تین ارب پرندوں نے امریکا اور کینیڈا کیوں چھوڑ دیا؟

وکٹوریہ گل  جمعرات 26 ستمبر 2019
 ایشیا کے مخصوص ’گانے والے پرندے‘ بھی بحران سے دوچار ہیں

 ایشیا کے مخصوص ’گانے والے پرندے‘ بھی بحران سے دوچار ہیں

سائنس کی دنیا میں ہونے والی دو بڑی تحقیقات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایشیا اور امریکہ میں پرندوں کی آبادی بحران کا شکار ہے۔

پہلی تحقیق کے مطابق امریکہ اور کینیڈا میں سنہ 1970 ء کے مقابلے اب تین ارب پرندے کم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شمالی امریکہ کے 29 فیصد پرندے کم ہو گئے ہیں۔

دوسری تحقیق کہتی ہے کہ ایشیا کے مخصوص ’گانے والے پرندے‘ بحران سے دوچار ہیں۔ تحقیق کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پرندوں کی اکثریت آزاد گھومنے کے بجائے انڈونیشیا کے ’جاوا‘ جزیرے پر پنجروں میں قید ہے۔  سائنسدانوں کو امید ہے کہ ان کی تحقیق سے لوگ خطرات سے متنبہ ہو جائیں گے۔ یہ تحقیقات ’سائنس اینڈ بیالوجی کنزرویشن‘ نامی جریدے میں چھپی ہیں۔

تین ارب پرندےغائب کیسے ہو ئے؟

شمالی امریکہ میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہر طرح کے پرندے متاثر ہو رہے ہیں، خواہ وہ صحرا میں رہتے ہوں، ساحل سمندر پر یا سرسبز میدانوں میں۔ تحقیق میں براہ راست اس کی وجوہات پر کام نہیں کیا گیا لیکن سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پرندے غائب ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے گھر متاثر ہو رہے ہیں۔

تحقیق کے قائد ڈاکٹر کین روزنبرگ امریکہ میں پرندوں کی بقا کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق میں پہلی مرتبہ پرندوں کی آبادی کے اعداد و شمار دیکھے گئے۔ بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’ہمیں معلوم تھا کہ پرندوں کی کچھ اقسام کم ہو رہی ہیں لیکن ہم نے سوچا کہ نایاب پرندوں کے غائب ہونے سے عام پرندے انسانی آبادی والے علاقوں میں ان کی جگہ لے رہے ہوں گے کیونکہ وہ یہاں رہنے کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔‘

تحقیق میں ماہرین گزشتہ 50 برسوں میں پرندوں کی نگرانی کے تمام منصوبوں کی مدد سے یہ اعداد و شمار نکالے۔ انھوں نے سنہ 1970ء سے ہونے والے پرندوں کے ہر سروے کا بھی استعمال کیا۔ ڈاکٹر روزبرگ کہتے ہیں ’ہم نے دیکھا کہ پرندوں کی بڑی تعداد کم ہو گئی ہے۔ ہم اس بات پر کافی حیران ہوئے کہ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عام پرندے ہیں جنھیں ہم روز اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔‘ ان کے مطابق دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔دوسری تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں یہ انسانوں کی وجہ سے ہونے والی معدومیت کا حیرت انگیز بحران ہے۔

گانے والے پرندے

انڈونیشیا میں جاوا جزیرے سمیت ایشیا کے دیگر علاقوں میں گانے والے پرندوں کی خرید و فروخت کا بڑا کاروبار ہے۔ ان پرندوں کو جنگلوں سے پکڑ کر لایا جاتا ہے۔ سنہ 2017ء میں بی بی سی کی ہی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح اس غیر قانونی کاروبار سے گانے والے پرندوں کی کئی نسلیں معدومیت کا شکار ہو رہی ہیں۔ جاوا میں ایسے 750 لاکھ پرندوں کو پالتو جانور کے طور پر رکھا گیا ہے۔ ان میں سے کئی کو گانے والے پرندوں کے مقابلوں کے لیے رکھا جاتا ہے، جنھیں کیسو مینیا کہتے ہیں۔ان تقریبات میں پنجروں میں رکھے گئے پرندوں کے گانے کی دھن، مدت اور آواز کی بنا پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ بڑے مقابلے میں بہترین پرندوں کو 40 ہزار پونڈ تک کا انعام دیا جاتا ہے مگر ایسا کرنے سے انسان پرندوں کو جنگلات سے نکال کر اپنی ضرویات پوری کر رہے ہیں۔ محققین کے مطابق اس سے ان کی متعدد نسلوں کو خطرات لاحق ہیں۔

تحقیق کے سربراہ ہیری مارشل کہتے ہیں ’انڈونیشیا کی معیشت میں یہ تقریباً لاکھوں ڈالر کا کاروبار ہے تو اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ علاقائی سطح پر گانے والے پرندوں کی طلب اور رسد اہم ہے۔ جزیروں پر سینکڑوں ایسی مارکیٹیں ہیں جہاں پرندوں کی 200 سے زیادہ مختلف نسلیں دستیاب ہیں۔‘

ڈاکٹر مارشل مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی اور چیسٹر چڑیا گھر میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اپنے سروے میں وہ جاوا کے 3000 گھروں میں گئے جو انڈونیشیا کا گنجان آباد جزیرہ ہے۔ یہاں سے ان کی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ جاوا کے گھروں میں 750 لاکھ پرندوں کو قید رکھا گیا ہے۔ جنگلات کے مقابلے ان گھروں میں گانے والے پرندوں کی تعداد زیادہ ہے۔

حل کیا ہے؟

دونوں تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ نقصان کے باوجود بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے پروفیسر سٹوورٹ مارسڈن ایشیائی ممالک میں گانے والے پرندوں کے کاروبار پر کام کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق دراصل انڈونیشیا کے لوگوں میں پرندوں کو قید کرنے کا قومی جنون اس لیے پیدا ہوا کہ وہ اس جانور کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ’میرا خیال ہے اس جنون کو ان کی بقا کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر روزنبرگ نے پرندوں کے تحفظ کی تحریک کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شمالی امریکہ میں پرندوں کی آبادی میں کمی کے بعد اب بھی پرامید ہیں۔ ’امریکہ اور کینیڈا میں بطخ کے شکاریوں نے بھی مرغابیوں کی کم ہوتی تعداد دیکھ کر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بطخوں کی آبادی بڑھانے کے لیے پانیوں میں حیات کے تحفظ اور بحالی کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔‘

’یہ ایک طریقہ ہے۔ اگر ہم ایسا ان پرندوں کے لیے کر سکیں جن کا شکار نہیں کیا جاتا اور پھر بھی لوگ انھیں پسند کرتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ پرندے واپس آسکتے ہیں۔‘

(بشکریہ بی بی سی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔