بڑھتی ہوئی فرقہ واریت

زمرد نقوی  اتوار 2 ستمبر 2012
زمرد نقوی

زمرد نقوی

سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی استدعا منظور کر کے انھیں سوئس حکام کو خط لکھنے کے حکم پر عمل درآمد کے لیے 18 ستمبر تک مہلت دے دی ہے اور وزیراعظم کو آیندہ سماعت پر بھی پیش ہونے کے لیے پابند کیا ہے۔

دوران سماعت عدلیہ نے آبزرویشن دی کہ خط لکھنے کا فیصلہ اٹل ہے۔ حکومت کو خط لکھنا پڑے گا۔ ’’یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا بنایا گیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے عدالت ’’کسی بھی حد تک‘‘ جانے کے لیے تیار ہے تاکہ حکومت کے ’’خدشات‘‘ دور کیے جا سکیں۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی پیش کش نہیں کی جاسکتی۔ ہم پہلے پاکستانی پھر جج یا وزیراعظم ہیں۔ مسئلہ حل کرنے سے حل ہو گا اور غیر یقینی صورتحال خود بخود ختم ہو جائے گی‘‘۔عدالتوں کو وزیراعظم تبدیل کرنے کا شوق نہیں۔ جب کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ آسمان پر بادل صاف ہونے کا وقت آگیا ہے۔ بات خط لکھنے سے آگے چلی گئی ہے۔

بہر حال اب تو پوری قوم کی یہی دعا ہے کہ آئین و قانون کے تحت این آر او کا کوئی ایسا حل نکل آئے کہ حکومت اور عدلیہ دونوں ہی کی عزت رہ جائے اور پاکستان اور پاکستانی قوم بھی اس آزمائش سے نکل جائے تاکہ امن و امان کی انتہائی مخدوش صورتحال پر بھی توجہ دی جاسکے جس کی طرف متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے اتحاد بین المسلمین کانفرنس میں توجہ دلائی ہے۔

اب ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے قائد جناب نواز شریف کو بھی اس حوالے سے دو ٹوک انداز میں آگے آنا چاہیے۔ اگر وہ کھل کر سامنے آئیں تو صورتحال میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ پاکستانی قوم جناب نواز شریف سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر وہ کس چیز سے خوفزدہ ہیں کہ وہ سوائے مذمتی بیانات جاری کرنے کے کچھ نہیں کر پاتے۔

فرقہ وارانہ دہشتگردی جس کا آغاز ضیاء الحق دور سے ہوا، اس میں ہزاروں مسلمان قتل ہو چکے ہیں ہے۔ دہشت گردی کا شکار بننے والے افراد یہ سوچنے میں کیا حق بجانب نہیں کہ ان کے قاتلوں کو بعض قوتوںکی خاموش تائید حاصل ہے۔ اﷲ نہ کرے کہ ایسا ہو۔ ناکام ریاست وہ ہوتی ہے جہاں عوام کے جان و مال کا تحفظ کرنے والے ادارے مکمل ناکام ہو جائیں اور یہ وہ آخری مرحلہ ہوتا ہے جہاں کسی ملک کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اس پس منظر میں جناب الطاف حسین کی تقریر اور اس کا ایک ایک لفظ اس قابل ہے کہ ہر محب وطن باشعور پاکستانی اور صرف صرف پاکستان کی بقا کو سامنے رکھتے ہوئے مسلکی اختلاف سے بالا تر ہو کر اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہ ہو اور تنہائی میں اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ آج پاکستان جو لہو میں نہا رہا ہے کہیں اس کی خاموشی دہشت گردوں کو تقویت دیتے ہوئے پاکستان کو اس کے خاتمے کی طرف تو نہیں دھکیل رہی۔

خاموش تماشائی بنے رہنا،رسمی مذمتی بیان جاری کرنا یا یہ کہہ دینا کہ دہشت گردی میں غیر ملکی قوتیں ملوث ہیں جب کہ دہشت گرد تنظیمیں بڑے فخرسے اس دہشت گردی میں ملوث ہونے کا نہ صرف اعتراف کرتی ہیں بلکہ یوٹیوب پر اسے جاری بھی کرتی ہیں۔ اس کے بعد ہمارا مندرجہ بالا طرز عمل سوچ اور رویہ کم سے کم الفاظ میں غداری ا ور ملک دشمنی ہی کہلائے گا۔

اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جناب الطاف حسین کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مسلکوں کی بات نہ کرو اگر مسلکوں کی بات کرتے رہے تو پھر بات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تک جائے گی لیکن میری بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ قائداعظم کا مسلک اثنا عشری شیعہ تھا اور میں اپنے مؤقف پر اس وقت تک قائم رہوں گا جب تک کوئی اس کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں لاتا۔

الطاف حسین نے ملک بھر سے شریک تمام مکاتب فکرکے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی، ایم آئی انٹیلی جنس بیورو فرنٹیئر کانسٹیبلری رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کہاں ہیں؟ اگر یہ ادارے بے گناہ انسانوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوں گے تو انتشار بڑھے گا۔ مسلمانوں کا ہر مسلک اپنے لیے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرے گا اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا۔

شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور ملک میں امن قائم رکھنا اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری ہے جن پر بجٹ کا 80 فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ اگر لوگوں کو اسی طرح دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے تو پھر قانون قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ختم کرکے عوام کو خود اپنی حفاظت کرنے کی آزادی دے دینی چاہیے۔ آپ مجھے شیعہ کہیں، اہل حدیث ،بریلوی سنی یا کچھ اور ، مجھے اس کی پروا نہیں مگر خدارا پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچالو۔

الطاف حسین پاکستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر آنسو بہاتا ہے، مذہبی بیانات دیتا ہے مگر پھر بھی سیاسی رہنمائوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ امر افسوس ناک ہے کہ بے گناہ شہریوں کے قاتل پکڑے جاتے ہیں لیکن پھر آزاد کردیے جاتے ہیں۔ سو سو قتل کرنے والے رہا ہوجاتے ہیں اور منتخب وزیراعظم کو سزا دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ میں پاکستان کی سپریم کورٹ سے کہتا ہوں کہ وہ جہاں حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں وہاں ججوں کا بھی احتساب کریں ۔

الطاف حسین نے کہا کہ مسلح افواج آئی ایس آئی اور حکومت کو ’’جرأت مندانہ‘‘ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر انھوں نے جرأت مندی کا مظاہرہ نہیں کیا تو وہ پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے۔ الطاف حسین نے علمائے کرام سے اپیل کی سنی اور شیعہ علمائے کرام اتحاد بین المسلمین کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو پھر پورے پاکستان کے سنی اور شیعہ عوام مل کر مسلمانوں کا اتحاد توڑنے والوں کے خلاف جنگ کا آغاز کردیں گے۔ انھوں نے تجویز دی کہ سنی اور شیعہ علماء ایک دوسرے کی مساجد میں جاکر فوری طورپراتحادبین المسلمین کی تلقین کریں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی۔

فرقہ پرستوں، دہشت گردوںاور ان کے سرپرستوں کی کمر آخر کار طویل مدت کے بعد 2013ء اور 2014ء میں ٹوٹ جائے گی۔

حکومت اور عدلیہ کے درمیان این آر او کا تنازعہ آخر کار ستمبر اور اکتوبر میں طے ہوجائے گا۔

اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر تا شام 6 بجے
سیل فون نمبر:0346-4527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔