لطیفہ

طاہر سرور میر  ہفتہ 1 ستمبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

دل چاہتاہے کہ خود بھی ہنسوں اورآپ کو بھی ہنساوں۔ دل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ آپ کو بعذریہ sms اور دوسرے ’’معتبر ذرائع‘‘ سے موصول ہونے والے لطائف سے لبھاوں۔ مگر پٹرولیم مصنوعات کی حالیہ قیمتوںنے حس ظرافت کو خاکستر کر دیا ہے۔ وطن عزیز کی فضا اور میرے دل کا موسم، محسن نقوی کے اس ماتمی شعر کی طرح سا ہو گیا ہے جس میں مرحوم نے ملک کے غریب عوام کے غموں کا تعزیہ یوں اٹھایا تھا کہ

روز کیا تازہ جنازے کا جلوس
روز اک غم کا مہورت کیوںہے؟

پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوںکے بعد عوام جھولیاں اٹھا، اٹھا کر بددعائیں دینے پر اتر آئے ہیں۔ پٹرول ایک بار پھر سینچری عبور کر گیا ہے اور اس نے غریب عوام کو صفر پر آوٹ کر دیا ہے، یوں لگتا ہے اب مہنگائی کی یہ سینچریاں حکمرانوںکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پویلین بھیج دیں گی۔ کہتے ہیں غموں پر سینہ کوبی کرنا غموں کا علاج نہیں۔ اس طرح غم شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ لہٰذا غم کا توڑ یہ ہے کہ اس پر ہنسا جائے۔ بلکہ ٹھٹھا اڑایا جائے۔ آئیے حالیہ مہنگائی اور تازہ غموںکا ٹھٹھہ اڑتے ہیں۔ میرے پاس مہنگائی کے اس دہشت گردانہ حملے کا توڑ لطیفہ گردی ہے۔ یہ امدادی پیکیج ( لطیفہ) اداکارہ میرا نے بھیجا ہے جو مجھے بعذریہ sms موصول ہوا ہے۔

دل چاہتا ہے کہ یہ لطیفہ من وعن آپ کی خدمت میں پیش کروں مگر میںنے اپنے تئیں قسم کھائی ہے کہ پیمرا قوانین کا احترام کروں گا۔ لیکن میںچونکہ اپنے پڑھنے والوں سے کمیٹڈ ہوں اس لیے ان کے مطالعاتی ذوق اورآزادی اظہار پر قدغن لگانے کے بجائے اداکارہ کے بھیجے لطیفہ کے بنیادی نکات کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لطیفہ ہو، تنازعہ ہو یا پھر کوئی مقدمہ ہمارے ہاں اس کے بنیادی نکات بیان کرنے کی ’’مثبت صحافتی روایت‘‘ ان دنوں فروغ پا چکی ہے۔ چوہدری نثار علی خان آف چکری کا کہناہے کہ ان کے پاس اس مثبت روایت کے فروغ کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں جو تا حال انھوں نے پیش نہیںکئے۔

بہر حال لوگ جانتے ہیں کہ لفافہ صحافت کے بانیان میں کون شامل تھے؟ ان بڑوں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے جنہوں نے اس کام کو باقاعدہ ’’فائن آرٹ ‘‘ کا درجہ دیا اور پھر یہ کام پلاٹ بلکہ پلاٹوں کے کاروبار کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ وہی بڑے تھے جنہوں نے جنرل پرویز مشرف سے پہلے جنرل آصف نواز کو ’’ نوازنے‘‘ کی پیشکش کی تھی۔ آجکل بڑے، بڑے اینکر خان ایک ایسے مقدمہ کے گیارہ بنیادی نکات کی قوالی کر رہے ہیںکل تک جس کا ذکر نہ تھا ’’کرپشن کی کہانیوں‘‘ میں۔

بات کرتے ہیں اداکارہ کے بھیجے لطیفہ کی جس کے مرکزی خیال کے مطابق ایک میراثی اپنی اکھڑی سانسوں اور انجائنا کی تکلیف کے ساتھ پنجاب کارڈیالوجی اسپتال پہنچتا ہے جہاںڈیوٹی پر موجود نرس اسے کہتی ہے کہ وہ لیٹ جائے۔ جس پر غیر سائستہ مریض کہتاہے ۔۔۔۔ مولا خوش رکھے! پہلے ای سی جی نہ کروا لواں۔۔۔۔متذکرہ لطیفہ ایک پریشان حال مریض اور ڈیوٹی پر موجود نرس کے مابین ہونے والے ڈائیلاگ سے پیدا ہونے والی مس انڈراسٹینڈنگ پر مشتمل ہے۔ ہماری سیاسی اور معاشرتی تاریخ ایسی غلطیوں اور مس انڈرا سٹینڈنگ سے بھری پڑی ہے۔

غور کیا جائے تو وطن عزیز کی66 سالہ تاریخ میں ایسی مس انڈراسٹینڈنگ تواتر سے ہوتی رہی ہیں۔ ہمارے ’’سابق‘‘ بنگالی بھائی جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی اور تحریک پاکستان کا ہراول دستہ تھے مملکت خداداد کے حصول کے 24 سال بعد ہم سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ اس مس انڈراسٹینڈنگ کا نام بنگلہ دیش رکھا گیا۔ 1947ء کی تقسیم ہند کے بعد سے لے کر اب تک بھارت سے ہماری مس انڈراسٹینڈنگ چلی آ رہی ہے۔ اس مس انڈراسٹینڈنگ کے بارے میںہمارے محب وطن تھنک ٹینکس کا کہناہے کہ ’’یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے ‘‘۔

ہندوستان سے علیحدگی کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ بحیثیت ایک قوم ہم اپنے وہ مذہبی، سیاسی اورمعاشی اہداف حاصل کرتے جس کیے لیے ہم نے پاکستان بنایا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پایا۔ اس وقت معیشت کی صورت حال یہ ہے کہ معالجین نے اس کی حالت دیکھ کر اس کے ناک اورمنہ سے مصنوعی آلہ تنفس بھی اتار لیا ہے اورگورکن کو اس کی قبر کھودنے کا آرڈر دے دیا گیا ہے۔ سیاست ہمارے ہاں ایک گالی بن چکی ہے۔ سب سے افسوس ناک فعل مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کرنا ہے جواس وقت عروج پر ہے۔ یہ اس قدر بڑا دھوکا اور فریب ہے جس کا اندازہ جان کی بازی لگانے کے بعد بھی نہیںکیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے ہی بہن بھائیوںکو قتل کرنے والے قاتل اور خودکش حملہ آور کی برین واشنگ کی جاتی ہے کہ وہ ایک عظیم مقصد کے لیے جان نچھاور کر رہا ہے ۔

’’شہدا‘‘ کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ’’جہاد ‘‘ پر آنے والی کروڑوں اوراربوں روپے کی فنڈنگ کون کر رہا ہے اور اس انوسٹ منٹ کا سارا ’’ثواب ‘‘ کون سمیٹ رہا ہے ؟ پاکستان بننے کے بعد مذہب کے نام پر مس انڈراسٹینڈنگ کو خوب عروج بخشا گیا۔ اسلام کے نام پر بنائے گئے پاکستان میںان دنوں ریاستی شناختی کارڈ کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس طرح مقتول کا نام اور ولدیت جان کر بسوں میں سوار غریبوں کو قتل کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ وطن عزیز میں جمہوریت اور آمریت کے مابین بھی ہمیشہ مس انڈراسٹینڈنگ کا بول بالا رہا ہے۔ لیکن اس بار پیپلز پارٹی کی حکومت کا اعزاز ہے کہ اس نے مس انڈراسٹینڈنگ کو انڈراسٹینڈنگ میں بدل کر اپنی حکومت کو ساڑھے چار سال تک دوام بخش رکھا ہے۔

اس بار پیپلز پارٹی کو ایک دوسری مس انڈراسٹینڈنگ کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ مس انڈراسٹینڈنگ مذید مس ہینڈل نہ ہو کیونکہ اس طرح ایک اور سالم، منتخب وزیراعظم کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کی مس انڈراسٹینڈنگ کا آغاز جمہوری دور میں ہوا کرتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس نوع کی مس انڈراسٹینڈنگ کا آغاز عموماََ جمہوری دور میں ہوتا اور آمریت میں پروان چڑھتا رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ مثال کے طور پر بے نظیر بھٹو اوران کے شوہر آصف زرداری پر بنائے جانے والے کرپشن کے مقدمات میاںنوازشریف صاحب کے دور میںبنائے گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں پروان چڑھے اور پھر این آر او کیاگیا۔ این آر او کے بطن سے 2008ء کے انتخابات اور موجودہ جمہوری نظام کی مراد پائی گئی۔ ماضی قریب کی بات ہے آصف زرداری کی امامت میں پیپلز پارٹی جب نون لیگ سے جادو کی جھپی ڈال رہی تھی تو میاں برادران نے کئی مرتبہ کہا تھاکہ بے نظیر اورآصف زرداری کے خلاف کرپشن کے تمام کیسز کی ’’مس انڈراسٹینڈنگ‘‘ کے پیچھے ایجنسیوں کا ہاتھ تھا۔ صدرآصف زرداری نے بھی میاں نواز شریف کا ہاتھ فضامیں لہرا کر بھائی چارہ اور دوستی کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کا نعرہ لگایا تھا سب دعوے مس انڈراسٹینڈنگ ثابت ہوئے۔ اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین ہونے والا’میثاق جمہوریت‘ بھی مس انڈراسٹینڈنگ ہی ثابت ہوا۔

لطیفہ کے مرکزی خیال، پلاٹ اورمکمل ہیت پر غور کریں تو یہ ایک مختصر مگر سنجیدہ کہانی ہی ہوتی ہے۔ لطیفہ کا اختتام ساری کہانی اور منظرنامے کو ایک ٹھٹھا، ایک قہقہہ یاکوئی مس انڈراسٹینڈنگ کری ایٹ کر کے ایک تفریح پیدا کرتا ہے۔ ا س ایکٹی ویٹی کو ترقیاتی یا پیداواری ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یوں تو حقائق کو لطائف بنانے کا سلسلہ 66 سال سے جاری ہے مگر تازہ سنجیدہ تحریکوںمیں2008ء کے انتخابات اور اس کے بعد آزادی کی ایک اور تحریک چلائی گئی جسے لطیفہ ثابت کیا جا رہا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام جو عوام کو کسی قسم کا سکھ دینے سے معذور رہا ہے، اب اسے ایک لطیفہ ثابت کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیںجس کا ’’غیرسرکاری‘‘ اعلان منظور وسان نے کر دیا ہے۔ مہنگائی کا بڑھتا ہوا طوفان اور سونامی جمہوریت اوراس نظام کو ایک لطیفہ اور مس انڈراسٹینڈنگ ثابت کرنے کے لیے کافی ہو گا!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔