عثمان بزدار ہی کو کیوں رہنا چاہیے!

علی احمد ڈھلوں  پير 9 دسمبر 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

عثمان بزدار نے جب وزارتِ اعلیٰ (پنجاب)کا منصب سنبھالا تو لوگ حیران ہوئے تھے ، اگر وہ کوئی اچھا کام بھی کرے توکریڈٹ دینے کے بجائے حسب عادت سوچ میں پڑ جاتے ہیں، کہ نہیں! یہ بندہ کام نہیں کر سکتا، پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ اس کی ’’بیک گراؤنڈ‘‘ اچھی نہیں، یہ نہ تو وڈیرہ ہے، نہ بڑا زمیندار ،نہ خان بہادر، نہ نواب اور نہ ہی اس کا کوئی رعب و دبدبہ ہے۔ فطرتاََ ہم سب بھی ایسی ہی غلامانہ سوچ رکھتے ہیں۔

اسی لیے آج ہم سب قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے عثمان بزدار کیا تھے ؟ کوئی کہتا ہے کہ بننا جہانگیر ترین نے تھا وہ نااہل ہوئے تو انھوں نے اپنا بندہ بنوا لیا۔ کوئی کہتا ہے کہ بس گھڑے میں سے پرچی نکالی گئی ہے۔زیادہ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے شہباز شریف کو پیغام دینا ہے کہ تو بڑا خادم اعلیٰ بنا پھرتا تھا، اب جو میرا خادم ہو گا اس کا حکم چلے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ اسلام آباد کو اقتدار کا راستہ لاہور سے ہو کر جاتا ہے اس لیے ایسا بندہ چاہیے جس کا کوئی گروپ نہ ہو، جو تشکّر کے بوجھ تلے دبا رہے ۔

ہمارے کام یہ ہیں کہ …کوئی صحافی بھائی بزدار صاحب کی پروٹوکول کی گاڑیاں گن رہا ہوتا ہے تو کوئی اُس کے شہر میں ہوا ترقیاتی کام۔ پھر کہیں سے کوئی کلپ ہاتھ آجاتا ہے کہ جس میں بزدار صاحب کی سادگی دکھائی گئی ہوتی ہے تو پھر ایسی ٹرولنگ شروع ہوتی ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار بھی ہر دوسرے دن یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم کے کمزور ترین رکن ہیں، انھیں انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں۔ فن خطابت سے ناواقف ہیں، صحافیوں کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ فائلیں پڑھنا نہیںآتیں وغیرہ  پتہ نہیں کیوں،  مجھے ان سب اعتراضات سے تعصب کی بو آتی ہے۔

حالانکہ کسی تقریب کے علاوہ میری بزدار صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن مجھے اُن کے لیے لوگوں کا وہ تعصب ضرور محسوس ہوتا ہے جو شہریوں میں دیہات سے آنے والوں کے لیے پایا جاتا ہے۔تعصبات کی سماجی سیڑھی میں بزدار صاحب سب سے نیچے ہیں۔ پسماندہ علاقے کے بھی ہیں اور سرائیکی بھی۔ عمران خان کے مخالفین اور مجھے لگتا ہے کہ ان کے کئی حامی بھی اکثر یہ سوچتے پائے جاتے ہیں کہ عمران خان کو آخر عثمان بزدار میں ایسا کیا نظر آتا ہے۔ عمران خان جواب دے چکے ہیں کہ وسیم اکرم، لیکن یار لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا۔

یقین شاید اس لیے نہیں آرہا کہ یہ شخص ذاتی تشہیر پر یقین نہیں رکھتا، ورنہ یہ لاہور کے بجائے پنجاب کے ہر ضلع ،ہر شہر اور قصبے کوترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے، ہر ضلع میں جدید یونیورسٹی بناناچاہتا ہے، کیوں کہ اسے علم ہے کہ جب طلباء  چھوٹے شہروں یا قصبوںسے کسی بڑے شہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جاتے ہیں تو انھیں بہت سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ ماضی کی طرح خالی خولی اعلانات نہیں کر رہا اور نہ ہی اربوں روپے کی جھوٹی تشہیر کر رہا ہے۔ یہ ننکانہ صاحب میں بابا جی گورو نانک یونیورسٹی بنارہا ہے، سرگودھا اور بھکر شہروں کی ترقی کو ورلڈ بینک کے پروگرام میں شامل کروا رہا ہے اس کے لیے تقریباً 22 ارب روپے مختص کر چکا ہے اوراس پروگرام کے تحت شہروں میں صفائی کے نظام،پینے کے صاف پانی کی فراہمی او رسیوریج سسٹم کو بہتر بنائے گا۔

یہ شخص جسے عثمان بزدار کہا جاتا ہے یہ ضلع بھکر میں دریا کے کٹاؤ کے باعث اراضی کو پہنچنے والے نقصانات کی رپورٹ طلب کر کے محکمہ آبپاشی کوہدایت کر چکا ہے کہ دریا کے کٹاؤ کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے، یہ پنجاب کے دور افتادہ اضلاع کے اسپتالو ں میں ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔یہ ضلع میانوالی میں ’’مدر اینڈ چائلڈ اسپتال‘‘ بنارہا ہے ۔یہ پنجاب میں سبزی و غلہ منڈیوں کے مختلف عدالتوں میں زیر التوا کیسوں کو ترجیحاً منطقی انجام پہنچانے کے لیے احکامات جاری کر چکا ہے۔یہ شخص ’’نیا پاکستان منزلیں آسان منصوبے کے تحت ‘‘ساہیوال اور سرگودھا ڈویژن میں 3ارب روپے سے 270کلو میٹر طویل رابطہ سڑکیں بنانے کے منصوبے بنانے جا رہا ہے ۔ یہ شخص کسی قسم کا خاص پروٹوکول نہیں رکھتا، خاص تکلفات میں نہیں پڑتا۔

یہ شخص ہر رکن پنجاب اسمبلی کی نشست پر جاکر مسائل بارے پوچھتا ہے اور حل کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کو ہدایات دیتا ہے۔ اراکین اسمبلی بڑی بے تکلفی سے تجاویز بھی دیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب تجاویز اور سفارشات خود نوٹ کرواتے ہیں۔ یاد آیا یہ بھولا شخص مستقبل میں بائیو گیس پیدا کرنے جیسی ٹیکنالوجی متعارف کروانے والا ہے جو ہماری دیہی آبادی کے لا علاج دکھوں کا مداوا اور اَمرت دھارا ہے۔ دم توڑتی زرعی معیشت کو صرف اس کے ذریعے بچایا جا سکتا ہے۔

یہ شخص زچہ بچہ کی صحت، صنفی مساوات، خواتین کا سماجی و معاشی استحکام، ماحول دوستی، درختوں کی کٹائی میں رکاوٹ، قدرتی کھادوں کا استعمال اور بہت سے پراجیکٹس لگا نے کی حکمت عملی بنا رہا ہے۔ الغرض یہ جانتا ہے کہ پنجاب صرف لاہور کی چند سڑکوں کا نام تو نہیں ہے۔یہ 12کروڑ عوام کا صوبہ ہے جس کے حقوق کا خیال رکھنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔

کسی کو سابق خادم اعلیٰ کا دور یاد ہو گا جب ارکان پنجاب اسمبلی شہباز شریف سے ملاقات تو دور کی بات صرف دیدار کو ترسا کرتے تھے۔

لہٰذاآج سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا عثمان بزدار وسیم اکرم پلس ہے؟ پلس مائنس کا تو علم نہیں مگر میں یہ ضرور کہوں گاکہ وسیم اکرم کو ’’وسیم اکرم پلس‘‘بننے میں 8سال لگے تھے،اور قارئین کو یاد ہوگا کہ وسیم اکرم نے 1984میں جو پہلی سیریز نیوزی لینڈ میں کھیلی تھی وہ پاکستان ہار گیا تھا، حتیٰ کہ عمران خان بھی 1982 میں بطور کپتان پہلی سیریز ہارگیا تھا۔ یعنی عثمان بزدار کو تو ابھی محض سوا سال ہوا ہے، اب تو اُن کے پاس پنجاب کی حد درجے بہتر بیوروکریسی آچکی ہے۔

جن میں چیف سیکریٹری اعظم سلیمان، آئی جی پنجاب شعیب دستگیر،ایڈیشنل سیکریٹری مومن آغا، سیکریٹری انفارمیشن راجہ جہانگیر ، نبیل اعوان سیکریٹری اسپیشل ہیلتھ وغیرہ جیسی ٹیم مل گئی ہے اور مثبت بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اچھا افسر تلاش کرتی ہے ، سابق حکومت کی طرح یہ نہیں سوچتی کہ یہ فلاں کی ٹیم میں سے ہے اس لیے اسے نہیں لیا جا سکتا۔ اور ویسے بھی ’’کپتان‘‘ بننے میں ذرا وقت لگے گا،انھوں نے جتنے کم وقت میں بغیر تشہیربازی کے کام کیے ہیں وہ میں بتا چکا ہوں اور جلد ہی سامنے بھی آجائیں گے اور پھر مخالفین ان کے معترف ہوں گے۔ اس لیے خدارا عثمان بزدارہم میں سے ہی ایک عام آدمی ہے،شریف آدمی ہے، یہ ایک اچھا آدمی ہے اسے چلنا چاہیے۔اور یہ سمجھیے کہ سابقہ دور ایک ڈراؤنا خواب تھا جو بیت چکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔