پولیس اصلاحات اور کچھ تجاویز

اویس حفیظ  ہفتہ 14 ستمبر 2019
پولیس نظام میں بہتری کیسے ممکن ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پولیس نظام میں بہتری کیسے ممکن ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ستمبر کے پہلے ہفتے میں پنجاب پولیس کے کم و بیش 13اسکینڈلز سامنے آئے۔ صلاح الدین پر مبینہ تشدد اور پھر اس کی پولیس حراست میں موت، مسیحی نوجوان کی پولیس تشدد سے موت، خاتون سے پولیس افسر کی بدکلامی، خاتون پر پولیس تشدد، پولیس کے نجی ٹارچر سیلز کا ’’انکشاف‘‘ (حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں) سمیت کئی اسکینڈلز یکے بعد دیگر سامنے آئے۔ اگر غور کیا جائے تو حالیہ دنوں میں لاہور، رحیم یار خان، پاکپتن، قصور، وہاڑی اور ڈیرہ غازی خان سے پولیس اسکینڈلز سامنے آئے ہیں، جن سے علم ہوتا ہے کہ پولیس کا رویہ شہری و دیہی علاقوں میں یکساں ہے۔ لاہور سے 7 دنوں میں 8 اسکینڈلز سامنے آئے۔ اگر ’’تختِ لاہور‘‘ کا یہ عالم ہے تو دور دراز علاقوں بالخصوص جنوبی پنجاب کی صورتحال کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

پولیس کے اسکینڈلز کوئی نئی بات نہیں۔ ہر ماہ کوئی نہ کوئی نیا اور بڑا اسکینڈل ضرور سامنے آتا ہےاور ہر بار سوال کیا جاتا ہے کہ آخر پولیس ملزموں، مجرموں پر اتنا وحشیانہ تشدد کیوں کرتی ہے؟ کچھ کا خیال ہے کہ شاید اس لیے کہ پولیس کو اس طریقہ تفتیش کے سوا کوئی دوسرا طریقہ آتا ہی نہیں۔

کچھ کا خیال ہے کہ چونکہ پولیس کا محکمہ 1861 میں انگریز کے عہدِ حکومت میں تشکیل دیا گیا، اس وجہ سے اس کی بنیاد میں ہی خامی ہے، کیونکہ تاجِ برطانیہ نے پولیس کا محکمہ حاکم و محکوم میں فرق واضح کرنے کےلیے ہی تشکیل دیا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انگریز دور میں پولیس کے اتنے اسکینڈلز سامنے کیوں نہیں آئے؟ شاید اس وجہ سے اس وقت موبائل فون نہیں تھا یا شاید اس لیے کہ محکوم کو حاکم کے خلاف لب کھولنے کی بھی اجازت نہ تھی، اگر انگریز دور میں پولیس کے خلاف شکایات کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو بات واضح ہو۔ البتہ ’’شہاب نامہ‘‘ یہ بتلاتا ہے کہ ’’کمپنی کی عدالتیں مقدموں کا فیصلہ انصاف کی رو سے نہیں، بلکہ مصلحت کی رو سے کرنے کی پابند تھیں۔ کمپنی کے عدالتی نظام میں کسی گورے کے ہاتھوں کالے کا قتل بڑا جرم شمار نہ ہوتا تھا… اس جرم کی پاداش میں صاحب کو کبھی ایک روپیہ جرمانہ ہوجاتا تھا، کبھی محض وارننگ ملتی تھی، کبھی بالکل باعزت بری۔‘‘

اسی طرح سزاؤں کے حوالے سے ملتا ہے کہ ’’ہندوستانیوں کو سب سے کڑی سزا چوری کے جرم میں ملتی تھی، مجرم عورتیں ہوں یا مرد، عام طور پر انہیں چوراہوں میں سرِعام ہر روز 39 کوڑے اس وقت تک لگائے جاتے تھے جب تک وہ چوری کا مال واپس نہ کریں۔ تپے ہوئے گرم لوہے سے چہرہ، ہاتھ اور ٹخنے داغنا بھی ایک عام سزا تھی۔ کچھ قیدیوں کو ہفتے میں ایک یا دو بار کاٹھ بھی مارا جاتا تھا۔ کسی کو لکڑی کے شکنجے میں کس کر اُس کی نمائش کرنے میں جسمانی تکلیف کی نسبت تذلیل اور تشہیر کا عنصر زیادہ نمایاں ہوتا تھا۔‘‘

انگریز کے دور اور اپنی پولیس کی سزاؤں میں اس قدر مماثلت دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پولیس نے یہ سزائیں اسی نظام سے سیکھی ہیں۔ جدید سائنسی اور نفسیاتی طریقوں سے تفتیش کا ہماری پولیس سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اب پنجاب میں پولیس کےلیے انویسٹی گیشن اسکول قائم کیا گیا ہے، تاہم یہ علم نہیں کہ فرانزک لیب، تفتیش کے مختلف آلات اور آئی ٹی لیب جیسی جدید سہولتوں سے عوام کے مستفید ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہے۔ کیونکہ شہباز شریف جب دوسری بار وزیراعلیٰ (2008) بنے تو انہوں نے بھی پولیس اصلاحات کا بیڑہ اٹھایا تھا اور اس ضمن میں فوری طور پر پولیس کی تنخواہوں میں سو فیصد تک اضافہ بھی کیا گیا۔ دس سالہ ریاضت کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

پولیس پر تنقید شاید ہمارے معاشرے کا آسان ترین کام ہے اور اگر اس حوالے سے مقالہ لکھا جائے تو تحقیق میں قطعاً کوئی دشواری نہ ہوگی کہ یہاں تو دفتر کے دفتر بھرے جاسکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پولیس نظام میں بہتری کیسے ممکن ہے۔ اس حوالے سے اب طرح طرح کی سفارشات اور تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اپنی کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ تاہم میرے خیال میں ایک سابق ایماندار پولیس افسر ہی کوئی قابلِ عمل لائحہ عمل پیش کرسکتا ہے کہ پنجابی محاورے کے مطابق یہ وہ مقام ہے کہ
راہ پیا جانے یا وا پیا جانے

پولیس کے محکمے کو آپ تب تک درست نہیں کرسکتے جب تک آپ کا خود اس سے ’’وا‘‘ نہ پڑا ہو۔ باقی تو سب کتابی باتیں ہیں۔ چند برس قبل برادرم لقمان شریف کے ہمراہ لاہور پولیس لائنز میں ایک ایس پی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ مزیدار کافی پینے کے بعد سوال کیا کہ ’’ایف آئی آر‘‘ جو درحقیقت ’’فرسٹ انفارمیشن رپورٹ‘‘ ہوتی ہے، کا اندراج اس قدر مشکل کیوں بنادیا گیا ہے کہ وہ ’’فائنل انفارمیشن رپورٹ‘‘ لگنے لگے؟

ایس پی صاحب شاید سوال سمجھے نہیں، بتانے لگے کہ پچھلے سال جو ایف آئی آرز درج ہوئی تھیں، ان میں سے اتنے فیصد جھوٹی نکلیں۔ اب ہم نے اس کا شکنجہ مزید کس دیا ہے، پہلے جو ہر کوئی جاکر ایف آئی آر درج کروا دیتا تھا، اب یہ تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔

سائل کا سوال پھر بھی وہی رہا اور آج تک وہی ہے۔ فرسٹ انفارمیشن میں کون یہ بتاتا یا بتا سکتا ہے کہ جرم تھانے کی حدود سے اتنے گز یا اتنے کلومیٹر دور ہوا؟ فلاں سمت میں ہوا؟ یہ وقت تھا؟ یہ یہ لوگ پاس موجود تھے اور ایسی ہزار ہا تفصیلات۔

یہاں وہ مشہورِ زمانہ لطیفہ یاد آتا کہ کٹہرے میں کھڑے گواہ سے استغاثہ نے سوال کیا کہ جب جرم ہوا تو آپ جائے وقوعہ سے کتنی دور کھڑے تھے؟ ’’جی میں جائے وقوعہ سے پندرہ فٹ چار انچ دور کھڑا تھا‘‘ گواہ نے اطمینان سے جواب دیا۔ استغاثہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ کو بالکل درست فاصلے کا کیسے علم؟ کیا آپ نے فاصلہ ناپا تھا؟ ’’جی، کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ عدالت میں کوئی بیوقوف مجھ سے ضرور یہ سوال پوچھے گا‘‘۔

ایف آئی آر کے اندراج کےلیے آپ کو ذرا ذرا سی باتوں کا بھی مکمل علم ہونا چاہئے۔ پانچ، چھ سال پہلے بھائی کا قیمتی موبائل چوری ہوا تو تھانے جاکر علم ہوا کہ موبائل چوری کی تو ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوتی۔ شاید قانون بناتے وقت یہ علم نہیں ہوگا کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ موٹر بائیک سستی اور موبائل فون مہنگے ہوں گے۔ ان ہی دنوں کسی جاننے والے نے ایف آئی اے میں موجود اپنے کسی ’’سورس‘‘ کی وساطت سے اپنا چوری شدہ موبائل واپس پانے کی داستان سنائی تو پہلا سوال ہی یہ کیا کہ ایف آئی آر کیسے درج کروائی؟ جواب ملا: موبائل کے ساتھ والٹ، جس میں شناختی کارڈ بھی تھا، کی چوری کی درخواست دی تھی۔ شناختی کارڈ گم ہونے پر تو ایف آر ہی درج ہوتی ہے۔

یہاں یہ سبق بھی ملا کہ جب قانون کے دروازے بند کیے جائیں تو جھوٹ کے دروازے خودبخود کھل جاتے ہیں۔

جیل خانہ جات سے منسلک رہنے والی اہم شخصیت نے ایک بار برٹش دور کے قتل کی ایک ایسی ایف آئی آر دکھائی تھی جس پر چار یا غالباً پانچ لوگوں کو سزائے موت ہوئی تھی۔ دو سطری ایف آر میں درج تھا ’’ فلاں چوکیدار جب اپنے مقررہ وقت پر گودام پہنچا تو اس نے گودام میں فلاں شخص کی لاش دیکھی‘‘۔ نہ وقت، نہ دن، نہ سمت، نہ فاصلہ، نہ تھانے کا نام پتہ اور نہ یہ جھگڑا کہ یہ کس تھانے کی حدود میں آتا ہے۔

تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی، مقصد بات کرنے کا صرف اتنا تھا کہ ایف آئی آر کو فرسٹ انفارمیشن ہی رہنے دیا جائے اور ہر جرم، ہر بات، ہر ہر اطلاع کی ایف آئی آر کا اندراج یقینی بنایا جائے، تو بہت سے جھوٹ خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کہ پھر تو جھوٹی ایف آئی آر کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا اور کوئی کسی سے محفوظ نہ رہے گا۔ یہاں اس کا بھی ایک حل ہے۔

دنیا میں ایک اصطلاح ’’فوک وِزڈَم‘‘ کی استعمال کی جاتی ہے۔ مرحومین اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی بے شمار تحریریں اسی فلسفے کی عکاسی کرتی ہیں کہ ’’مصیبتیں جہاں سے پیدا ہوتی ہیں، ان کا علاج بھی وہیں پوشیدہ ہوتا ہے‘‘۔ اگر فوک وِزڈَم میں ہم اپنے مسئلے کا حل تلاش کریں تو یہ جملہ ہم سب نے کہیں نہ کہیں سنا اور پڑھا ہو گا کہ ’’ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں پیزا پولیس سے جلدی پہنچ جاتا ہے‘‘۔ اس ایک جملے میں ہمارے مسئلے کا حل پوشیدہ ہے۔ پیزا اس لیے جلدی پہنچتا ہے کہ جب ہم فوڈ چین فون کرتے ہیں تو وہ اپنی نزدیکی برانچ سے ڈیلیوری بوائے کو بھیج کر ہمیں پیزا پہنچا دیتی ہے۔ پولیس کے معاملے میں لیکن ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کسے فون کرنا ہے۔

اگر یہ سب کچھ ایک نادیدہ سسٹم کے تحت ہو تو معاملات میں قدرے بہتری آسکتی ہے۔ مثلاً مجھے کوئی کام ہے یا کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہے، کوئی شکایت ہے تو میں علاقائی تھانے سے رجوع کرنے کے بجائے ’’پولیس ہیڈکوارٹر‘‘ سے کیوں نہ رابطہ کروں؟ میں پولیس ہیلپ لائن پر فون کروں، اپنی شناخت کے بعد اپنا مسئلہ درج کرواؤں اور ہیڈ کوارٹر کسی متعلقہ بندے کو بھیج دے تو بہت سے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام تر اختیارات ایک ہی فرد کے ہاتھ میں سونپ دیئے جاتے ہیں۔ اگرچہ پولیس جیسے حساس محکمے کے اختیارات کم کرنا کسی طور درست نہیں مگر شخصیات نہیں، اداروں کو مضبوط بنانا اہم ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر میری کسی سے ذاتی دشمنی ہے اور میں اسے سبق سکھانا چاہتا ہوں تو میں پولیس میں کوئی اپنی جان پہچان کا بندہ تلاش کروں گا اور اس کے ذریعے اپنے دشمن کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرواؤں گا۔ میرا پولیس والا دوست اس بندے کو گھر سے اٹھائے گا اور تھانے یا اپنے نجی ٹارچر سیل میں لے جاکر تشدد کا نشانہ بنائے گا۔ اگر کل کو کوئی اس پولیس والے سے پوچھ گچھ کرتا ہے وہ اس کا صاف جواب ہوگا کہ اس کے خلاف فلاں فلاں ایف آئی آر درج ہیں، اس وجہ سے اسے اٹھایا گیا ہے۔ وہ شخص بے گناہ ہے، یہ ثابت کرنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا اور اس دوران وہ کافی کچھ بھگت چکا ہوگا۔

اگر ایف آئی آر صرف پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہی درج ہو اور ہیڈکوارٹر ہی یہ فیصلہ کرے کہ کون سا کیس کس تفتیشی کو دینا ہے تو نہ صرف جھوٹی ایف آر کی حوصلہ شکنی ہوگی بلکہ پولیس کے شخصی اختیارات میں بھی کمی آئے گی۔ علاقائی تھانوں کے بجائے اگر چوکیاں قائم کی جائیں اور پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہی رہے اور وہاں سے ہی اسے ذمے داریاں سونپی جائیں تو بہت سے جرائم خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ پھر نہ تو کوئی تھانے کو منتھلی دے کر جوے اور قمار بازی کے اڈے قائم کرسکے گا اور نہ ہی منشیات فروشوں کو پولیس کی سرپرستی حاصل ہوسکے گی، نہ ایس ایچ او علاقے کا بادشاہ بن سکے گا اور نہ ہی پولیس گردی کے واقعات کی بھرمار دیکھنے کو ملے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔