عالمی یوم خواتین اور پاکستانی معاشرہ

شہاب احمد خان  منگل 3 مارچ 2020
عالمی یوم خواتین آٹھ مارچ کو جلوہ افروز ہونے والا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالمی یوم خواتین آٹھ مارچ کو جلوہ افروز ہونے والا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عالمی یوم خواتین اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ آٹھ مارچ کو جلوہ افروز ہونے والا ہے۔ جلوہ افروز کا لفظ اس لیے یہاں استعمال کیا کہ اس موقعے پر ہونے والی پریڈ سوائے جلوہ گری کے کوئی دوسرا اثر ہمارے معاشرے پر ڈالنے والی نہیں۔ اکثر و بیشتر تحریریں ایسی نظروں سے گزرتی ہیں جس میں پاکستانی معاشرے کو کچھ اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے ہر گھر میں مرد حضرات گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی بیویوں کی بلاوجہ باقاعدہ پٹائی کرتے ہیں۔ اکثر مرد اپنے گھر کی خواتین کو باقاعدہ زنجیروں سے باندھ کر گھر میں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ گھر واپس آکر انھیں غلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں، ان سے پورے گھر کے کام کرواتے ہیں۔ خود بیٹھ کر مزے مزے کے کھانے کھاتے ہیں۔ پھر اس میں سے جو بچ جاتا ہے وہ خواتین کے آگے ڈال دیا جاتا ہے۔

کچھ لوگ پاکستانی معاشرے کی اس طرح منظرکشی کرتے ہیں جیسے خواتین کی آبروریزی یہاں معمول کی بات ہے۔ مرد راہ چلتے خواتین کی عزت خراب کررہے ہیں۔ اس قدر ظلم عورت پر کیا جارہا ہے کہ اسے دن بھر روزگار کی چکی میں پیسا جاتا ہے۔ آج ہر گھر میں خواتین جیسے منتظر بیٹھی ہیں کہ کوئی ان کے حق میں آواز بلند کرے اور انھیں اس ظلم سے نجات دلائے۔ کیا کبھی کسی لبرل نے پاکستان میں اس موضوع پر بات کی ہے کہ امریکا جیسے آزاد معاشرے میں تقریباً پچاس فیصد مرد اپنی بیویوں یا گرل فرینڈ کی باقاعدہ پٹائی کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں ہر تیسری عورت کی آبرو ریزی کی جاتی ہے۔ آبرو ریزی کرنے کےلیے عورت کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے۔ نو سال کی نابالغ بچی سے لے کر ستر سال تک کی عورت کو بھی کوئی استثنیٰ حاصل نہیں۔ بس وہاں مرد کو موقع ملنے کی دیر ہے۔ آبرو ریزی کے واقعات میں خاندان کے قریبی افراد کے ملوث ہونے کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہاں خواتین اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔

کیا کبھی کوئی لبرل ہمارے یہاں کی خواتین کو یہ بھی بتاتا ہے کہ وہاں خاندان نام کی چیز مفقود ہوتی جارہی ہے۔ اگر مرد اور عورت شادی کرکے یا شادی کے بغیر ساتھ رہتے ہوں تو عورت کو برابر سے اخراجات کو پورا کرنے کی ذمے داری اٹھانی پڑتی ہے۔ جس کےلیے اسے دن بھر روزگار کی چکی میں بھی پسنا پڑتا ہے۔ اگر خاتون شادی کرکے بھی کسی مرد کے ساتھ رہ رہی ہے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ وہ شام کو گھر آکر کہے کہ میں اب مزید ساتھ نہیں رہ سکتا، مجھے میری منزل مل گئی ہے۔ جو خواتین شادی وغیرہ کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتیں وہ کئی ایک مردوں کا کھلونا بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ جو اس سے محظوظ تو خوب ہوتے ہیں لیکن اس عورت کی کوئی ذمے داری اٹھانا پسند نہیں کرتے۔ جہاں جنس کی بھی اب کئی اصطلاحات ایجاد ہوچکی ہیں۔ کیونکہ مرد اور عورت کے رشتوں کی کئی نئی اقسام اس معاشرے میں متعارف کرائی جاچکی ہیں۔

جہاں عورتوں کی سی وی میں ازدواجی حیثیت کے خانے میں لکھا ہوتا ہے کہ شادی کبھی نہیں ہوئی۔ لیکن اولاد کے خانے میں بچوں کی تعداد ایک یا دو اکثر لکھی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کی تقریباً پچاس فیصد آبادی اب شہروں میں رہتی ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ کل تک جو چھوٹے موٹے گاؤں ہوا کرتے تھے وہ اب ایک اوسط درجے کے شہر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ تمام شہری سہولیات ان میں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ، کیبل نیٹ ورک اور تمام عالمی ٹی وی چینلز ہمارے ملک کے ہر شہر میں دیکھے جاتے ہیں۔ آج ہمارے شہروں کی معیشت کا انحصار صرف ان دکانوں پر ہے جو صرف خواتین کے استعمال کی اشیا فروخت کرتے ہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مال صرف عورتوں کے لباس فروخت کرنے والی دکانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ آج عورتوں کے لباس کے بڑے بڑے برانڈ پاکستان میں بے تحاشا کما رہے ہیں۔ عورت پر بے پناہ مظالم ڈھانے والا پاکستانی مرد اپنی بیوی، بیٹی اور ماں کےلیے یہی برانڈ خوشی خوشی خریدتا ہوا نظر آتا ہے۔

آج روزگار کی صورت حال ہمارے ملک میں جتنی خراب ہے اس سے ہر شہری بخوبی واقف ہے۔ کیا کوئی ایسا واقعہ کبھی کسی نے سنا ہے کہ کسی مرد نے اپنے گھر کی خواتین سے کہہ دیا ہو کہ اب میں مزید آپ لوگوں کی ذمے داری نہیں اٹھا سکتا، اپنا انتظام آپ خود کریں۔ یا کسی مرد نے اپنی بیوی بچوں کو اس لیے چھوڑ دیا ہو کہ وہ ان حالات میں اب خاندان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا؟ اچھے برے انسان ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں مردوں کی بہت بھاری اکثریت آج بھی عورت کا نہ صرف دل سے احترام کرتی ہے بلکہ اپنی تمام متعلقہ خواتین کے تمام حقوق بھی خوش دلی سے ادا کرتی ہے۔

کچھ لوگ اسلام اور مذہب کے حوالے سے بھی عورتوں کو مظلوم ثابت کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو وراثت میں ان کا جائز حصہ اکثر نہیں ملتا۔ لیکن کیا کبھی کسی نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ شادی کے وقت لڑکی کو جو زیورات اور جہیز کی صورت میں اشیا دی جاتی ہیں وہ اکثر و بیشتر اس وراثت میں ملنے والی دولت سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ایسا متوسط طبقے میں اکثر دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں اگر والد کا گھر یا اور کوئی جائیداد بیچی جائے تو جو کچھ لڑکی کے حصے میں آسکتا ہے، اس سے کہیں زیادہ مالیت کی اشیا اس کے بھائیوں یا والد کی طرف سے اسے شادی کے وقت دے دی جاتی ہیں۔ ابھی ہمارا معاشرہ اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں شادی اور طلاق ایک کھیل بن گیا ہو۔ ایک بار لڑکی یا لڑکے کی شادی شدہ زندگی شروع ہوگئی تو وہ زندگی کے آخری وقت تک جاری رہتی ہے۔

اگر الله کے احکامات کی بات کی جاتے تو الله نے تو عورت کو عزت و عفت کے ساتھ گھروں میں ٹکے رہنے کا حکم دیا ہے۔ مرد کو زندگی کی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عورت خود بھی اس بات کو سمجھے اور مغرب کی تقلید میں اپنے آپ کو مردوں کا کھلونا نہ بننے دے۔ آزاد معاشروں میں تو عورت کو زندگی کی سختیوں کا سامنا بھی اکیلے کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی حیثیت مرد کےلیے ٹشو پیپر سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان میں جن لوگوں کو عورت سسکتی ہوئی مجبور اور بے کس نظر آتی ہے، انھیں ذرا آزاد معاشروں کی خواتین کی حالت زار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔