صنفی مساوات کی صورتحال اور ہماری ذمے داری

عبدالرحمان منگریو  اتوار 22 دسمبر 2019

دنیا کے تمام مذاہب اور فلسفوں و عقائد میں مجموعی طور پر انسان کو اُتم مخلوق تسلیم کیا گیا ہے، اس میں کوئی صنفی تفریق کا کوئی ذکر یا پہلو نظر نہیں آتا۔ خصوصا ً اسلام میں تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی اولاد قرار دیکر اشرف المخلوقات قرار دیاگیا ہے۔

اسلامی بنیادی تعلیمات میں معاشرے کے اندر موجود تمام اونچ نیچ اور بے جا بنیادوں پر فخر کرنے، ذات پات، رنگ و نسل، زبان، علاقے اور صنفیت کو فضیلت کے معیار سے روکا گیاہے ۔ ’’اِنَّ اَکْرَمَکُم ْ عِنْدَاللہ ِ اَتْقٰکُم‘‘ جیسی آیات سے تقویٰ اور پرہیزگاری کو ہی بلند درجات کا معیار قرار دیا گیاہے ۔ مذاہب ِ عالم میں صنفی مساوات کی کئی مثالیں موجود ہیں بلکہ کئی مقامات پر صنفی تعظیم کا ذکر ملتا ہے تو اُس میں بھی صنف ِ نازک یعنی عورت کی تعظیم کو اُتم رکھا گیا ہے۔

کہیں سلیمان علیہ السلام ملکہ صبا کے توقیری استقبال کے لیے پریشان دکھائی دیتے ہیں تو کہیں پیکر ِ حسن نبی یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی رضا کا پابند بنایا جاتا ہے۔ کہیں ابراہیم علیہ السلام بی بی سائرہ کے حکم کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں مریم کی پاکبازی کے لیے عیسیٰ علیہ السلام کو معجزہ بنایا گیا ہے تو کہیں سبب تخلیقِ کائنات، آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ اپنی ہی دُختر کے استقبال کے لیے تعظیماًکھڑے ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ خدا نے بھی اپنی رحمت کا پیمانہ بیٹی یا ماں کے روپ میں طے کیا ہے۔

اسی طرح دیگر مذاہب میں بھی صنفی مساوات کی پرچار کی گئی ہے اور تعظیم میں وہاں بھی صنف نازک کو ہی فوقیت دی گئی ہے۔ باوجود ان تعلیمات و فکر کے زمانہ قدیم سے دنیا میں صنفی عدم مساوات بھی اپنے عروج پر رہی ہے۔ جس کا سب سے بڑا سبب مردانہ صنفی طاقت اور اس کے بل پر قائم پدر شاہی سوچ ہے۔ جس کی بدترین صورت عورت کو غلام، کھلونا اور لین دین کی چیز سمجھنا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو محض جنسی جبلت کا ساماں بناکر رکھا گیا اور اس کے لیے مرد نے اپنی طاقت کے بل پر عورت کی غلامی کو عام رکھا ۔

کئی صدیوں تک جاری رہنے والی اس غلامی کے دوران عورت کو جرمانے کے طور پر دینا، جنگوں میں مال ِ غنیمت کی طرح آپس میں تقسیم کرنا، لونڈی و کنیز بنا کر رکھنے جیسے مشاغل کو حق سمجھ کر جاری رکھا گیا۔ غلامی کے اس دلدل میں دھنسی عورت سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو اُسے بیچ چوراہوں پر اعضا ء کو کاٹنے اور چیرنے جیسی وحشت ناک و سفاک سزائیں دینا وغیرہ سب اُسی پدر شاہی سوچ کا بھرم رکھنے کے لیے تھا۔

اس کی انتہا ہمیں قبل از اسلام عرب میں نظر آتی ہے کہ جب بیٹی کا پیدا ہونا ہی گالی تصور کیا جاتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جانا اپنی شان سمجھی جانے لگی۔ پھر انقلاب ِ اسلام نے عورت کی تعظیم کو دوبارہ زندہ کیا۔ نکاح میں اختیار ِ رضا و حق مُہر سے لے کر خلع کے حق تک، جائیداد میں حصے سے قیامت میں اولاد کی شناخت ماں کے نام سے ہونے تک، ہر وہ اقدام کیا جس سے عورت کا مقام بلند ہو سکتا تھا ۔ باوجود ان واضح حقوق اور فوقیت کے آج بھی دنیا بالخصوص تیسری دنیا میں عورت کی تحقیر اور صنفی عدم مساوات کی صورتحال بدترین صورت میں موجود ہے۔

یہاں تک کہ اس کے لیے ہونے والی قانون سازی اور اقدمات کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں ۔ آج بھی عورتوں کے چہروں پر تیزاب چھڑک کر انھیں اذیت دی جاتی ہے، انھیں پسند کے نکاح کی اجازت نہیں۔ 40 سال سے ’’تعلیم سب کے لیے‘‘ کے نام پر ملک میں کام ہونے کے باوجود لڑکیوں کو تعلیم کا یا تو سرے سے حق حاصل نہیں یا پھر تعلیم کے حصول میں صنفی مساواتی مواقع میسر نہیں۔ خاندان میں وسائل کی کمی کے باعث ہمیشہ تعلیم کا حق لڑکے کو دیکر لڑکی کی تعلیم کو ثانوی رکھا جاتا ہے۔ طلاق یا خلع آج بھی عورت کی بدنامی اور کردار کُشی کا سامان ہے۔

آج بھی زمانہ جاہلیت کی طرح عورت کو جنسی تسکین کا ساماں سمجھتے ہوئے اُس کی عزت ِ نفس کو پامال کرنا عام ہے۔ وحشت کا عالم یہ ہے کہ2 سال کی بچیوں تک کو جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر سفاکانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ عورت کتنی غیر محفوظ ہے کہ آج کی تعلیم یافتہ لڑکیاں بھی راہ چلتے شہروں سے اُٹھالی جاتی ہیں اور تو اور پدر شاہی معاشرے میں مرد نے اپنے جھگڑوں میں بھی عورت کو گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔

آج بھی فیصلوں میں لڑکیاں اور بچیاں ہرجانے کے طور پر دشمنوں کو دی جاتی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ وہ دشمن ان معصوم بچیوں کے ساتھ کیا بربریت کرتے ہوں گے۔آج بھی ملک میں کہیں ’کاروکاری‘ ، کہیں ’ونی ‘ اور کہیں ’بدلے‘ کے نام پر عورت مرد کے ظلم کا شکار ہے۔ آج بھی گھر کی چاردیواری سے لے کر دفتر درسگاہ تک اور سڑک سے شاپنگ سینٹرز تک عورت کو ہراساں کرنا عام ہے۔

اس تمام تر صورتحال میں ایک پہلو یہ نظر آتا ہے کہ عورت کی معاشی حیثیت کمزور ہونے کی وجہ بھی عورت کی تباہی اور حقوق غصب ہونے کا ایک بڑا سبب رہی ہے۔ اس کے پیش ِ نظر دنیا میں عورت کی تعلیم کو عام کر کے اُسے جدید معاشی انفرااسٹرکچر میں خود کفیل حیثیت کا حامل بنانے کے لیے کام ہوا۔ جس میں بڑی حد تک کامیابی ہوئی ہے لیکن آج بھی جنسی ہراسانی عورت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

مختلف ممالک میں ملکیت و اختیارات اور روزگار کے مواقع کی فراہمی سے عورتوں کے حقوق کا کافی حد تک تحفظ بحال ہو چکا ہے لیکن اب بھی گھریلو تشدد اور روزگار کی جگہ پر ہراساں کیے جانے جیسے مسائل حل ہونا باقی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک خصوصاً مغربی دنیا میں عملی طور پر صنفی مساوات اور توقیر ِ خواتین کو اُتم رکھا گیا ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں آج بھی عملی طور پر عورت کو درج بالا مسائل کا سامنہ ہے۔ دیہات تو چھوڑیں شہروں میں بھی عورت کی عزت و توقیر ہمیشہ داؤ پر لگی ہوتی ہے۔

گھر میں اور گھر سے دفتر تک روز کئی ایکسرے نما آنکھوں سے ہراساں ہونا تو جیسے ہماری عورت کا مقدر بن چکا ہے۔ لیکن اب تو نوعیت چھیڑ خانی اور زبردستی کرنے تک آ گئی ہے۔ وحشت کا اس قدر راج ہے کہ خون کے رشتے بھی اب درندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں اور اُن کی مسخ شدہ لاشیں ملنا معمول بن چکا ہے۔

کئی سالوں سے اس مد میں سخت قانون سازیاں کی جاتی رہی ہیں، جن کے تحت بہت سے کیسز میں مجرموں کو واقع سزا بھی دی جا چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشرے میں عورتوں کو ہراساں کیے جانے اور اُن کے ساتھ غیر انسانی سلوک جاری ہے۔ اُس پر قابو پانے کے لیے سخت سے سخت عملی اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ کیونکہ صنفی عدم مساوات ملکی ترقی میں رکاوٹ بن کر سامنے آئی ہے۔ اس کے لیے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے ملکی ترقی میں عورت کے کردار کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ قوم کی ترقی اور تعمیر تب تک ممکن نہیں جب تک قوم کی خواتین ہمارے شانہ بہ شانہ نہ کھڑی ہوں، خواتین کی شمولیت کے بغیر ہماری ہر کوشش ادھوری ہے‘‘۔

اسلامی تعلیمات، مشرقی روایات اور بابائے قوم کے رہنما اُصولوں کی پیروی میں حکومت نے کئی ہنگامی اقدامات کیے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان نے ملک میں کام کرنے والی خواتین کی جدوجہد کو تسلیم کرنے کے لیے 22 دسمبر کو 2010ء کو پاکستان کو قومی ورکنگ وومن ڈے کے طور پر منایا۔ اس دن کا اعلان کرتے ہوئے ملک میں محنت کش خواتین کے کردار کو تسلیم کیا اور کام کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد کے لیے دفعات بنانے کے احکامات صادر کیے۔

معاشرتی ترقی اور خواتین کے پورے پاکستان میں اپنے روایتی کردار کے برعکس آج خواتین پاکستان میں سرکاری اور نجی دفاتر میں اپنے ہم منصب مردوں کی طرح ایک ہی میکرو، ریگولیٹری اور ادارہ جاتی فریم ورک کے تحت کام کرتی ہیں۔ تین دن قبل ہی سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ نے سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کے لیے “زچگی اور زچگی کی چھٹی کے بل 2019″ء کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے جو کام کرنے والی خواتین کے لیے ایک بہت بڑا اقدام ہے۔

اس بل کی منظوری کے بعد، خاتون ملازمین کو اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد 180 دن کے لیے تنخواہ کے ساتھ چھٹی مل جائے گی اور دوسرے اور تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد بالترتیب 120 اور 90 دن کی چھٹی کی سہولت میسر ہو گی۔ کام کرنے والی خواتین کو سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے ماضی میں بھی کئی دیگر اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں خواتین کی ترقی و استحکام کے لیے قومی پالیسی 2002ء، نیشنل پلان آف ایکشن 1998ء، نیشنل ایکشن پلان برائے ہیومن رائٹس 2016، کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کا ایکٹ 2010ء اور دیگر قانون سازی اقدامات شامل ہیں۔

ملک میں خواتین کی سیاسی نمایندگی بھی موثر ہے اور عوامی فورمز میں خواتین سے متعلق مسائل اور خدشات کو اٹھانے اور خواتین کو وسائل، علم اور اداروں تک مساوی رسائی حاصل کرنے میں 100 سے زیادہ خواتین پارلیمنٹیرین اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وزارت انسانی حقوق نے وکلاء، پولیس اور استغاثہ کے لیے عوامی آگاہی مہم، تربیت اور صلاحیت پیدا کرنے کے وسیع پروگرام شروع کیے ہیں قومی اور صوبائی سطح پر کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کے لیے وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کام کرنے والی خواتین کو ہراسانی سے پاک اور دوستانہ ماحول فراہم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کی کوششوں کے تسلسل میں حکومت نے وزیراعظم یوتھ لون اسکیم میں خواتین کے لیے 50 فیصد حصہ مختص کیا ہے جو خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے حکومتی لگن اور عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ بینکاری نظام نے مختصر اور درمیانی مدت کے قرضوں کی مختلف اسکیمیں شروع کیں، جہاں خواتین کو معاشی اور زرعی شعبے کے فروغ اور ترقی میں حصہ لینے کا موقع ملا۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب خواتین کو اپنی زندگی کی نئی تعریف اور وقار، بااختیار بنانے اور ان کی زندگی میں معنی شامل کر کے غریب خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایک منفرد فورم مہیا کرتا ہے۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب صوبائی حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آزادانہ پالیسی، قانون سازی، انتظامی اور ادارہ جاتی اقدامات اٹھا رہی ہے اور خواتین کو کام کرنے کے مواقع پیدا کرنے اور ایک متحرک کارکن کی حیثیت سے پاکستان کی معیشت میں شراکت کے لیے مواقع پیدا کر رہی ہے۔

پنجاب ویمن ایمپاورمنٹ پیکیجز 2016ء میں قانونی ، انتظامی اور ادارہ جاتی شعبوں میں متعدد اصلاحات شامل ہیں جب کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات فراہم کیے گئے ہیں اور توقع ہے کہ وہ خواتین کو دستیاب مواقع کو وسعت دے کر معاشرتی و معاشی حیثیت کو تبدیل کریں۔

پنجاب نے ملازمت کے کوٹے میں ب51 فیصد تک اضافہ کر دیا، 3 سال کی چھوٹ دی گئی کام کرنے والی خواتین کو شریک حیات کے ساتھ ایک جگہ کام کا اضافی موقع فراہم کیا گیا۔ جب کہ حکومت سندھ نے ملازمت کرنے والی خواتین کو مواقع اور محفوظ مواقع فراہم کرنے کے لیے سیلز اینڈ ڈسپلے ریسیوس سینٹر، ڈے کیئر سینٹر، میڈیا سیلز، خواتین ترقیاتی کمپلیکس اور ہاسٹل قائم کی ہیں۔

اسی طرح کی خیبر پختونخوا کی خواتین کو با اختیار بنانے کی پالیسی (پی ڈبلیو ای پی) 2015ء، یوتھ پالیسی 2016ء، ہیلپ لائنز، ورکنگ ویمن ہاسٹلز، پیشہ ورانہ مراکز صوبے میں ورکنگ خواتین کے تناسب کو بڑھانے کے لیے اہم اوزار ہیں۔ کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف خواتین کے ترقیاتی محکموں کی وزیر، نیشنل کمیشن برائے ہیومن رائٹس، نیشنل اینڈ صوبائی کمیشن برائے خواتین، وفاقی اور صوبائی محتسب پر مشتمل بین الصوبائی وزارتی گروپس جیسے متحرک پلیٹ فارمز بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق، خواتین اور اقلیتی حقوق کے محکموں، پولیس سسٹم میں اصلاحات، جہاں خواتین افسران پورے پاکستان میں دوسری خواتین کے تحفظ اور فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

یوں تو ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پہلی اسپیکر ہمارے یہاں منتخب ہوئیں۔ جب کہ ماضی بعید کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ موجودہ پاکستان کہلانے والا تمام خطہ قدیم سندھو تہذیب (انڈس سولائیزیشن) کا حصہ رہا ہے۔ جہاں دیگر تہذیبی روایات کے ساتھ ساتھ صنفی مساوات اور عورت کی تعظیم اُتم درجے پر موجود تھی ۔

جہاں ملکی فیصلوں سے نرتک یعنی ڈانس تک ، لوہا و برتن سازی سے دستکاری اور کھیتی باڑی تک مرد اور عورت برابری کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں وارث شاہ کی ہیر سے سچل سرمست کی سوہنی تک عورت کی فضیلت کی داستانیں رقم ہیں ، جب کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ نے تو سسئی ، مومل ، مارئی (ماروی) ، لیلاں، سہنی (سوہنی )، موکھی اور نوری کے کرداروں کی تمثیل میں عورت کو عظمت کا مینار بنا ڈالا۔اس لحاظ سے اس خطے میں آج عورت کی توقیر و تعظیم کو مزید بلند مقام پر ہونا چاہیے تھا لیکن آج ہمارے ملک میں گزشتہ3 برس میں 200 کے قریب خواتین سے اجتماعی جنسی زیادتیوں کے کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

معاشرے میں دن بہ دن عورت کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ریاستی و حکومتی سطح پر خواتین کے حقوق اور تعظیم ِ خواتین و صنفی مساوات کے ساتھ ساتھ کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کیے جانے جیسے اُمور کی روک تھام کے لیے کوششیں تیز سے تیز تر ہیں، مگر بطور قوم ہمیں مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے ابھی بہت کام کرنا ہے ، جس میں بنیادی کردار سول سوسائٹی اور تعلیم یافتہ طبقے کا ہے۔ دیکھا جائے تو ہمیں بچپن سے ہی اسکولوں میں ’’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری !‘‘ کا درس دیا جاتا رہا ہے ، پھر کیوں ہم اپنی دینی ، ملکی اور قومی تعلیمات کو فراموش کردیتے ہیں اور خود کو معاشرے کے معمار اور بہترین فرد ثابت کرنے کے لیے پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔