- خانیوال میں آئی ایس آئی افسران کو شہید کرنے والا دہشت گرد ہلاک
- پاسپورٹ کی فیس میں اضافے سے متعلق خبریں بے بنیاد قرار
- اردو زبان بولنے پر طالبعلم کے ساتھ بدسلوکی؛ اسکول کی رجسٹریشن معطل، جرمانہ عائد
- کراچی میں آئندہ 3 روز موسم خشک اور راتیں سرد رہنے کی پیشگوئی
- عمران خان کا بنی گالہ منتقل ہونے کا فیصلہ
- وزیراعظم اور آرمی چیف کی زخمیوں کی عیادت، شہباز شریف آئی جی پر برہم
- چوہدری شجاعت ق لیگ کے صدررہیں گے یا نہیں، فیصلہ کل سنایا جائیگا
- زرداری پر قتل کا الزام، شیخ رشید تھانے میں پیش نہ ہوئے، مقدمہ درج ہونے کا امکان
- اے سی سی اے مضمون میں پہلی پوزیشن؛ پاکستانی طالبعلم عالمی ایوارڈ کیلئے نامزد
- پوتن نے اپنی افواج کو مجھے میزائل حملے میں قتل کرنے کا حکم دیا تھا؛ بورس جانسن
- انٹربینک میں ڈالر 269 اور اوپن مارکیٹ میں 275 روپے تک پہنچ گیا
- بجلی اور حرارت کے بغیر مچھربھگانے والا نظام، فوجیوں کے لیے بھی مؤثر
- اے آئی پروگرام کا خود سے تیارکردہ پروٹین، مضر بیکٹیریا کو تباہ کرنے لگا!
- بھارتی کسان نے جامنی اور نارنجی رنگ کی گوبھیاں کاشت کرلیں
- جنوبی کوریا نے ’فائرنگ‘ پر شمالی کوریا سے معذرت کرلی
- عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پاکستان میں سونے کی قیمت بڑھ گئی
- کرناٹک میں گائے ذبح کرنے کے الزام پر نوجوان پر انتہا پسند ہندوؤں کا تشدد
- پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اقتصادی جائزے پر منگل سے مذاکرات شروع ہوں گے
- فواد چوہدری کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد، جوڈیشل ریمانڈ منظور
- صرف غیر ملکی کوچز ہی کیوں! پاکستان میں بھی قابل لوگ موجود ہیں، شاہد آفریدی
کیا کھانسی کی یہ دوا دماغی بیماری کا علاج بھی کرسکتی ہے؟

ایمبروکسول نامی یہ دوا ایک ایسے پروٹین کی مقدار بڑھاتی ہے جو دماغ کی صفائی کرتے ہوئے اسے مختلف بیماریوں سے بھی پاک کرتا ہے (فوٹو: انٹرنیٹ)
لندن: آج سے پچاس سال پہلے کھانسی کی ایک دوا ’’ایمبروکسول‘‘ تیار کی گئی تھی۔ حالیہ تجربات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ یہی دوا ’’پارکنسن‘‘ کہلانے والے ایک دماغی مرض کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پارکنسن، دماغ میں موجود اعصابی خلیات کو متاثر کرنے والی بیماری ہے جس کی ابتداء بظاہر معمولی رعشے سے ہوتی ہے۔ بعد ازاں جسمانی حرکت سست پڑنے لگتی ہے، پٹھے سخت رہنے لگتے ہیں، چلتے پھرتے اور بیٹھتے دوران توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، لاشعوری حرکات (جیسے کہ چلتے ہوئے ہاتھ ہلانا اور آنکھیں جھپکانا وغیرہ) کم ہوجاتی ہیں جبکہ بولنے کے علاوہ لکھنے کا انداز (رائٹنگ اسٹائل) بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔
فی الحال ایسی کوئی دوا موجود نہیں جو پارکنسن کا علاج کرسکے، یا اس بیماری کی پیش رفت ہی آہستہ کرسکے۔ کچھ سال قبل ایمبروکسول استعمال کرنے والے عمر رسیدہ افراد میں کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ انہیں اس دوا کے استعمال سے پارکنسن میں بھی کچھ افاقہ ہوا تھا۔ ان معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے ایمبروکسول کی نئی طبّی آزمائشیں شروع کی گئیں جن کے پہلے مرحلے میں یہ دوا کامیاب رہی۔
اس ضمن میں دوسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں گزشتہ سال یونیورسٹی کالج لندن کے تحت شروع کی گئیں جو 6 ماہ تک جاری رہنے کے بعد کامیابی سے اختتام پذیر ہوئیں۔ ان آزمائشوں کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’جاما نیورولوجی‘‘ (JAMA Neurology) کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوچکی ہیں۔
اِن آزمائشوں میں 17 ایسے رضاکار شریک تھے جو پارکنسن بیماری کے مریض بھی تھے۔ چھ ماہ تک انہیں روزانہ ایمبروکسول دینے کے ساتھ ساتھ ان کا روزانہ کی بنیادوں پر طبی معائنہ بھی جاری رکھا گیا۔
سابقہ تحقیقات سے یہ امکان سامنے آیا تھا کہ ایمبروکسول خون کے راستے دماغ تک پہنچ کر وہاں ایک خاص قسم کے پروٹین کی مقدار میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ یہ پروٹین ہمارے دماغ میں بننے والے فاسد مادّوں کی صفائی کا کام کرتا ہے۔ البتہ عمر رسیدگی یا کسی جینیاتی خرابی کی وجہ سے اس کی مقدار کم ہونے لگتی ہے جس کے باعث دماغ کی صفائی کا عمل بھی مناسب طور پر جاری نہیں رہ پاتا۔ یہی بات آگے چل کر پارکنسن سمیت مختلف دماغی اور اعصابی امراض کی وجہ بنتی ہے۔
نئے مطالعے میں ایمبروکسول لینے والے مریضوں کا جائزہ اس پہلو سے بھی لیا گیا جس سے واضح ہوا کہ یہ امکان بے وجہ نہیں تھا۔ یہ نتائج اتنے امید افزاء ہیں کہ انہیں دیکھتے ہوئے برطانیہ میں پارکنسن پر تحقیق کے لیے رقم فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’’کیور پارکنسنز ٹرسٹ‘‘ نے تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں کے لیے فنڈز جاری کردیئے ہیں۔
متوقع طور پر تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں زیادہ تفصیلی ہوں گی جن میں مریضوں کی زیادہ بڑی تعداد بھی شریک ہوگی۔ علاوہ ازیں، ان میں صرف دماغ کے اندر بننے والے مخصوص پروٹین کی بڑھتی ہوئی مقداروں کا جائزہ ہی نہیں لیا جائے گا بلکہ مریضوں میں پارکنسن کی ظاہری علامات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی مدنظر رکھی جائیں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔