پاکستان کرکٹ میں تبدیلیوں کی لہر

عباس رضا  اتوار 18 اگست 2019
نئے سٹرکچر کی کامیابی کے لیے میرٹ پر فیصلے درکار۔ فوٹو؛فائل

نئے سٹرکچر کی کامیابی کے لیے میرٹ پر فیصلے درکار۔ فوٹو؛فائل

پاکستان کرکٹ کا تجرباتی دور کبھی ختم نہیں ہوتا، حکومت کی تبدیلی کیساتھ ہی بی سی بی میں بھی کمان کی تبدیلی ہوجاتی ہے، عہدوں میں اکھاڑ پچھاڑ کی جاتی ہے، چند چہرے نئے روپ میں ملک وقوم کی ’’خدمت‘‘ کے لیے دستیاب ہوجاتے ہیں،اس بار بھی پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو نوشتہ دیوار تھا کہ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کو جانا ہوگا۔

احسان مانی نے قذافی سٹیڈیم میں ہیڈ کوارٹرز کا چارج لیتے ہی بورڈ کو پروفیشنل بنیادوں پر استوار کرنے کا عزم ظاہر کیا لیکن ان کا پرانے چہروں پر انحصار برقرار رہا،ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد کوچز اور سلیکشن کمیٹی کی رخصتی کا نقارہ بج گیا تھا، بالآخر ایسا ہوبھی گیا، انتظامی اور ڈومیسٹک کرکٹ سٹرکچر میں تبدیلیوں کا عمل بھی تیز ہوا،چند روز قبل پی سی بی کے نئے آئین کی بھی منظوری دیدی گئی۔

چیئرمین کی انتظامی پاورز چیف ایگزیکٹوکو منتقل ہوگئیں،کپتان اور نائب کپتان کے تقرر، ٹیموں کی سلیکشن، آمدن اور اخراجات کے معاملات دیکھنے کا اختیار سی ای او کو مل گیا ہے، نئے آئین کے تحت وسیم خان منیجنگ ڈائریکٹر کے بجائے چیف ایگزیکٹو کے طور پر اپنے وسیع تر اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انتظامی فیصلے کرنے کے بعد چیئرمین احسان مانی کو اعتماد میں لیں گے۔

ڈومیسٹک سٹرکچر سے ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم کئے جانے بعد فرسٹ کلاس کرکٹ6صوبائی ٹیموں تک محدود کرنے کے فیصلے پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوگئی، ہر ایسوسی ایشن کا اپنا چیف ایگزیکٹو ہوگا، پی سی بی کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ایک ماڈل کے تحت اپنا آئین بھی تیار کرنا ہوگا، ایک ٹیم 32کرکٹرز کو سنٹرل کنٹریکٹ دے گی، پی سی بی ذرائع کے مطابق ہر کھلاڑی کو 20سے 25لاکھ سالانہ آمدن ہوسکتی ہے۔ نئے سٹرکچر کے تحت فرسٹ کلاس کرکٹ میں وسائل کی فراہمی کا بھی مسئلہ ہوگا، ڈیپارٹمنٹس کو ٹیمیں سپانسر کرنے کے لیے کہا جائے گا، انکار پر دیگر کو موقع دیا جائے گا، ٹیموں کو چلانے کے لیے ابتدائی طور پر 5 سال تک پی سی بی کی جانب سے فنڈز فراہم کئے جائیں گے، توقع کی جارہی ہے کہ بعد ازاں ٹیمیں مالی معاملات میں خود کفیل ہوجائیں گی۔

ذرائع کے مطابق پی سی بی نے نئے سسٹم کی کامیابی کے لیے ایک ارب 10کروڑ روپے مختص کئے ہیں، اس ضمن میں غور طلب بات یہ ہے کہ غیر ملکی کرکٹرز کی آمد نے پاکستان سپر لیگ کو کامیاب اور مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا،اس دوران ملکی باصلاحیت کرکٹرز کو بھی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے اور اپنا کھیل نکھارنے کا موقع ملا،اس کے برعکس پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ شائقین کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتی،4 روزہ میچز تو ایک طرف قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامٹ کے دوران بھی میدان خالی دکھائی دیتے ہیں،اس صورتحال میں عوام کی توجہ حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوگا، فرسٹ کلاس کرکٹ کی مقبولیت کا گراف بلند نہ ہوا تو سپانسر شپ حاصل کرنے اور صوبائی ٹیموں کو خودکفیل بنانے کا خواب پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

دوسری جانب صوبائی ٹیموں کی تشکیل سے گورننگ بورڈ کا فارمیٹ بھی تبدیل ہوگیا، پہلے اس میں4،4 ریجن اور ڈیپارٹمنٹس، 2 پیٹرن انچیف کے نمائندے شامل ہوتے تھے،اب 3ایسوسی ایشنز کے صدور کو رکن بنایا جائے گا، ان کا انتخاب روٹیشن پالیسی کے تحت کیا جائے گا، 2نمائندے پیٹرن انچیف کے نامزد ہوں گے، ایک خاتون سمیت 4آزاد ڈائریکٹرز، پی سی بی کے چیئرمین اور سی ای او بھی رکن ہوں گے، نئے گورننگ بورڈ کی تشکیل کے حوالے سے کئی سوالیہ نشان موجود ہیں،ان میں سے اہم ترین یہ ہے کہ گزشتہ سیٹ اپ میں 2پیٹرن انچیف کے نامزد ارکان ہوتے، اب صرف 3منتخب ریجنل صدور کرکٹ برادری کی نمائندگی کریں گے، آزاد ڈائریکٹرز،پیٹرن انچیف کے نمائندوں اور بورڈ عہدیداروں سمیت باقی سب ہوں گے، یوں اکثریت اپنے ہی ’’آدمیوں‘‘ کی ہونے کی وجہ سے پی سی بی کو من مانے فیصلے کرنے کی سہولت حاصل ہوگی، بنیادی طور پر یہ سٹرکچر آئی سی سی کی ہدایات کے برعکس ہے جس میں بورڈ کے معاملات جمہوری انداز میں چلانے پر زور دیا گیا ہے۔

نئے سسٹم کا اطلاق ہونے سے قبل ہی وسیم خان ایم ڈی کی حیثیت سے تمام بڑے فیصلے کرنے میں مصروف تھے، چیف ایگزیکٹو بنائے جانے اور آئینی طور پر وسیع تر اختیارات ملنے کے بعد ان کے ہاتھ مزید مضبوط ہوئے ہیں،ماضی میں ریجنل اور ڈیپارٹمنٹل نمائندوں کی اکثریت ہونے کے باوجود گورننگ بورڈ ربڑ سٹمپ کا کردار ادا کرتا رہا ہے،کوئٹہ میں ہونے والے اجلاس میں آئینی اور ڈومیسٹک سڑکچر میں تبدیلیوں کے حوالے سے ارکان کا احتجاج اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی،اس بغاوت کو بھی بڑی حکمت عملی کیساتھ کچل دیا گیا،نئے فارمیٹ کے تحت بننے والے گورننگ بورڈ کی جانب سے کسی قسم کے اختلاف کی توقع نہیں کی جاسکتی،یوں وسیم خان کو اپنے سٹروکس کھیلنے کے لیے سازگار پچ میسر آئے گی، ورلڈکپ کے بعد ابھی تک سامنے آنے والے چند فیصلوں سے ’’ون مین شو‘‘ ہی ظاہر ہوتا ہے، انضمام الحق کی رخصتی کے بعد چیف سلیکٹر کے تقرر کا انتظار کئے بغیر برائے نام کمیٹی نے سنٹرل کنٹریکٹ کے لیے کرکٹرز کی فہرست جاری کردی۔

گزشتہ سال فٹنس ٹیسٹ لئے جانے کے بعد معاہدوں کا اعلان ہوا تھا، اس بار یہ مرحلہ بعد میں 19اور 20اگست کو لاہور میں مکمل کیا جائے گا،آئندہ ایونٹس کی تیاری کے لیے 14سنٹرل کنٹریکٹ یافتہ کرکٹرز کیساتھ 6دیگر کھلاڑیوں کا انتخاب بھی نامعلوم سلیکشن کمیٹی نے کیا ہے،ماضی میں مستقبل کے پلان سے باہر کئے جانے والے افتخار احمد اور راحت علی کو کنڈیشننگ کیمپ میں مدعو کرنے اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والوں کو نظر انداز کئے جانے پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں،اس سے قبل سنٹرل کنٹریکٹ کی فہرست کو محدود کرتے ہوئے ’’ڈی‘‘ اور ’’ای‘‘ کیٹیگریز کو ختم اور مستقبل کی امید سمجھے جانے والے کئی نوجوان کرکٹرز کو بے روزگار کرنے پر بھی سوالات اٹھائے گئے،10ارب سے زائد کا سرمایہ رکھنے والے پی سی بی کی جانب سے چند لاکھ روپے کی کفایت شعاری سمجھ سے بالاتر ہے۔

دوسری جانب دیگر فیصلوں میں بھی مفادات کا تصادم نظر آرہا ہے،سب سے پہلا یہ کہ محسن حسن خان کی سربراہی میں تشکیل پانے والی کرکٹ کمیٹی 8ماہ تک غیر فعال رہی،ایک غیر جانبداری باڈی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ مختلف امور پر آزادانہ رائے حاصل کی جاسکے،محسن خان نے عہدہ چھوڑا تو ایم ڈی وسیم خان خود ہی اس کے سربراہ بن گئے،اس کے بعد ہونے والے فیصلوں کی شفافیت پر سوالیہ نشان موجود ہے، کمیٹی کی ایک رکن عروج ممتاز ویمن سلیکشن کمیٹی کی سربراہ بھی بن چکیں،مکی آرتھر کو فارغ کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن مصباح الحق کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کنڈیشننگ کیمپ کی کمان سونپ دی گئی ہے۔

سابق کپتان کو ہیڈ کوچ کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار قرار دیا جارہا ہے،ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ان کو بیک وقت چیف سلیکٹر اور کوچ مقرر کردیا جائے،وسیم خان کو انگلینڈ سے درآمد کئے جاتے وقت توقع کی جارہی تھی کہ کاوئنٹی کرکٹ کلچر کا تجربہ ہونے کی وجہ سے پی سی بی کی داخلی سیاست ان پر اثر انداز نہیں ہوگی،فی الحال تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ’’ون مین شو‘‘ میں ایک عرصہ سے پی سی بی کیساتھ چمٹی شخصیات درپردہ رہتے ہوئے وہی فیصلے کروارہی ہیں جو ان کو راس آسکتے ہیں، کسی کو کام کرنے کا موقع دیئے جانے سے قبل نیت پر شک کرنا درست نہیں لیکن ابھی تک معاملات میں جس انداز کی پیش رفت ہوئی، اس سے سوالات ضرور اٹھتے ہیں،پی سی بی اور ڈومیسٹک کرکٹ کے سٹرکچر میں تبدیلیاں درست ثابت ہوتی ہیں یا غلط یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا،تاہم کام میرٹ پر نہ ہوئے تو کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔