کرپشن کی دولت کی واپسی

ظہیر اختر بیدری  منگل 17 دسمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی سیاست کو چھومنتر کی سیاست کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ سڑکوں پر جادو کے کمالات دکھانے والے جب ایک خنجر یا چاقو لے کر اسے اپنے ہاتھوں سے اپنے سینے میں اتار لیتے ہیں تو دیکھنے والوں کی تو چیخیں نکل جاتی ہیں۔ لیکن جب خنجر زدہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنے سینے سے خنجر باہر نکال لیتا ہے اور مسکراتے ہوئے مجمع کی طرف دیکھتا ہے تو اس نظر بندی کے کھیل سے ہجوم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

اسی طرح جب وہ ٹوپی میں جیتا جاگتا زندہ خرگوش رکھ کر چھو منتر کے ساتھ اسے غائب کرکے خالی ٹوپی ہجوم کے سامنے جھٹک دیتا ہے تو حاضرین کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

ہمارے ملک میں یہی جادوکا کھیل سیاستدان اس مہارت کے ساتھ کھیل رہے ہیں کہ اہل نظر اس نظر بندی سے حیرت زدہ رہتے ہیں۔ عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا تو جس بات پر زیادہ زور دیا جاتا رہا وہ تھی اربوں روپوں کی کرپشن۔ خان صاحب فرما رہے تھے کہ کرپشن کی ایک ایک پائی وصول کی جائے گی اور یہ منادی بھی کی جا رہی تھی کہ یہ لوٹی ہوئی دولت عوام کی ہے۔ بے چارے عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ چلو دیر ہی سے صحیح نسلوں سے کھوئی ہوئی چیز واپس تو مل رہی ہے۔

اس حوالے سے پہلی بات یہ کہ اگر خدانخواستہ کرپشن کی دولت واپس ملتی ہے تو عوام تک اس کا پہنچنا محال است و جنوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ بس اتنا ہوسکتا ہے کہ ایک تجوری سے دوسری تجوری میں شفٹ ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارے جادوگر سیاستدانوں نے ایسا جادو کیا کہ اربوں روپے اڑن چھو ہوگئے اور بے چارہ عمران خان پہاڑے پڑھتا رہ گیا۔ بڑے بڑے جادوگر بھی وہ کمال نہیں دکھا سکتے جو ہمارے سیاستدانوں نے دکھایا ہے، اربوں روپے ۔۔۔۔جی ہاں عوام کے اربوں روپے دیکھتے دیکھتے غائب ہوگئے۔ ہمارے ملک میں بڑی بڑی تحقیقاتی ایجنسیاں ہیں سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی ہیں کہ لاکھ نہ دو لاکھ، اربوں روپوں کی یہ رقم کہاں گئی، کیسے گئی؟

کہا جاتا ہے کہ ہمارے سیاستدان “204” میں اتنے چالاک ہیں کہ اربوں کی رقم چھوڑیے وہ ہمالیہ پہاڑ کو اس کی جگہ سے غائب کرسکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نیک کام عشروں سے ہو رہا تھا اور سب کو پتا تھا کہ غبن ہو رہا ہے لیکن کسی کو پرواہ نہ تھی، سیاستدان دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہے تھے اور متعلقہ ادارے غالباً گہری نیند میں تھے۔ ہمارے تحقیقاتی اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چوری کا مال خواہ وہ زمین کے اندر ہو یا خلا میں ہمارے تحقیقاتی ادارے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام چوری سے شروع ہوتا ہے چوری پر ختم ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان بھی اسی نظام کا حصہ ہیں اور چوری اور سینہ زوری میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ماہر ہمارے سیاستدانوں کی شاگردی پر ناز کرتے ہیں۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوٹے گئے اربوں روپے غریب عوام کی محنت کی کمائی تھے، رات دن پسینہ بہاکر جو دولت عوام پیدا کرتے ہیں، اسے یہ کرپٹ آنکھوں سے سرمے کی طرح نکال لے جاتے ہیں۔کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا لازمہ ہے جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے کرپشن باقی ہے ۔کرپشن صرف پاکستان ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے اور عوام اس وبا سے اس قدر بے زار اور متنفر ہیں کہ دنیا کے کئی ملکوں میں کرپشن کے خلاف پرتشدد مظاہرے اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ میاں نواز شریف اینڈ فیملی آصف علی زرداری اور ساتھیوں نے اربوں روپوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کا ارتکاب کیا ہے اور اس حوالے سے نشان دہی بھی کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ ہم لوٹی ہوئی بھاری رقوم سے ایک ایک پائی نکالیں گے۔ عمران خان کے یہ دعوے کہاں گئے؟

بلاشبہ یہ حکومت کی ناکامی ہے جس کی عمران خان کو جوابدہی کرنا چاہیے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بڑی بڑی کرپشن کی ہائٹ کا فول پروف انتظام ہوتا ہے اور ایسے ایسے طریقوں سے اربوں کی دولت کو چھپایا جاتا ہے کہ اس دولت کو نکالنے میں بڑے بڑے شرلاک ہومز ناکام رہتے ہیں۔

اس حوالے سے تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ لوٹے گئے اربوں روپے عوام کی کمائی تھے اگر یہ بھاری رقوم عوام کی بھلائی اور ترقی میں استعمال کی جائے تو 90 فیصد عوام اس شرمناک غربت سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں جس میں وہ 72 سال سے پھنسے ہوئے ہیں یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے کہ اشرافیہ عوام کی محنت کی کمائی کے اربوں روپوں پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔

حکومت سر پیر کا زور لگا رہی ہے کہ لوٹی ہوئی اربوں روپوں کی بھاری رقوم کسی طرح برآمد کرلے لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اشرافیہ کا کوئی فرد واحد اس کرپشن کا اکیلا مرتکب نہیں ہے بلکہ اس سب مل کر کرپشن کرتے ہیں جب سیاں کوتوال ہو تو ڈر کاہے کا ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔