شیراز سے اصفہان

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 21 اگست 2019
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

میرا تاثر یہی تھا کہ ایران کے شہروں میں بسوں کے اڈے ہمارے اڈوں سے مختلف نہیں ہوںگے۔مگر وہاں پہنچ کر حیران رہ گئے ۔ بسوّ ں کا اڈّہ کیا تھا ایک وسیع و عریض انتہائی صاف ستھراکمپلیکس تھا جو سبزہ زاروں میں گھِرا ہوا تھا، ٹکٹوں کے لیے جدید طرز کا کائونٹر تھا،مسافروں کی بیٹھنے کے لیے آرام دہ نشستیں تھیں۔

ایئرپورٹس کی طرح ٹکٹ پر درج تھاکہ بس کس گیٹ سے روانہ ہوگی ۔ بس کی روانگی میں ابھی کچھ وقت تھا اس لیے ہم اتنی دیر لائونج میں بیٹھے رہے، وہاں ٹک شاپس موجود تھیں جہاں سے مسافر اپنی پسند کے ڈرنکس اور اشیائے خورونوش خرید سکتے تھے۔

روانگی کے وقت ہم ٹکٹ پر درج گیٹ پر پہنچے تووہاں انتہائی آرام دہ بس کھڑی تھی،ہم نے اپنے بیگ مضبوط جسم کے لحیم و شحیم ڈرائیور کے سپرد کیے اور بس میں داخل ہو کر اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے،تھوڑی دیر بعد بس روانہ ہوگئی تو کنڈیکٹر نے سنیکس کے پیکٹ مسافروں میں تقسیم کیے،کیک انتہائی خستہ اور لذیذ تھا۔میر ی نشست کے ساتھ ہی فریج تھی جس میں ٹھنڈے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے گلاس بڑی تعداد میں موجود تھے۔آگے کی نشستوں پر بیٹھی ہوئی ایک فیملی کی پیاری سی بچی پانی لینے آئی مگر اُس سے فریج نہ کھل سکی۔

اُس نے میری طرف دیکھا، میں نے اس کی مدد کی اور فریج کھول کر اُسے پانی کا گلاس پکڑا دیا۔ وہ پانی لینے کئی بارآئی اور ہر بار پہلے وہ خود کوشش کرتی،کامیاب نہ ہوتی تو میر ی طرف دیکھتی،میں اسے فریج کھول دیتا تو وہ شکریہ ادا کرکے پانی لے کر چلی جاتی۔اس طرح اس سفر میں اس پھول جیسی بچی سے دوستی ہوگئی ۔

ایران کی جغرافیائی خصوصیات( topography) عرب ملکوں سے ملتی ہیں۔ ہماری طرح شہروں کے درمیان آبادی اور سرسبز وشاداب کھیتوں کے بجائے لق ودق صحرا ہے، کئی گھنٹے صحرا ئی سفر کرنے کے بعدبس ایک جگہ کھانے کے لیے رکی ۔ عام سا ریستوران تھا،میں نے ویٹر سے واش روم کی بابت پوچھا تو اُس نے ایک جانب اشارہ کیا،اُس طرف کوئی چیز نظر نہ آئی تو وہاں کھڑے ایک سائیں نما لڑکے نے ایک چھوٹا ساکمرہ دکھا دیا، انتہائی گندہ واش روم تھا جومجبوراً استعمال کرنا پڑا۔

باہر نکلا تو ’’سائیں‘‘ نے واش روم استعما ل کرنے کے پیسے طلب کرلیے۔ ریسٹ ایریا کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر بے اختیار اپنی موٹر وے اور اُس پر جگہ جگہ بنائے گئے وسیع وعریض اور خوبصورت Service Areas یاد آئے،ایسی اعلیٰ شاہراہ اور مسافروں کے لیے ایسی معیاری سہولتیں(جہاں وہ پکنک منانے کے لیے بھی جاتے ہیں) جو ہماری موٹرویز پر میسّر ہیں،پورے سائوتھ ایشیا میں کہیں نہیں ہیں۔ بلکہ اَیسے سروس ایریازتو یورپ میں بھی خا ل خال ہی ملتے ہیں۔

یہ چیزیں بلاشبہ ہمارے ملک کا قابلِ فخر سرمایہ ہے۔مگر یہ سوچ کر دُکھ ہوا کہ اس قابلِ فخر سرمائے کے خالق (تین بار ملک کا وزیراعظم رہنے والے رہنما) کے ساتھ کیاسلوک کیا گیاہے۔ ڈھنڈورا کرپشن کا پیٹا گیا مگر عدالت میں نہ کوئی کرپشن ثابت ہوئی، اور نہ ہی وہاں کسی رشوت یا کمیشن کھانے کا الزام لگایا گیا۔ بَس اپنی انائوںکی خاطر اُسے (ایک متنازعہ جج سے سزا دلوا کر) جیل میں بند کردیا گیا ہے اور جیل میں بھی اس ستّر سالہ بیمار شخص کواذّیتیں دی جارہی ہیں۔ نہ جانے ایسی حرکتوں سے کن لوگوں کی انا کو تسکین پہنچتی ہے؟کوئی بڑے قد کاٹھ کا لیڈر ایسی حرکتیں یقینا نہیں کر سکتا۔

بہرحال بات سروس ایریاز کی ہو رہی تھی، موٹروے کے سروس ایریاز جب سے FWOکے پاس آئے ہیں، کچھ زیادہ ہی کمرشلائز ہو گئے ہیں ، اور وہاں بہت سی غیر ملکی فُوڈ چینز کے ریستوران کھل گئے ہیں۔ پاکستانی شاہراہوں پر میکڈونلڈ یاکوئی بھی غیر ملکی فوڈ چین نہیں آنی چاہیے تھی اور وہاںپاکستانی اور دیسی فوڈ کے ریستوران ہی رہنے چاہیں تھے۔ ہمیں اپنی مصنوعات اور اپنے کھانوں کو ہی ترویج دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی پراڈکٹس کی سرپرستی کرنی چاہیے۔

شیراز سے ہم دوپہر کو چلے تھے اور شام تک اس سفر کا بخیر یت اختتام ہوا، اصفہان کا اڈّہ بھی شیراز کی طرز کا تھا بلکہ ا س سے بھی بڑا اور زیادہ خوبصورت تھا۔کاش ہمارے ہاں بسوں کے اڈے بھی اُسی طرح کے بنائے جا سکیں۔ حکومت اور ٹرانسپورٹ کمپنیوںکو ملکرشہروںمیں خوبصورت اڈے بنانے چاہئیں۔اڈے سے ٹیکسی لے کر ہم ہوٹل کی جانب چلے تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا’’ اصفہان کی کیا خصوصیّت ہے جو اُسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے؟‘‘

ڈرائیور نے کہا میں تھوڑی دیر میں آپ کو بتاتا ہوں، کچھ دیر بعد ہم شہر میں سے گزرتے ہوئے دریا کے ساتھ والی سڑک پر آگئے تو ،ڈرائیور نے اشارہ کیااُدھر دیکھیں، دریاکے دونوں جانب میل ہا میل تک’’ سبز قالین‘‘ بچھا ہوا نظر آیا۔ اور اُس پر ہزارہا لوگ گروپوں اور ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے۔ بڑا دلفریب نظارہ تھا،ڈرائیور نے کہا یہ ہلکی سی جھلک ہے،مگر رات کو جب آپ’’ نقشِ جہاں‘‘ دیکھیں گے تو آپ کو اصفہان کے بارے میں مزید سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں رہیگی ۔

اصفہان کی خوبصورتی پر یہاں کے حکمرانوں اور عام شہریوں کو اسقدرناز رہاہے (اور اب بھی ہے) کہ وہ اسے نصفِ جہاں یعنی آدھی دنیاکے برابر قرار دیتے رہے ہیں ۔ تہران کے جنوب میں چار سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اصفہان صدیوں تک ایران کا دارالحکومت رہاہے۔ گیارہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک کے سات سو سال اس کی ترقّی و خوشحالی کے سال تھے۔خصوصاً صفوی دور کے شاہ عبّاس دوم کا دور جب اصفہان کو دوسری مرتبہ دالحکومت بنایا گیا ۔سولہ لاکھ نفوس کا یہ شہر آج بھی تہران اور مشہد کے بعد ایران کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ ماضی کی شان وشوکت کے آثار یہاں اب بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔ شہر کی سڑکیں کشادہ ہیں، دورویہ سایہ دار درخت ہیں جن کا گھناسایہ فٹ پاتھوں کو بھی ٹھنڈارکھتا ہے، ماضی کے حکمرانوں کے عالیشان محلات اور پر شکوہ مساجد ہر جگہ نظر آتی ہیں۔

جغرافیائی طورپر اس کے مرکزی محل وقوع کے باعث یہ شہر ایک اہم فوجی چھائونی کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ اسی لیے اس کا نا م سافاہا ن پڑگیا جسکے معنی ہیں وہ جگہ جہاں فوج رکھی جائے ۔اُسی سے بگڑتا ہوا یہ اصفہان کی شکل اختیار کرگیا۔

اصفہان کو ساسین سلطنت(224 __ 651 ء) میں کسی حد تک اہمیت حاصل ہوئی۔ساسن حکمران یزد گرد اوّل کی ملکہ شوشن دُخت نے اس علاقے میں یہاں بڑی تعداد میں یہودی لاکر آباد کیے اور اس علاقے کو یہودیا کہا جانے لگا۔

مگر اصفہان کو عزّت و اہمیت اور زیادہ ترقی اُسوقت حاصل ہوئی جب عرب مسلمانوں نے 642میں اس پر قبضہ کیااور اِسے الجبال صوبے کا ہیڈ کواٹر بنا دیا،دسویں صد ی عیسوی میں جب عبّا سی سلطنت زوال پذیر ہوئی تو حکومت کی باگ ڈور مقامی قبیلے بوواحد کے ہاتھ آگئی۔ترک حکمران اور سلجوق سلطنت کے بانی طغرل بیگ نے گیارہویں صدی میں سب سے پہلے اصفہان کو اپناپایہء تخت بنایا ۔اس کے پوتے ملک شاہ (جوایک قابل حکمران تھا) کے دور میں بھی اصفہان کو بڑی وسعت اورترقی نصیب ہوئی۔

مشہور مورّخ ابنِ بطوطہ 1327 میں اصفہان آیا اور اس نے اس شہر کے بارے میں لکھا کہ ’’اصفہان جو ایران کا سب سے بڑا اور خوبصورت شہرتھااب کھنڈربن چکاہے‘‘۔ اس کے بعد اصفہان کو صفوی دورِ حکومت (1501_ 1736) میں بے پناہ عزتّ وعظمت حاصل ہوئی۔ شاہ عباس دوم (1588_ 1629) نے دوبارہ دارالحکومت بنانے کے ساتھ ساتھ ِاسے دنیا کا سب سے خوبصورت شہر بنادیا۔اُسوقت یورپ کے امراء سیرکے لیے اصفہان آیا کرتے تھے۔

صفوی دور زوال پذیر ہواتو اس کی اہمیت میں کچھ کمی آئی۔1775میں قاجار سلطنت کے بانی آغا محمد خان نے دارالحکومت اصفہان سے تہران منتقل کر لیا۔بیسویں صدی میں اصفہان کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوا۔اسّی کی دھائی میں ایران، عراق جنگ میں بھی لوگ بڑی تعداد میں اصفہان منتقل ہوگئے۔ایران کے شہروں کا انفرااسٹرکچر حیران کن حد تک قابلِ رشک ہے۔ سولہ لاکھ آبادی کے اس شہر کا ہوائی سفر کے لیے بین الاقوامی ائرپورٹ ہے، انڈرگرائونڈ میٹرو بھی ہے،شہرمیں آٹھ یونیورسٹیاں ہیں۔بے شمار خوبصورت مساجد اورامام بارگاہیں ہیں،بہت سے میوزیم اورمزارات ہیںاور شہر کے درمیان سے دریا بہتا ہے جس پر جگہ جگہ خوبصورت پل تعمیر کیے گئے ہیں ۔

ہوٹل میں چَیک اِن ہونے کے بعد ہم نے اپنے اپنے کمروں میں سامان رکھا،تھوڑی دیر کے لیے بستر پر لیٹ کرکمر سیدھی کی اورنہانے کے لیے باتھ روم چلے گئے۔ نیم گرم پانی سے شاور لیا تو نہ صرف سفرکی تھکاوٹ دور ہوگئی بلکہ کندھوں اور ٹانگوں کی ٹکور بھی ہو گئی۔میں تیار ہو کر لابی میں پہنچا تو صفدر اور سعد پہلے ہی تیار ہو کر صوفوں پر براجمان تھے ۔اصفہان میں داخل ہوتے ہی احسا س ہو گیا تھاکہ اصفہان،شیراز سے بڑابھی ہے اور قدرے ٹھنڈا بھی ۔ہوٹل دیدہ زیب تھا اور ریسیپشنسٹ کہیں زیادہ خُوبرو۔نام پوچھا تو خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے بولی، فاطمہ؛ ہم نے نام سنتے ہی عزّت و تکریم سے سر جھکا دیے۔

پھر ہم نے فاطمہ سے کہا ’’خانم ! اصفہان کی سیر کے لیے تو ہم صبح نکلیں گے اِسوقت کہیں کھانا کھانے کے لیے جا نا چاہتے ہیں، اگر کسی مناسب ریستوران کا پتہ بتادو توہم مشکور و ممنون ہونگے ‘‘کہنے لگی’’نقشِ جہاں دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کا یہی تو وقت ہے۔ آپ دس منٹ میں ’’ نقشِ جہاں‘‘ پہنچ جائیں گے،وہا ں آپ لوگخوب گھومیں پھریں۔ وہاں بیشمار ریستوران ہیں، وہیں کھانا کھائیںاور اس کے بعد خاجوپُل دیکھنے چلے جائیں، وہاں آدھی رات کو بھی دن کا سماں ہو گا‘‘۔

ہم نے فاطمہ کا شکریہ اداکیا ،اُس کے فون کرنے کے پانچ منٹ بعد ٹیکسی آگئی اور ہم اصفہان نصفِ جہان کی سب سے خوبصورت جگہ دیکھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔دس بارہ منٹ چلنے کے بعد ٹیکسی رک گئی اور ڈرائیور نے اشارے سے بتایا کہ اس سے آگے گاڑی نہیں جاتی، یہ شاہی بازار ہے،اس میں چلتے جائیں تھوڑی دیر چلنے کے بعد آپ نقشِ جہاں پہنچ جائیں گے۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔