جہاں پناہ! اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں؟

 بدھ 4 ستمبر 2019
عالی جاہ! آپ نے فرمایا مہنگائی بڑھے تو گھبرانا نہیں۔ ہم نہیں گھبرائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالی جاہ! آپ نے فرمایا مہنگائی بڑھے تو گھبرانا نہیں۔ ہم نہیں گھبرائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہاتھ میں تسبیح، سوراخ والے جوڑے، چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ، احادیث نبویﷺ اور ریاست مدینہ کے واقعات سے مزین خطاب سن کر زنگ آلود دل منور ہوجاتے ہیں۔ وہ ریاست مدینہ جس میں غریب اور امیر، چھوٹے اور بڑے، مسلمانوں اور غیر مسلموں کو برابری کے حقوق حاصل تھے۔ وہ ریاست جس کے سربراہ کے آخری خطبے پر اقوام متحدہ کا چارٹر تشکیل دیا گیا۔ وہ ریاست جس میں بھوکا کتا بھی مرجاتا تو حکمران پریشان ہوجاتا، اسی غم میں روتے روتے راتیں گزار دیتا۔ وہ ریاست جس میں حکمرانوں، ان کی اولاد کو بھی جرم کرنے پر سزا ملتی، خزانے کی باز پرس ہوتی۔ اسی ریاست کے اصولوں کی بنیاد پر ہماری ریاست بھی وجود میں آئی۔

جلسوں میں کہتے رہے ہم اس ملک کو اسی مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر اٹھائیں گے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ تقریروں میں کہے الفاظ عملی شکل اختیار کرلیتے، منہ سے نکلے الفاظ کردار کی عملی تصویر بن جاتے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ریاست مدینہ میں جہاں عروج کی انتہا تھی، اس کے مقابلے میں یہاں زوال کی انتہا ہے۔ ہم تقریریں کرتے رہے اور جیل میں ذہنی مفلوج بے گناہ موت مارا گیا۔

ہم تقریریں کرتے رہے، ساہیوال کے مظلوم طاقتوروں کے بوجھ تلے دب گئے۔ ماڈل ٹائون کے متاثرین آہیں بھرتے بھرتے سوگئے۔

حکومت ایک سال قانون کی تیاری کرتی رہی اورچھوٹا چور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دم توڑ گیا۔ حکومت برابری کا یقین دلاتی رہی، میاں جاوید ہتھکڑیوں میں موت کو گلے لگا گیا۔ چھوٹا چور صلاح الدین معصومانہ سوال کرتا ہے ’’ تم نے لوگوں کو مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟‘‘ بڑے چور کہتے ہیں ’’ہمارے پاس ٹی وی، فریج، اے سی رکھوا دو، ہمارے سیل میں کلینک بنادو‘‘۔ چھوٹے چور کا بڑا باپ (استاد) بیٹے کی لاش وصول کرتے ہوئے کہتا ہے ’’میرا بیٹا بے قصور تھا، ذہنی معذور تھا‘‘۔ کسی کو یقین نہیں آتا۔ بڑے چورکا وکیل پیش ہوتا ہے اور وہ صادق اور امین قرار پاتا ہے۔ ایسا کیوں؟

قوم چوری کے دو سو ارب روپے باہر سے آنے کا انتظار کرتی رہی، یہاں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 208 ارب روپے معاف کردئیے گئے۔ قوم بیوروکریسی کے سیاست سے پاک ہونے کے انتظار میں تھی کہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر افسر تبدیل کردئیے گئے۔ اداروں میں میرٹ تو نہ لایا جاسکا، نوجوان ایک کروڑ نوکریوں کا انتظار کرتے رہے۔ نوکریاں کہاں ملنی تھیں، پہلے والے بھی بیروزگار ہوگئے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ علیحدہ صوبے کا انتظار کرتے رہے، تخت لاہور سے آزادی کا سوچتے رہے، صوبہ نہ ملا، فنڈز بھی نہ ملے لیکن تونسہ کی تقدیر بدل گئی۔ جو پورے صوبے پر خرچ ہوتا تھا ڈی جی خان میں بانٹ دیا گیا۔ قوم خارجہ پالیسی میں اصلاحات کا انتظار کرتی رہی، بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ پکا کرگیا۔ ہم ڈھوک حسو کے کونسلر کو فون کرتے رہے، دشمن ہمارے سینے پر مونگ دل کر ایوارڈ لے گیا۔ ہماری ڈرائیوری، ہمارا پروٹوکول بے کار گیا۔

کراچی میں قبضہ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کے نام پر غریبوں کی جھگیاں اجاڑ دی گئیں۔ کراچی تو نہ سنورا کچرے کا ڈھیر ضرور بن گیا۔ 50 لاکھ سستے گھر پانے والے انتظار میں ہیں، گھر نہیں بنے افتتاح بار بار ہورہا ہے۔

عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دم توڑ رہے ہیں اور پچپن ارب روپے ٹیکس وصولی کا سالانہ ہدف پورا نہیں ہوپارہا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دو ماہ کے دوران چونسٹھ ارب روپے کا شارٹ فال ہے۔ یہ ہدف کا دس فیصد بنتا ہے۔ شارٹ فال اسی رفتار سے رہا تو ساڑھے پانچ ارب روپے کم وصول ہوں گے اور بجٹ خسارہ بڑھ جائے گا۔ مشیر خزانہ اس صورتحال سے پریشان ہیں تو چیئرمین ایف بی آر مطمئن نظر آتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت مجموعی اندرونی اور بیرونی قرضے 31 ہزار 800 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ 7600 ارب روپے اضافہ ہوا۔ صرف مقامی قرضے 17 ہزار سے بڑھ کر 21 ہزار 258 ارب روپے ہوچکے ہیں۔ بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر سے بڑھ کر 105 ارب ڈالر تک ہوچکے ہیں۔ روپے کی قدر کم ہونے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے سے 42 فیصد قرض بڑھے۔ ایک سال میں 1200 ارب روپے کمرشل بینکوں سے قرضہ لیا۔ ایک سال میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی آئی۔ زرمبادلہ کے ذخائر 15 ارب ڈالرز ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 7 ارب 72 کروڑ ڈالرز ہیں۔ نجی بینکوں کے پاس 7 ارب 27 کروڑ ڈالرز ہیں۔ ترقی کی شرح آدھی رہ گئی۔

گزشتہ سال جون میں گروتھ ریٹ 5.3 فیصد تھا، جو رواں ماہ 3 فیصد کے درمیان ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری 3 ارب 10 ارب ڈالر تھی، اب 1 ارب 60 کروڑ ڈالرز ہے۔ ایک سال پہلے شرح سود 5.75 تھی، اب 13.25 فیصد ہوگئی ہے۔ مہنگائی کی شرح 7 سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ 2021 تک حالات ایسے ہی رہیں گے۔

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

ایک سال مکمل ہونے پر بظاہر سیاسی اطمینان نظر آتا ہے اور اس کے اطمینان کی بڑی وجہ حکومت کے مخالفین میں اتحاد کا فقدان ہے۔ زبانی طور پر بڑے بڑے دعوے کرنے والی اپوزیشن میں وقفے وقفے سے اختلاف نظر آتا رہتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ناکامی میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ضمیر فروشوں کا سراغ لگانے کی بات کی تھی، اس کاوش کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں آیا۔ اے پی سی پر اے پی سی کھیلی جارہی ہے لیکن اس کا نتیجہ صفر ہے۔ یہ بیماروں کی فوج اور بکریوں کا ریوڑ بن چکے ہیں، کسی کی کمر میں درد ہے تو کسی کا دل خراب ہے۔

جب پریشانی کی بات کی جاتی تھی، کام کا پوچھا جاتا تو کہا جاتا تھا گھبرانا نہیں۔ کہتے رہے کہ اب وقت ہی کیا ہوا ہے، مستقبل میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔ ہمارے اقدامات کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ معیشت مضبوط ہوگی۔ دشمن کو واضح پیغام جائے گا کہ ’’ہم ایک ہیں‘‘ تم ہمارے کشمیر سے بھاگ جاؤ۔ وہ امریکا ہو، افغانستان ہو، بھارت ہو، ایران ہو، مشرق وسطیٰ کے ممالک ہوں، سب کو پتا لگ گیا ہے ’’ہم ایک صفحے پر ہیں‘‘۔

پولیس میں اصلاحات سے ملک امن کا گہوارا بن جائے گا۔ غریب اور امیر کو برابری کی بنیاد پر انصاف ملے گا۔ ملک صاف اور شفاف ہوجائے گا، ایسے شفاف جیسے ڈٹرجنٹ سے برتن۔ ہم ایسی امید پر قائم رہے اور نہیں گھبرائے۔

عالی جاہ! آپ نے فرمایا مہنگائی بڑھے تو گھبرانا نہیں۔ ہم نہیں گھبرائے۔ آپ نے گیس، پٹرول مہنگا کیا، ہم نہیں گھبرائے۔ بجٹ میں ٹیکس بڑھایا، ہم نہیں گھبرائے۔ کرائے بڑھائے، ہم نہیں گھبرائے۔ ڈالر نے چھلانگیں لگائیں، ہم نہیں گھبرائے۔ نوکریاں دینے کے بجائے چھینی گئیں، ہم نہیں گھبرائے۔ اب تو ہر وعدہ وفا نہیں ہوا۔ قومی سلامتی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ کشمیر پر سودے کا شور ہے۔ پہلے امید تھی، اب خوف آنے لگا ہے۔ جہاں پناہ اجازت ہو تو تھوڑا سا گھبرا لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔