صرف مسئلے کا مسئلہ ہے

خرم شہزاد  منگل 18 فروری 2020
ہم مسائل کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں لیکن ان کا حل تلاش نہیں کرتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم مسائل کا ڈھنڈورا تو پیٹتے ہیں لیکن ان کا حل تلاش نہیں کرتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہتے ہیں کسی قبیلے کا ایک سردار ساری رات روتا رہا۔ دوستوں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میرا دشمن مرگیا ہے، اب میں کس سے دشمنی کروں گا؟ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے وہ نہیں میں مر گیا ہوں۔ آخر ساری رات کی سوچ بچار کے بعد یہ راہ نکالی گئی کہ دشمن کے بیٹے کو سردار اپنی ذمے داری میں لے کر اس کی پرورش کرے گا تاکہ دشمن کا نام باقی رہے اور وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے باپ کی جگہ دشمنی نبھا سکے۔

تاریخ کی کتابیں اس سردار کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، لیکن میرا اندازہ ہے کہ اس سردار کا قبیلہ برصغیر میں آباد ہوگیا تھا اور اب پچھلے ستر سال سے ایک الگ وطن بھی حاصل کرچکا ہے۔ آپ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن عادات و اطوار یہی بتاتے ہیں کہ اس خطے کے لوگوں کو صرف مسائل سے مسئلہ ہوتا ہے، باقی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ یعنی ہمیں پہلے پہل یہ پریشانی ہوتی ہے کہ یہاں کوئی مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ اور جب کوئی مسئلہ ہوجائے تو ہم اس کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل نہیں کیے جارہے۔ ہم جوان ہاتھیوں کی طرح مان چکے ہوتے ہیں کہ پیروں میں پڑی بیڑیاں کبھی نہیں ٹوٹ سکتیں، اس لیے زور آزمائی کی کوشش ہی نہیں کرتے۔

یہاں ہمیں جہنم کے گڑھوں والی کہانی یاد آتی ہے۔ کسی جگہ بہت سے گڑھے تھے اور ہر گڑھے میں ایک مخصوص علاقے کے لوگ ڈالے گئے تھے۔ ہر گڑھے پر ایک نگران موجود تھا جو باہر نکلنے کی کوشش کرنے والوں کو واپس اندر دھکیل دیتا تھا۔ وہاں پر آئے ایک مہمان نے نوٹ کیا کہ ہر گڑھے پر نگران موجود ہے لیکن ایک گڑھے پر کوئی نہیں۔ وہ قریب گیا کہ شاید گڑھا خالی ہو لیکن وہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے وہاں کے سب سے بڑے نگران سے پوچھا کہ یہاں کسی کی ڈیوٹی کیوں نہیں؟ نگراں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہاں کسی کی ڈیوٹی کی ضرورت ہی نہیں۔ جو باہر آنے کی کوشش کرتا ہے، دوسرے خود ہی اسے واپس کھینچ لیتے ہیں۔

آپ ان باتوں کو کہانیاں یا مذاق سمجھ رہے ہیں، لیکن آپ کو ماننا چاہئے کہ ہمیں صرف مسائل کے پیدا ہونے میں دلچسپی ہے اور ان کی موجودگی ہی ہماری زندگی کی اولین خواہش ہوتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کے حل کی طرف جانا ہمیں اتنا ہی ناقابل قبول ہے جتنا ہمیں فوری مرنا ناقابل قبول ہوتا ہے۔ آپ متفق نہیں تو چند سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں ہماری مدد کیجئے۔

سپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد لاہور ہائی کورٹ کے حکم کو خارج کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ واٹر منیجمنٹ کے 1342 اہلکاروں کو مستقل نہیں کیا جاسکتا۔ صرف یہ چھوٹی سی بات کہنے میں سپریم کورٹ نے آٹھ سال لگادیے اور مستقل ہونے کی امید میں سب اہلکاروں نے اپنی جوانیاں اس ادارے میں لگادیں۔ اب وہ اہلکار کہیں اور ملازمت کی عمر سے بھی نکل چکے ہیں۔ جبکہ کہیں اور کام نئے سرے سے شروع کرنا کیا آج اتنا ہی آسان ہے؟ ہماری عدلیہ میں ایسے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں۔ جب دو بھائیوں کی رہائی کا حکم ہوا تو پتہ چلا کہ ان کی وفات تو دو سال پہلے جیل میں ہوچکی ہے۔ ضمانت منظور ہونے کے بعد بھی ایک شخص برسوں اس وجہ سے جیل میں رہا کیونکہ اس کے پاس ضمانت کے پیسے ادا کرنے کےلیے نہیں تھے۔

ہمارے اردگرد عدالتی اور قانونی نظام کی خامیوں کے بہت سے واقعات ہونے کے باوجود ستر سال کی تاریخ میں مجھے کوئی سے ایسے تین مجسٹریٹ یا جج صاحبان کا تعارف کرادیجئے جنہیں ان کے والدین نے صرف اسی عدالتی نظام کی خامیوں سے تنگ آکر تیار کیا ہو کہ بیٹا تم نے جج بن کر ان خامیوں کو ٹھیک کرنا ہے۔ تین چھوڑیں مجھے ایک جج صاحب کا تعارف کرادیجئے۔ لیکن آپ نہیں کرسکتے، کیونکہ ہم نے اپنے بچوں کو صرف مسائل کا چہرہ دکھایا ہے، حل کی طرف تو لے کر ہی نہیں گئے۔ فیملی کورٹس میں روز ہزاروں والدین خوار ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کے بچے بھی پریشان ہوتے ہیں، لیکن کیا کوئی ایک بھی بچہ اس مقصد کو لے کر عدالتی نظام کا حصہ بنا ہے کہ وہ فیملی کورٹس میں باپ کو بھی انسان کا درجہ دلا سکے گا۔

ہمارے ملک کا کاروباری طبقہ ستر سال سے ٹیکس کے نظام سے نالاں ہے اور ان کا ایک بڑا شکوہ یہ ہے کہ ہم ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن ایف بی آر کے فارم ہی اتنے مشکل ہوتے ہیں کہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتے۔ ہمیں وکلا وغیرہ کی مدد چاہئے ہوتی ہے اور ان کی فیس اور اضافی چکر ہمیں ٹیکس ادائیگی سے بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ لیکن دو سے تین کروڑ افراد پر مشتمل کاروباری طبقہ ستر سال میں ایک چیئرمین ایف بی آر پیدا نہیں کرسکا جو اور کچھ نہیں صرف ٹیکس فارم ہی آسان کردے۔ اندازہ لگائیے کہ تین کروڑ افراد ستر سال میں ایک قابل شخص پیدا نہ کرسکے کہ اور کچھ نہیں کرنا صرف ٹیکس ریٹرن کو آسان اور سلیس کرنا ہے تو اس طبقے نے اور کرنا کیا ہے، آپ خود سمجھیں۔

ملک میں کسی بھی طرف آپ نگاہ کیجئے، آپ کو صورت حال ایسی ہی ملے گی۔ روز صبح شام ٹریفک حوالدار کو گالیاں دے کر جانے والے کسی شخص نے اپنے بچے کو ٹریفک حوالدار نہیں بنایا کہ کسی کو اچھا حوالدار نہ میسر آجائے اور اس کی زندگی کے مسائل کم ہوجائیں۔ پولیس سے شکوہ کرنے والے کتنے لوگوں نے اپنے بچوں کو ایک وژن کے ساتھ پولیس میں بھرتی کروایا ہے؟ کتنے افراد ماں باپ کی تربیت کے بعد صرف انسانیت کی خدمت کےلیے ڈاکٹر بن کر اب کسی گاؤں دیہات کی پوسٹنگ لیے بیٹھے ہیں اور انہیں اپنے کیریئر سے کوئی غرض نہیں لیکن انسانیت بچانے کی فکر ہے؟ کتنے لوگوں نے اپنے بچوں کو ایک اچھا کلرک بھرتی کروایا کہ وہ رشوت نہیں لے گا اور کام وقت پر ایمانداری سے کرے گا؟ گرمیوں سے تنگ کتنے لوگوں نے درخت لگائے ہیں اور بچوں کو ان کی حفاظت کرنا سکھایا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے صفائی نصف ایمان والا سبق پڑھاتے ہوئے نالی سے شاپر نکال کر گلی میں کھڑے پانی کی نکاسی ممکن بنائی ہے؟ مجھے اس پٹواری سے بھی متعارف کروائیے گا جسے والدین نے ایمانداری اور دیانت کے سبق پڑھا کر پٹوار خانے بھرتی کروایا ہو کہ روایتی پٹواری کا تاثر ختم ہو اور لوگوں کو ان کی زمین اور حق مل سکے؟

صبح سے شام اور شام سے صبح ہوجائے گی لیکن سوال ختم نہیں ہوں گے اور ان سبھی سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ہمیں مسائل کے جنم لینے اور ان کے زندہ رہنے میں دلچسپی ہے۔ مسائل کا حل ہماری زندگی کے چند ناممکنات میں سے ہے۔ اسی لیے ہم اپنے بچوں کو ان مسائل کے حل کی طرف جانے ہی نہیں دیتے۔ ہمارے اس معاشرے میں صرف مسئلے سے مسئلہ ہے، باقی یہاں کوئی مسئلہ نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔