کیا کھانسی کی یہ دوا دماغی بیماری کا علاج بھی کرسکتی ہے؟

ویب ڈیسک  منگل 18 فروری 2020
ایمبروکسول نامی یہ دوا ایک ایسے پروٹین کی مقدار بڑھاتی ہے جو دماغ کی صفائی کرتے ہوئے اسے مختلف بیماریوں سے بھی پاک کرتا ہے (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایمبروکسول نامی یہ دوا ایک ایسے پروٹین کی مقدار بڑھاتی ہے جو دماغ کی صفائی کرتے ہوئے اسے مختلف بیماریوں سے بھی پاک کرتا ہے (فوٹو: انٹرنیٹ)

لندن: آج سے پچاس سال پہلے کھانسی کی ایک دوا ’’ایمبروکسول‘‘ تیار کی گئی تھی۔ حالیہ تجربات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ یہی دوا ’’پارکنسن‘‘ کہلانے والے ایک دماغی مرض کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ پارکنسن، دماغ میں موجود اعصابی خلیات کو متاثر کرنے والی بیماری ہے جس کی ابتداء بظاہر معمولی رعشے سے ہوتی ہے۔ بعد ازاں جسمانی حرکت سست پڑنے لگتی ہے، پٹھے سخت رہنے لگتے ہیں، چلتے پھرتے اور بیٹھتے دوران توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے، لاشعوری حرکات (جیسے کہ چلتے ہوئے ہاتھ ہلانا اور آنکھیں جھپکانا وغیرہ) کم ہوجاتی ہیں جبکہ بولنے کے علاوہ لکھنے کا انداز (رائٹنگ اسٹائل) بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔

فی الحال ایسی کوئی دوا موجود نہیں جو پارکنسن کا علاج کرسکے، یا اس بیماری کی پیش رفت ہی آہستہ کرسکے۔ کچھ سال قبل ایمبروکسول استعمال کرنے والے عمر رسیدہ افراد میں کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ انہیں اس دوا کے استعمال سے پارکنسن میں بھی کچھ افاقہ ہوا تھا۔ ان معلومات کو سامنے رکھتے ہوئے ایمبروکسول کی نئی طبّی آزمائشیں شروع کی گئیں جن کے پہلے مرحلے میں یہ دوا کامیاب رہی۔

اس ضمن میں دوسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں گزشتہ سال یونیورسٹی کالج لندن کے تحت شروع کی گئیں جو 6 ماہ تک جاری رہنے کے بعد کامیابی سے اختتام پذیر ہوئیں۔ ان آزمائشوں کی تفصیلات ریسرچ جرنل ’’جاما نیورولوجی‘‘ (JAMA Neurology) کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوچکی ہیں۔

اِن آزمائشوں میں 17 ایسے رضاکار شریک تھے جو پارکنسن بیماری کے مریض بھی تھے۔ چھ ماہ تک انہیں روزانہ ایمبروکسول دینے کے ساتھ ساتھ ان کا روزانہ کی بنیادوں پر طبی معائنہ بھی جاری رکھا گیا۔

سابقہ تحقیقات سے یہ امکان سامنے آیا تھا کہ ایمبروکسول خون کے راستے دماغ تک پہنچ کر وہاں ایک خاص قسم کے پروٹین کی مقدار میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ یہ پروٹین ہمارے دماغ میں بننے والے فاسد مادّوں کی صفائی کا کام کرتا ہے۔ البتہ عمر رسیدگی یا کسی جینیاتی خرابی کی وجہ سے اس کی مقدار کم ہونے لگتی ہے جس کے باعث دماغ کی صفائی کا عمل بھی مناسب طور پر جاری نہیں رہ پاتا۔ یہی بات آگے چل کر پارکنسن سمیت مختلف دماغی اور اعصابی امراض کی وجہ بنتی ہے۔

نئے مطالعے میں ایمبروکسول لینے والے مریضوں کا جائزہ اس پہلو سے بھی لیا گیا جس سے واضح ہوا کہ یہ امکان بے وجہ نہیں تھا۔ یہ نتائج اتنے امید افزاء ہیں کہ انہیں دیکھتے ہوئے برطانیہ میں پارکنسن پر تحقیق کے لیے رقم فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’’کیور پارکنسنز ٹرسٹ‘‘ نے تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں کے لیے فنڈز جاری کردیئے ہیں۔

متوقع طور پر تیسرے مرحلے کی طبّی آزمائشیں زیادہ تفصیلی ہوں گی جن میں مریضوں کی زیادہ بڑی تعداد بھی شریک ہوگی۔ علاوہ ازیں، ان میں صرف دماغ کے اندر بننے والے مخصوص پروٹین کی بڑھتی ہوئی مقداروں کا جائزہ ہی نہیں لیا جائے گا بلکہ مریضوں میں پارکنسن کی ظاہری علامات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی مدنظر رکھی جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔