ہندو توا کے مضمرات

شبیر احمد ارمان  جمعـء 6 مارچ 2020
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ دنوں بھارت میں جاری شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک سماجی کارکن امولیا لیونا نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا ، بھارتی میڈیا کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیم رام سینا نے اس کی سر کی قیمت 10لاکھ روپے مقرر کردی ہے ،رام سینا کا کہنا ہے کہ حکومت نے اسے رہا کیا تو اسے قتل کردیں گے ۔ بھارتی ریاست کرناٹک کے ضلع ہبلی میں واقع گورنمنٹ ہائر پرائمری اسکول کی دیوار اور دروازوں پر کچھ لوگوں نے پاکستان زندہ باد لکھ دیا۔

اسی طرح دہلی فسادات کے دوران ایک بھارتی بچے نے بھارتی حکومت کے خلاف نکلنے والی ریلی میں نریندر مودی مردہ باد کے نعرے لگادیے اور کہا کہ بھارت کے پاس اگر لال قلعہ اور تاج محل نہ ہوتا تو کیا بھارت دنیا کو گائے کا گوبر دکھاتا ؟۔وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بچہ مودی سرکار کے مسلم مخالف اقدامات پر شدید برہم ہے ،اس بھارتی بچے نے اپنی تقریر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم ترانہ ملی کا شعر پڑھا : توحید کی امانت دلوں میں ہے ہمارے ، آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا ۔ بھارتی بچے نے شاعر مشرق کا ایک اور شعر پڑھتے ہوئے کہا : آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا ، آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا۔ یہ اشعار پڑھنے کے بعد بچے نے انقلاب زندہ باد اور نریندر مودی مردہ باد کے نعرے لگائے ۔

بچے نے وہاں موجود لوگوں سے سوال کیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب میں لوگوں نے کہا آزادی ۔ بچے نے مودی سرکار سے آزادی مانگتے ہوئے کہا : بچے مانگیں آزادی ، جو تم نہ دوگے آزادی ،ہم لڑکر لیں گے آزادی ، ہے حق ہے ہمارا آزادی ، ہے جان سے پیاری آزادی ،ہے پیاری پیاری آزادی ،کل قبر پر لکھنا آزادی ،خون سے لکھنا آزادی ۔اسی طرح کے دیگر نعرے جو بھارت کی گلی کوچوں سڑکوں میں لگائے جارہے ہیں وہ دراصل بھارت میں سہلگتا ہوا ہندو توا کے مضمرات ہیں جو بھارت کے آنیوالے دنوں کا تعین کررہے ہیں ۔یو ںتو بھارت میں مسلم کشی کے واقعات نئی بات نہیں ہے لیکن حال ہی میں دہلی فسادات نے وہاں کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے جو آزادی سے کم کوئی مطالبہ نہیں کررہے ہیں ۔بھارتی میڈیا کیمطابق بھارت کے درالحکومت نئی دہلی میں مسلم کش فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 46ہوگئی ہے ۔

300 سے زائد افراد زخمی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ، شدید متاثرہ علاقے شیووہار میں مقیم 500سے زائد مسلمان خاندان اپنے گھربار چھوڑ کر جان بچانے کے لیے شیلٹر ہومز میں پناہ لینے پر مجبور ہیں ۔محض کراول نگری کی چمن پارک کالونی میں ایک عمارت ( شیلٹر ہوم) میں 50خاندان ایک ہی چھت تلے رہ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جھڑپیں بھارتی دارالحکومت میں موج پور کے علاقے میں اس وقت ( اتوار 23فروری 2020) کو شروع ہوئیں جب شہریت قانون کے خلاف 2ماہ سے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین نے ریلی نکالنے کی کوشش کی ،اس موقع پر مخالف گروپ نے ان پر پتھر اؤ شروع کردیا ۔

دونوں گروپوں میں تصادم شروع ہونے کے بعد پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔ بھارت میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی موجودگی کے وقت دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون کے خلاف پر تشدد ہنگامے مسلسل دوسرے روز یعنی پیر24فروری کو بھی جاری رہے اس روز پولیس سے جھڑپوں اور متحارب گروپوں کے ایک دوسرے پر پتھراؤ اور فائرنگ میں 5افراد ہلاک جب کہ 50سے زائد افراد زخمی ہوگئے ،اس دوران انتہا پسند وں نے شمال مشرق دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں سلیم پور اور چاند باغ ،جعفر آباد اور موج پور میں متعدد گھروں ،دکانوں ،گاڑیوں اور پٹرول پمپس اور سرکاری املاک کو آگ لگا دی ۔

علاقے میں فوج کو طلب کیا گیا ،میٹر اسٹیشن بند کردیا گیا، اسکول دوسرے روز بھی بند رہے ،ایک بھارتی صحافی کا کہنا ہے کہ بلوائیوں کو بسوں میں بھر کر فسادات کے لیے لایا گیا ، برقعہ پہنی خاتون اور مسلمان شہریوں پر ہجوم نے بدترین تشدد کیا ،مسلمانوں نے خوف کے باعث گھر خالی کردیے ،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں تیسرے روز بھی فسادات جاری رہے ،غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق فسادات کا آغاز دہلی کے علاقے موج پور میں قانون شہریت کے خلاف خواتین کے احتجاج پر حملے سے ہوا اور پولیس نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے شدت پسند بلوائیوں کے ساتھ مل کر مظاہرین پر تشدد اور پتھراؤ کیا ۔

پولیس کی سرپرستی میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلمانوں کے، مکانات، دکانیں، گاڑیاں اور کئی پیٹرول پمپس کو نذر آتش کردیا۔ دہلی میں بابری مسجد جیسا ایک اور سانحہ دہراہا گیا، اشوک نگر میں جامع مسجد کو آگ لگاکر شہید کردیا گیا، مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بلوائیوں کے حملے کے وقت پولیس نے مسلمان کمیونٹی کے لوگوں جائے وقوعہ سے ہٹا دیا تھا یعنی پولیس کی موجودگی میں ہندو بلوائیوں کا جتھہ جامع مسجد کے مینار پر چڑھ دوڑا ، کئی افراد نے مینار پر چڑھ کر ہلال کے نشان کو اکھاڑنے کی کوشش کی ،مسجد میں توڑ پھوڑ کی اور مسجد پر بھارتی ترنگا اور ہندوؤں کی مذہبی علامت سمجھے جانے والا پرچم لہرایا۔ جلتی مسجد کے اطراف مشتعل ہجوم جے شری رام کے نعرے لگاتا رہا ۔ مسلمانوں کو روک روک کر شناخت کے بعد نشانہ بنایا جانے لگا ،زخمیوں کو اسپتال لے جانیوالی ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ کئی گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی گئی ۔

واضح رہے کہ شمال مشرقی دہلی ایسے وقت میں مسلم کش فسادات کی آگ میں سلگتی رہی جب 15کلو میٹر کے فاصلے پر انتہا پسند مودی حکومت امریکی صدر ٹرمپ اور ان کی فیملی کی میزبانی کررہی تھی۔ درجنوں وڈیوسوشل میڈیا پر سامنے آئیں جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ بھارتی پولیس کے سامنے چند لاشیں پڑی ہیں جب کہ پولیس اہلکار دم توڑتے مسلمان نوجوانوں کو مارتے ہوئے ان سے جے شری رام کے نعرے لگانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ نئی دہلی میں مسلم کش فسادات بدھ 26فروری کو بھی جاری رہے اس روزفسادات اور متنازع شہریت قانون پر ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 27تک جاپہنچی جب کہ 250سے زائد زخمی اسپتال لائے جاچکے تھے۔ متعدد محلے جنگ زدہ علاقے کا منظر پیش کررہے تھے ۔اس روز بھی مسلمانوں کے املاک کو جلانے اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا ، بھجن پورہ میں ایک مزار کو بھی نذر آتش کیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پرتشدد کاروائیوں میں ملوث 106 افراد کو گرفتار اور 18کے خلاف ایف آئی آر ز درج کی گئی ہیں۔ زخمیوں میں سے 60افراد کو گولیاں لگی ہیں۔ شہر کے چار مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کی امریکا واپسی اور فسادات کے چوتھے روز بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی پولیس اور ایجنسیاں صورتحال نارمل کرنے کے لیے کام کررہی ہیں۔ مسلم تنظیموں نے مودی کو خط لکھ کر متاثرہ علاقوں میں فوج تعیناتی کا مطالبہ کیا ۔جس پر بھارتی وزارت داخلہ نے کہا کہ اس وقت فوج کو تعینات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

دہلی ہائی کورٹ نے منگل 25فروری کو رات گئے جسٹس ایس مرلی دھر کے گھر پر ایک درخواست کی ہنگامی سماعت کی اور پولیس کو ایمبولینس اور زخمیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا ۔ نئی دہلی ہائی کورٹ نے مسلم کش فسادات کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے حکمراں جماعت بی جے پی کے تین رہنماؤں کپل مشرا ،انوراگ ٹھاکر اور پردیش ورما کے خلاف مقدمہ درج کراکے گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے ۔
جسٹس ایس مورالی دھر اور جسٹس تلوانت سنگھ نے پولیس اہلکاروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1984 جیسے فسادات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ججوں کی ہدایت پر عدالتی عملے نے پولیس کمشنر اور دیگر افسروں کو بی جے پی کے ان تینوں رہنماؤں کی نفرت انگیز تقریر سنائی جس میں انھوں نے مسلمانوں کو غدار اور وطن دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی آبدیوں اور عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی دھمکی دی تھی ۔نئی دہلی میں یہ مسلم کش فسادات چھ روز جاری رہنے کے بعد 29فروری کو مجموعی صورت حال معمول پر آنے لگی۔ماہرین نے دہلی میں مسلمانوں پر حملوں کو جرمن نازیوں کے یہودیوں پر حملوں سے مشابہ قرار دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔