاجروں اور مختلف کارٹیلز میں ان واقعات کے لیے کوئی سبق ہے؟

بلاشبہ حکومت نے کچھ اچھے اقدامات بھی کیے ہیں۔ ان میں ملک کی تقریباً 60 فیصد غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کا عمل سرفہرست ہے۔ اسی طرح ایمنسٹی اسکیم سے بھی ایک قابل ذکر تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ان کے سرمایہ کو ملک میں انویسٹ کرنے سے بہتری کی امید ہے لیکن مسئلہ وہی ترجیحات کا ہے۔

اسپیڈی کورٹس کے ذریعے کرپشن کے پیسوں کی واپسی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ کیونکہ موجودہ عدالتی نظام فرسودہ اور طاقت ور کو قرار واقعی سزا دینے میں ناکام ہے۔ مہنگے وکیلوں کی قانونی موشگافیاں اور کیسوں کی طوالت اور اصل دستاویزات اور ثبوتوں کا گم ہوجانا اور گواہوں کا غائب ہو جانا انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ سول بیورو کریسی میں بہت بڑی اور فوری اصلاح بہت ضروری ہے ہر شعبے میں قابل ترین اور ایماندار افسروں (جن کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں) کا تقرر، پولیس کے محکمے کی ازسر نو تنظیم، ہر حکومتی شعبے میں حقیقی کفایت شعاری، چیک اور بیلنس سسٹم، وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج کا خاتمہ اور اپنے شعبے میں ماہر وزیروں کا تقرر اور ملک کے تمام قدرتی وسائل سے ایماندارانہ استفادہ بہت ضروری ہے۔ حقیقی صورتحال کے مطابق اسمبلیوں سمیت کسی حکومتی شعبے میں عوامی نمایندگی نہیں۔

بین الاقوامی حالات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں دشمن تاک میں ہے سیاسی انتشار اور معاشی زبوں حالی پر عوام کو ریلیف دیے بغیر قابو نہیں پایا جاسکتا جس کی وجہ سے ملکی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ تحریک انصاف اگر اپنی پارٹی کو منظم اور محنتی اور بے لوث کارکنوں پر مشتمل نہیں ہوتی اور ہر شعبہ کے ماہرین کے تھنک ٹینک بناکر اسے عوامی نمایندگی کی سطح تک نہیں لے جاسکتی تو اس سے ہر توقع بے کار ہے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ ہاتھوں پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔