پوشیدہ امراض کی حقیقت کیا ہے؟ ان سے نجات کیسے ممکن ہے؟

حکیم نیاز احمد ڈیال  جمعرات 12 دسمبر 2019
جنسی امراض بھی غذائی قلت اور غلط طرز زندگی کی بنا پر ہی رو نما ہوتے

جنسی امراض بھی غذائی قلت اور غلط طرز زندگی کی بنا پر ہی رو نما ہوتے

ہمارے معاشرے میں معدودے چند نام نہا د جنسی ماہرین نے بعض امراض کو اس انداز میں پیش کرنا شروع کردیا ہے، جس سے ہر دوسرا فرد سمجھنے لگا ہے کہ وہ بھی اس بیماری کا شکار ہے۔ حالانکہ اس کی سوچ محض ایک وہم ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی مرض کے تین پہلو ہوتے ہیں: جسمانی، روحانی اور نفسیاتی۔

جسمانی پہلوؤں سے تو ہمیں اکثر ہی واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ہم عام طور پر گھریلوتراکیب آزما کر یا کسی معالج سے مل کر صحت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی حد تک مرض سے خلاصی پا ہی لیتے ہیں۔کبھی کبھار روحانی مسائل بھی سر اٹھا لیتے ہیں، ہم کسی دم  کرنے والے سے دم کروا کر اس سے بھی پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن نفسیاتی بیماریوں سے چھٹکارا پانا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ خاص کر جب کوئی دوسرا آپ کے ذہن میں شبہ یا وہم ڈال دے کہ آپ تو بیمار ہیں۔

اس حقیقت سے سب ہی متفق ہیں کہ جدید سائنسی ترقی نے ہر مرض کا علاج کسی نہ کسی شکل میں دریافت کرلیا ہے مگر’ وہم‘ واحد بیماری ہے جس کی کوئی دوا،دارو، جھاڑ پھونک اور علاج سامنے نہیں آسکا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق تین خواہشات ایسی ہیں جن میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے مگر کمی ممکن نہیں۔ مال و زر کی ہوس،ناموری کا جنون اور اعصابی طاقت میں اضافے کی تمنا۔ ان میں سے ہر ایک ہوس پر قابو پانے میں ہر طرح کا علاج معالجہ،ٹوٹکے اور جھاڑ پھونک بے اثر ثابت ہوتی ہے۔

انسان کی جبلت میں شامل ہے کہ جہاں کہیںبھی اس کی ذات کی بات ہو وہ وہیں متجسس ہو جاتا ہے۔ ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ ماضی قریب تک تو  یہ عالم تھا  کہ دیواروں سے لے کر اخباروں تک،ٹی وی سے لے کر ریڈیو تک ،بسوں ویگنوں، چوک چوراہوں الغرض جدھر کا بھی رخ کر تے ہر سو جنسی امراض کا پرچار ہی دکھائی اور سنائی دیا کرتا تھا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے سابقہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا جنہوں نے ہیلتھ کئیر کمیشن ڈریپ جیسے مانیٹرنگ ادارے قائم کرکے ہمیں کسی حد تک ان امراض سے محفوظ بنا دیا ورنہ آپ کو یہ نام نہاد معالجین اپنے نت نئے دعووں اور نعروں کے ساتھ لوگوںکمزوریاں دور کرنے کی غرض سے ہمہ وقت کہیں نہ کہیں ان سے ملتے رہتے تھے۔

زیر نظر مضمون میںہم بعض عناصر کی طرف سے جنسی امراض کو ہوا بنائے جانے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ پوشیدہ امراض کا کوئی وجود بھی ہے یا صرف عطائی اور نیم حکیم یا نان پروفیشنلز معاشرے کے معصوم افراد کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے انہیں پوشیدہ امراض میں مبتلا کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

تولیدی نظام انسانی وجود کا ایک لازمی جز اورافزائش نسل کا ذریعہ ہے۔افزائشِ نسل تولیدی نظام کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا مذہبی حدود وقیود،معاشرتی رسم ورواج اور سماجی تقاضوںکو نبھاتے ہوئے مرد وعورت کے مابین مذہبی اصول و ضوابط کے تحت ملاپ نکاح، سماجی و معاشرتی رسم و رواج کے مطابق بندھن کی استواری کو شادی کہا جاتا ہے۔ بد نصیبی سے ہمارے یہاں معدودے چند لوگ اپنی چرب زبانی،لفاظی اور نفسیاتی حربوں سے پورے معاشرے کوذہنی طورپر اپنے زیرِ اثر لیے ہوئے ہیں۔

شعبہ طب میں مبینہ چھپی کالی بھیڑوں نے تولیدی نظام اور پوشیدہ امراض کو اس انداز میں پیش کرنا شروع کردیا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ہی اپنے آپ کو جنسی مریض سمجھنے لگا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چند نام نہاد ماہر جنسیات کے دعووں کی بدولت عام پڑھا لکھا فرد مبینہ طور پر طب کو جنس زدہ ہی سمجھنے لگا ہے۔حالانکہ قدیم طب آج بھی ایسے تمام امراض جنہیں جدید سائنس لاعلاج قرار دیتی ہے ، مستقل بنیادوں پر دوا کے استعمال کو ہی نجات دہندہ سمجھتی ہے اور ان بیماریوں کا مکمل اور شافی علاج رکھتی ہے۔

قدیم طب کے فلسفہ علاج کی رو سے مریض کی دوا اور غذا مبتلائے مرض کے طبعی رجحانات اور فطری میلانات کو مد نظر رکھتے ہوئے تجویز کی جاتی ہے جبکہ جدید میڈیکل سائنس کے علاج معالجے کا انحصار صرف ظاہری علامات کو ہی دور کرنا سمجھا جاتا ہے۔ انسانی وجود کی تخلیق میں چار بنیادی عناصر مٹی، پانی، آگ اور ہوا شامل ہیں۔ انہی عناصر کی بدولت بدن انسانی میںاخلاط صفراء سودا بلغم اور خون کی افزائش ہوتی ہے ۔ یہی اخلاط بدن انسانی کے مزاج گرم،خشک،سرد اور تر ہونا طے کرتے ہیں۔اخلاط کی افزائش میں کمی یا زیادتی ہونے کے نتیجے میں بطور رد عمل بدن میں مختلف علامات وقوع پزیر ہوتی ہیں جنہیں طبی ماہرین مرض کا نام دیتے ہیں۔

اخلاط کی افزائش میں کمی یا زیادتی کا تمام تر دارومدار ہمارے اجزائے خورونوش،روز مرہ عادات جیسے سونا،جاگنا،سوچنا اور ہنسنا رونا وغیرہ پر ہوا کرتا ہے۔ کسی بھی فرد کے مزاج میں بڑھی ہوئی خشکی سے کمی نیند، دماغی امراض،قبض اور جوڑوں کے درد وغیرہ کے حملے کے امکانات واضح ہوتے ہیں۔اسی طرح  غیر ضروری سردی کے غلبے سے بلغمی امراض کھانسی، امراض قلب،امراض گردہ اور شوگر و یورک ایسڈکا خدشہ ہوسکتا ہے۔ مزاج میں گرمی کا بڑھ جانا امراض جگر،امراض جلد اور عام کمزوری پیدا ہونے کا خطرہ بن سکتا ہے۔ مزاج کے خونی ہوجانے سے ہائی بلڈ پریشر،فالج، ہارٹ اٹیک اور اضطراب کا باعث بن سکتا ہے۔

جوں جوں عمر گزرتی ہے اور انسانی ذمے داریوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے توں توں ہمارامیٹا بولزم کمزور ہو کر جسمانی مسائل کا سبب بننے لگتا ہے۔میٹابولزم کی خرابی کی ایک بڑی وجہ ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ بھی بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آسودہ حال لوگ مسائل میں الجھے ہوئے ا فراد کی نسبت ترو تازہ اور ہشاش وبشاش دکھائی دیتے ہیں۔

انسان کے اعصابی نظام کے سب سے بڑے دشمن ڈپریشن،ٹینشن،اینگزائیٹی اور سٹریس ہیں۔کیونکہ ڈپریشن،ٹینشن،اینگزائیٹی اور سٹریس بلواسطہ یا بلا واسطہ معدے کی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ معدہ متاثر ہونے سے بدن انسانی کے تمام اعضاء اور ان کی کارکردگی میں خرابی پیدا ہونے سے دماغ کو آکسیجن کی مناسب مقدار کی رسد نہ ہونے کے سبب ہمارے تمام نظام گڑبڑ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نظام تولید کا چونکہ انسانی نسل کشی سے تعلق ہے اس لیے کچھ ناہنجار معالجین اس کو بنیاد بنا کر انسانی نفسیاتی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر کسی کو اعصابی یا تولیدی نظام میں خرابی کا سامنا ہو تو اسے چاہیے کہ غیر ضروری سوچوں،تفکرات اور افسردگی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دے۔ کسی ماہر اور سمجھ دار معالج سے مل کر معدے کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے دوا اور غذا تجویز کراوئے۔ بطور گھریلو غذائی استعمال کے تیز مصالحہ جات، غیر معیاری چکنائیاں،بازاری مٹھائیاں، کولا مشروبات،فاسٹ فوڈز،زیادہ چائے اور سگریٹ نوشی،بادی و ترش غذاؤں سے پرہیز شروع کردے۔

یاد رکھیں ! پوشیدہ ا مراض بھی دیگر بیماریوں کی طرح بنیادی اسباب کے باعث ہی ہوا کرتے ہیں۔ اگر سبب کو دور کردیا جائے تو مرض بھی ختم ہوجایا کرتا ہے۔پوشیدہ امراض کا علاج بھی عام اصول علاج کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔بعض طبی ماہرین تو پوشیدہ امراض کے وجود کو سرے سے مانتے ہی نہیں۔کسی حد تک یہ بات قرینِ قیاس ہے کیونکہ بازار میں اعصابی قوت میںاضافے کے لیے دستیاب ادویات با لواسطہ یا بلا واسطہ نشیلے،ممسک اور مسکن اجزا سے تیار کی جاتی ہیں جو کہ دماغی صلاحیتوں کو سست کر کے ہی اپنا اثر دکھا پاتی ہیں۔بعض ادویات میں سٹیرائیڈز اور کشتے وغیرہ کی آمیزش بھی ہوتی ہے جو کہ فوری یا آہستہ آہستہ گردوں کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔اگر خدا لگتی بات کی جائے تو پوشیدہ امراض کا’’ ہوا‘‘ پیدا ہی اپنا کاروبار بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

جسمانی و اعصابی طاقت کی کمزوری کے حوالے سے دھیان رکھیں کہ اسے ذہن میں جگہ نہ دیں،اپنی غذا،روز مرہ معمولات اور خور ونوش کی عادات پر نظر ثانی کرتے ہوئے متوازن، معیاری اور ملاوٹ سے پاک غذائی اجزاء کا استعمال شروع کردیں۔ممکنہ حد تک اس مسئلے کی ٹینشن یا سٹریس ہر گز نہ لیں۔ان شاء اللہ چند دنوں میں ہی طبیعت بحال ہونے لگے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔