جائو کھیلو ، یہ لو جھنجھنا…!

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 4 نومبر 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

’’جاؤ کھیلو یہ لو جھنجھنا‘‘ یہ مصرع پاکستانی گلوکارہ رونا لیلیٰ کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے اکثر گونجتاتھا یہ وہ وقت تھا کہ جب بالغ افراد ریڈیو پاکستان سے فلمی نغمے سن کر محظوظ ہوتے تھے اور بچے ’’جھنجھنا‘‘ جیسے کھلونے لے کر خوش ہوتے تھے اور اسی سے بہل جاتے تھے مگر وقت کی تیز رفتار اور ایجادات کے نت نئے انداز نے یہ سب کچھ بدل دیا ہے۔ اب شاد ونادر ہی کوئی بچہ کسی جھنجھنے سے کھیلتا ہوا دکھائی دے گا، آج کے بچے (خصوصاً شہری علاقوں میں) صرف جدید اور حیرت انگیز قسم کے کھلونوں سے ہی نہیں کھیلتے بلکہ بڑوں کے استعمال کی اشیاء سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔

بچوں کا ایک ایساہی معروف کھلونا آج کا موبائل فون ہے گو کہ یہ بڑوں کے استعمال کی چیز ہے مگر جس گھر میں بھی بچے ہوں گے ان کے ہاتھ میں موبائل فون ضرور ہوگا اور وہ اس میں ویڈیو گیمزکھیلنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ ہم سے اکثر لوگ بچوں سے جان چھڑانے کے لیے بھی انھیں موبائل دے دیتے ہیں۔ راقم کا گزشتہ روز ایک دوست کے گھر جانا ہوا، وہاں بھی دیکھا کہ ایک بچہ موبائل فون لیے گیمز کھیلنے میں مصروف ہے، ابھی ہم اس بچے کی صلاحیت پر غور کر ہی رہے تھے کہ ہمارے دوست کے والد صاحب آگئے اور آتے ہی انھوں نے بچے کے ہاتھ سے موبائل لے لیا۔

بچے نے واپس موبائل فون مانگا اور کہاکہ ’’دادا‘‘ میں موبائل فون سے کھیل رہا ہوں، آپ نے فون کیوں لے لیا، آپ موبائل فون سے کھیلنے کیوں نہیں دیتے؟ سب بچے موبائل فون سے کھیلتے ہیں؟

بچے کے دادا نے کہاکہ ’’بیٹا یہ اچھی چیز نہیں ہے، اس سے کھیلنا نہیں چاہیے، بچے نے پھر پوچھا، کیوں بابا؟ یہ اچھی چیز کیوں نہیں؟ اس سے کیوں نہیں کھیلنا چاہیے؟

دادا نے بچے کی طرف دیکھتے ہوئے بچے سے پوچھا یہ بتاؤ کہ بیٹا یہ موبائل فون آپ کو جواب دیتاہے؟ بچے نے جواب دیا ’’نہیں‘‘

دادا نے پھر سوال کیا کہ کیا یہ موبائل فون تمہیں پیار کرتاہے؟ بچے نے جواب دیا ’’نہیں‘‘

دادا نے پھر سوال کیا کہ اچھا یہ بتاؤ یہ موبائل تمہیں چیزیں لاکر دیتاہے؟ بچے نے پھر نفی میں جواب دیا ’’نہیں‘‘

دادا نے پھر سوال کیا کہ کیا جب تمہیں چوٹ لگے تو یہ موبائل فون تمہاری مدد کرتاہے؟ جب تم روتے ہو تو یہ تمہیں چپ کراتاہے؟

بچے نے پھر ’’نہیں‘‘ کہا۔

بچے کے دادا نے اس طرح بے شمار سوالات کیے اور پھر بچے سے پوچھا کہ بیٹا تم میرے ساتھ کھیلوگے تو ان سب سوالوں کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ملے گا۔ کسی انسان کے ساتھ کھیلوگے تو بھی تمام سوالوں کا جواب ہاں میں ملے گا۔ بچے نے سر ہلاتے ہوئے کہا ہاں! یہ بات تو ہے جب میں آپ کے ساتھ کھیلتاہوں تو آپ مجھے جواب بھی دیتے ہیں، میری مدد بھی کرتے ہیں، مجھ سے باتیں بھی کرتے ہیں اور مجھے چیزیں بھی لاکر دیتے ہیں۔بچے سے دادا نے پھر سوال کیا، اچھا اب بتاؤ تمہارا اچھا دوست کون ہے؟ کس کے ساتھ کھیلنا پسند کروگے؟ موبائل کے ساتھ یا … بچے نے فوراً جواب دیا آپ کے ساتھ۔

میں نے یہ تمام گفتگو غور سے سنی اور جب بچہ چلا گیا تو میں نے اپنے دوست کے والد صاحب سے کہا کہ آپ کی منطق میری سمجھ میں نہیں آئی! انھوںنے جواباً مجھے سمجھاتے ہوئے کہاکہ غور کروگے تو میری بات ضرور تمہاری سمجھ میں آئے گی۔ بات یہ ہے کہ انسان کا سب سے اچھا دوست انسان ہوتاہے، جب ہم اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں گے تو ان سے ہمارا ربط بڑھے گا، جب ہم انھیں وقت دیں گے تو وہ بھی ہمیں وقت دیں گے۔ جب ہم انھیں وقت دیتے ہیں تو در حقیقت اس سے محبت بڑھتی ہے اور وہ بھی جواباً ہمیں وقت دیتے ہیں۔

جیسی ہم ان کی تربیت کرتے ہیں ویسا ہی جواب ان کی طرف سے ملتاہے۔ میری سمجھ میں بات نہیں آئی تو میں نے ان سے دوبارہ سوال کیا کہ بچوں کے وقت دینے کی بات سمجھ نہیں آئی، بچے ہمیں کیسے وقت دے سکتے ہیں؟ ہمیں ان کے وقت کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ ان بزرگ نے مجھے سمجھاتے ہوئے پھر کہا، بیٹا آج اگر ہم اپنے بچوں کو وقت دیں گے، ان کے ساتھ کھیلیں گے، انھیں اپنا قیمتی وقت دیں گے تو کل کو جب ہم بوڑھے، کمزور اور ناتواں ہوجائیں گے اور ہمیں کسی کے سہارے کی ضرورت ہوگی، ہمیں اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے کسی فرد کی ضرورت ہوگی تو پھر کون ہمارا ساتھ دے گا؟ کون اپنا قیمتی وقت دے گا؟ کون ہم سے بات کرنا پسند کرے گا؟ 60سال کی عمر میں تو سرکار بھی ملازمت سے فارغ کردیتی ہے۔

پرائیویٹ ادارے بھی کسی عمر رسیدہ کو اپنے دفتر میں رکھنا پسند نہیں کرتے! ایسے میں وہ ہی اولاد ہمیں وقت دے گی جس کو ہم نے اپنا قیمتی وقت دیاتھا۔ جس کو اپنی کمر پر بٹھا کر جھولے دیے تھے۔ ذرا سوچو! اگر آج ہم اپنی اولاد کو قیمتی کھلونے دے کر بہلانے کی پالیسی اپنائیں اور خود انھیں وقت دینے کے بجائے اپنی باہر کی دنیا آباد رکھیں تو کل یہ اولاد ہمیں اپنا وقت کیوں دے گی؟ جب ہم بیمار ہوں گے وہ اولاد بھی ڈاکٹر سے دوا دلواکر سمجھے گی کہ ماں باپ کا حق ادا ہوگیا، بہت ہوا تو ایک تیماردار (نوکر) کا بندوبست کرکے کہے گی ’’میں آپ کے لیے کیا کروں! دوا بھی پابندی سے دلاتاہوں، تیماردار بھی رکھ دیا ہے اب اور کیا چاہیے؟‘‘ اور اگر ایسا سننے کو ملے تو زیادہ غلط بھی نہیں ہوگا کیونکہ ہم ہی نے تو بچپن میں اپنی عملی تربیت سے لا شعوری طورپر بھی اولاد کو یہ سمجھادیا تھا کہ تمہیں اچھے اسکول میں پڑھادیا، ٹیوشن لگادیا اور قیمتی کھلونے دے دیے اور کیا چاہیے؟ یہ تو ضرورت ہوتی ہے انسان کی!

اب ان بزرگ کی بات میری سمجھ میں پوری طرح آچکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی اپنی اولاد کو وقت دینے کے بجائے کوئی کھلونا دیتے ہوئے کہے ’’جاؤ کھیلو یہ لو جھنجھنا‘‘ تو کل بچہ بڑا ہوکر اپنے بزرگ ناتواں باپ کو بھی یہ کہہ سکتاہے کہ ’’یہ لو دوا، کھاکر کمرے میں جاکے سوجاؤ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔