کرسچن پرسنل لاء

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 17 اگست 2019
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنے کی قرارداد جب متحدہ ہندوستان کی پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی تو ایک عیسائی ایس اے سنگھا اسمبلی کے اسپیکر تھے۔

اسمبلی میں قرارداد کے حق اور مخالفت میں یکساں ووٹ آئے تو اسپیکر سنگھا نے اپنا ووٹ پاکستان کے حق میں استعمال کیا، یوں پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کا قانونی حل نکل آیا۔ایس اے سنگھا ہی نہیں بہت سے عیسائی اور غیر مسلم شہریوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا مگر اس ملک میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق نہیں ملے۔ ریاستی اداروں نے قوانین کے اور انتظامی پالیسیوں کے ذریعے ان شہریوں کو باقی شہریوں کی طرح یکساں حقوق دینے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین نافذ کیے گئے۔

ان قوانین کے تحت مسلمان مرد اور عورت کی شادی اور طلاق کو دستاویزی شکل دی گئی۔ان قوانین کے تحت شوہرکو اہلیہ کی اجازت کے بغیر دوسری شادی پر پابندی عائدکردی گئی اور ایک نشست میں متعدد دفعہ طلاق دینے کو ایک طلاق شمار کرنے کا فیصلہ ہوا اور طلاق کے لیے یونین کونسل کے کردار کو شامل کیا گیا، مگر اس طرح کا قانون دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے نافذ نہیں کیا گیا۔ عیسائی برادری کے لیے شادی کے لیے پادری کے سامنے پیش ہونے کو لازمی قرار دیا گیا۔ عیسائی مذہب کی رجعت پسندانہ روایات کے تحت میاں بیوی کسی صورت طلاق کا حق استعمال کر ہی نہیں سکتے تھے۔ عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند افراد برسوں سے کوشش کر رہے تھے کہ عیسائی جوڑے کے نکاح کو دستاویزی شکل دی جائے۔

حکومت نکاح نامے کو اسی طرح رجسٹرکرے جس طرح مسلمانوں کے نکاح کوکیا جاتا ہے۔ پھر جدید دورکے تقاضوں کے تحت میاں بیوی کو طلاق کا حق دیا جائے اور طلاق لینے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ قدامت پرست رہنماؤں کے لیے اس قسم کی اصلاحات ممنوع اور گناہ کے مترادف تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند گروہوں نے جب بھی شادی کے نظام میں اصلاحات کی کوشش کی رجعت پسند گروہ رکاوٹ بن گیا۔ عیسائی برادری کے ترقی پسند کارکنوں نے نکاح اور طلاق کے معاملات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے Sindh Christian Personal Law Bill 2019 تیارکیا۔ اس مسودہ قانون کو سندھ اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ ابھی اس بل پر بحث ہونے اور شق وار خواندگی کے مراحل باقی ہیں۔

کرسچن پرسنل لاء بل کے تحت شادی، پیدائش اور اموات کا متعلقہ محکمہ میں اندراج لازمی ہوگا۔ اس قانون کی شق نمبر 14(A) کے تحت لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمرکم از کم 18 سال ہونا ضروری ہے اور ہر شادی کی رسومات کے لیے حکومت کا نامزدکردہ رجسٹرار فرائض انجام دے۔ یہ تقریب باقاعدہ چرچ میں منعقد ہوگی اور رجسٹرار نکاح رجسٹرکرے گا۔ شادی کے لیے جھوٹے حلف نامے اور جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرانے پر فوجداری مقدمہ قائم ہوگا اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کو جیل کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس قانون کے تحت متعلقہ نکاح رجسٹرارکے علاوہ کوئی اور شخص نکاح رجسٹرکرے گا تو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے جوڑے کو 10 سال تک قید بامشقت سزا ہوسکتی ہے۔

اس مسودہ قانون کے تحت نکاح کرانے کا مجاز رجسٹرار کے علاوہ کوئی اور شخص یہ رسم انجام دے گا تو یہ قابل سزا جرم ہوگا اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو سزا ہوسکتی ہے۔اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں عورت و مرد ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں۔اس قانون کے آرٹیکل 28 کے تحت میاں یا بیوی کو شادی کے خاتمے کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔ متعلقہ شخص کو عدالت میں ایک عرضداشت داخل کرنی ہوگی جس میں شادی کے خاتمے کی وجوہات واضح کرنی ہونگی۔

ان وجوہات میں عیسائی مذہب سے ناتا توڑنے،کسی ایک فریق کے پاگل ہونے، کسی ایک فریق کا دوسرے سے 6 سال کے عرصہ تک حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کے الزامات لگائے گئے ہوں۔ اسی طرح بیوی کو بھی طلاق لینے کا حق حاصل ہوگا۔ بیوی کو شادی کے خاتمے کے لیے شوہرکی بے راہ روی، خراب دماغی صحت کے الزامات ثابت کرنے ہونگے۔ اس قانون کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ میاں اور بیوی باہمی رضامندی سے شادی کے خاتمے کی درخواست کرسکتے ہیں۔

باہمی رضامندی سے شادی کے خاتمے کی درخواست پر طے شدہ طریقہ کارکے تحت عملدرآمد ہوگا اور بیوی کو قانونی طور پر شوہر سے علیحدگی کا حق حاصل ہوجائے گا۔اس قانون کے تحت عدالت فریقین کے مؤقف سننے کے بعد شادی کے خاتمے کی ڈگری جاری کرسکتی ہے۔

اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ملکی قوانین کے تحت شادی کے خاتمے پر میاں بیوی کی جائیداد اور اس جائیداد میں اولاد کے حق کے بارے میں فیصلہ ہوگا۔ عیسائی برادری کے نکاح اور طلاق جیسے اہم معاملات کو دستاویزی شکل دینے سے عام عیسائی خاندان کو تحفظ حاصل ہوگا۔اس قانون کی ایک اہم شق 18 سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی سے متعلق ہے۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے۔

عیسائی برادری کی اکثریت کا تعلق نچلے طبقے سے ہے اور اس برادری میں خواندگی کی شرح کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کیا جاتا  ہے، مگرکم سنی میں ان بچیوں کی شادی کردی جاتی ہے جس کی بناء پر زچہ و بچہ کے مرنے کی شرح کم نہیں ہوتی۔ بچے اور عورتیں مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔

اس مسودہ میں 18 سال سے کم عمرکے لڑکے اور لڑکی کی شادی پر پابندی ایک اہم نکتہ ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے نافذکردہ قوانین کی بناء پر یہ برادری براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔لاہور ہائی کورٹ نے بچوں کے مذہب کی تبدیلی کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ سندھ اسمبلی کو اس قانون کو جلد از جلد منظورکرنا چاہیے اور قانون کی منظوری کے بعد متعلقہ محکمہ کو فوری طور پر اس قانون کے قواعدوضوابط تیارکرنے چاہئیں تاکہ اس قانون پر عملدرآمد شروع ہو جائے۔ پھر عیسائی برادری کے تحفظ کے لیے مزید قانون سازی کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔