کہیں یہ سب کے سب تو’’وہ‘‘ نہیں

سعد اللہ جان برق  بدھ 25 مارچ 2020
barq@email.com

[email protected]

کبھی کبھی تو ہمیں اپنے آپ پربھی شک ہونے لگتاہے کہ ہم واقعی وہ ہیں یا کچھ اور ہوگئے ہیں یا ہیں بھی کہ نہیں؟چنانچہ بار بار آئینے میں جاکرتصدیق کرتے رہتے ہیں لیکن یہ تصدیق بھی ’’مصدقہ‘‘ نہیں۔

کیا خبر آئینہ بھی آئینہ نہ ہو کچھ اور ہو کہ جب انڈے نقلی ہوسکتے ہیں، چاول نقلی ہیں، بوتلوں کاپانی اور دودھ نقلی ہوسکتاہے۔ دودھ ،گھی، لیڈر، دیندار حضرات، کہاں تک جائیے ایسا کچھ کم ازکم ہمیں تونظرنہیں آتا جس میں ملاوٹ نہ ہو۔ کیا پتہ ہماری نظر اور بینائی میں بھی ملاوٹ ہو۔جب لوگ بتیسی کا ایک دانت توڑ کرخصاب میں تھوڑے سے بال سفید چھوڑ کر بڑھاپے اور جوانی میں ملاوٹ کرتے ہیں تو بینائی میں ملاوٹ کیامشکل ہے۔ اب سمجھ میں تھوڑا تھوڑا آرہاہے کہ اپنے ’’ناسڑے ڈیمس‘‘غالب نے یہ کیوں کہاتھا کہ

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

ان کے وقت کے لیڈران کرام وزیران عظام اور دیگر تمام نہیں ہوا کرتے تھے، اس لیے انھی ’’کواکب‘‘کی مثال دی تھی۔اب اس بات کا آپ کیا کریں گے کہ اور اس کا ہمیں بارہا تجربہ ہورہاہے کہ کورئیر سروسوں سے کوئی چیز بھیج دیجیے تو حیرت انگیز طور پر وہ ڈاک خانے والوں کے ’’ذریعے‘‘پہنچ جاتی ہے، فرق صرف بہت زیادہ چارجز اور بہت زیادہ  ’’دیر‘‘کا ہوتاہے۔بلکہ اب تو ہم نے یہ تجربہ بھی کرلیا کہ اگر کوئی چیز جلدی پہنچانا ہو تو سیدھے ڈاک خانے کے ذریعے پہنچادیجیے کہ کورئیرمیں دینے کے بعد وہ جب ڈاک خانے والوں کے ذریعے پہنچاتے ہیں تو کورئیر والوں کے صدقے میںکچھ زیادہ وقت صرف ہوجاتا ہے۔

منرل واٹر کے ڈھول کا پول تو پہلے کھل چکاہے اور یہ راز درون پردہ ہمیں ایک سپیرپارٹ کے دکاندار نے عملی طور پر بتایا اور دکھایا، وہ ایک نلکے کاعام پانی لے کر بوتلوں میں بھررہاتھا۔ پوچھا توپتہ چلا کہ بیٹریوں میں ڈالنے والا ’’پانی‘‘صرف کنووں میں خالص ہوتاہے یا چشموں کے دہانے پر۔باقی مایا ہے سب مایاہے جس طرح خالص دودھ صرف کٹے اور وچھے کو میسر ہے ،جانور کو ذبح کرکے کٹی ہوئی شہ رگ میں فوراً پانی پمپ کردیاجاتاہے۔

اسے قصائی بھاشا میں پریشر دینا کہتے ہیں۔کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور بہت غلط سوچتے ہیں کہ اپنے پاکستان کے یہ موجدآئنسٹائن، سٹفین ہاکنز اور بیل نوبل وغیرہ اگراپنے اعلیٰ ترین کیٹگری کا دماغ جو یہ ایسے ویسے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، اگر سیدھے سیدھے کاموں میں لگاتے تو آج ہمارے پاس قرضوں سے زیادہ ایجادات اور لیڈروں سے زیادہ موجد ہوتے۔ لیکن پھرفوراً اپنے اس غلط خیال، غلط سوچ اور غیرپاکستانی کام کی تردید بھی کردیتے ہیں کیونکہ جو مزہ غلط کام میں ہے وہ سیدھے کام میں کہاں جو لذت حرام میں ہے وہ حلال میں بالکل بھی نہیں اور جومزہ گناہ میں ہوتاہے، وہ ثواب میں کہاں ہوتاہے اور یہ ہم کوئی ہوائی نہیں اڑا رہے ہیں بلکہ ایسا ہم نے دیکھا ہے، دیکھتے رہے ہیں۔

ہمارا ایک شناسا تھا، بہت کمال کا آدمی تھا جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتاتھا، بس پوچھو مت ۔کبھی آلو چنے لگاتا،کبھی سموسے پکوڑے تو کبھی پلاو، بریانی، کبھی مرغیوں کے پانچے ، کبھی سری پائے، جوکام شروع کرتا کامیاب ہوجاتا لیکن اس میں ایک تویہ عادت تھی کہ لوگ توناکام ہونے پر وہ کام چھوڑتے ہیں جب کہ وہ کامیاب ہونے پر وہ کام چھوڑ کرکوئی اور نیاکام شروع کردیتا، وہ بھی کامیاب ہوتا توکسی نئے کام میں مصروف ہوجاتا۔ دوسری عادت اس میں یہ تھی کہ ادھر ادھر یہاں وہاں اگرکوئی ٹیڑھا میڑھاکام ملتا تو اپنا سیدھاکام چھوڑکر ٹیڑھا کام کرنے لگتا چنانچہ منشیات، چوری، ہیراپیری اور نوسربازی سب کچھ کرتاتھا۔

پنجاب والوں کے لیے خیبرپختون خوا میں دلہنیں ڈھونڈنا ،دیہات والوں کے لیے شہر اور شہر میں دیہات کے کھاتے پیتے لوگوں کی شادی کرانا۔ پشاور، مردان والوں کے رشتے سوات، دیر، چترال میں کرانا۔ ایک چلتی پرزہ عورت تھی جس کی شادی پنجاب، کراچی وغیرہ میں کسی بوڑھے مالدار آدمی سے کراتا اور وہ  چند ہی روز میں اس کے گھر کاصفایا کرلوٹ آتی۔

اس کام میں کئی مرتبہ رگڑے بھی کھائے، تاوان بھرکر ساراکیاپیا بھی ناک کے راستے الٹایا لیکن باز نہیں آتا۔ہم نے ایک دن اس سے کہا کہ تم وہ کندہ تراش ہو کہ اگر پانچ سوروپے روز حلال کے مل رہے ہوں اور کہیں دوسو روپے حرام کے نظرآئیں توپانچ سو حلال کے چھوڑ کر دوسو کے پیچھے دوڑے پڑتے ہو اور ایسا ہی تھا، ہم نے اس کے بارے میں سوچا۔تواس نتیجے پر پہنچے کہ بعض لوگوں کی ذہنی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے۔ شکاری لوگ سارا سارا دن بلکہ سردیوں کی ٹھٹھرتی راتیں کسی جنگل بیابان میں ’’شکار‘‘پر گزارلیتے ہیں یا دریا کنارے بیٹھے رہتے ہیں حلانکہ فارغ البال لوگ ہوتے ہیں، چاہیں توہرقسم کاگوشت خرید بھی سکتے ہیں۔ جب کہ شکار میں بھی اکثرناکام رہ کر بھوک پیاس سہتے ہیں۔

اس معاملے میں علامہ اقبال نے بھی کہیں کہاہے کہ جومزہ کبوتر پرجھپٹنے میں ہے وہ کبوتر کے خون میں بھی نہیں ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ہاں کے ان ’’موجدوں‘‘ کا بھی ہے جو نقل سازی، جعل سازی اور ملاوٹ کااگر کوئی نوبل جیسا انعام ہوتا توپاکستانیوں سے کوئی بھی جیت نہیں سکتاتھا۔ چناچنہ آج ہمیں یہی پرابلم ہے، اتنی نقلیں دیکھیں، اتنی جعلیں، اتنی ملاوٹیں دیکھ رہے ہیں کہ کہیں یہ جوہم آدمی دیکھ رہے ہیں، یہ بھی آدمی ہیں یا نہیں؟ کیا پتہ پاکستانیوں نے ایسی چیزیں ایجاد کرلی ہوں جو ہوبہو آدمی لگتی ہوں۔اب یہ جو بڑے ہیں مثلاً جناب وزیراعظم نیا پاکستان، فوادچودھری، فردوس عاشق، محمودخان وغیرہ یہ تو شک وشبہ سے بالا ہیں کہ ایسا ایسا بنانا کسی کے بس کاکام نہیں ہے لیکن ان کے بعد جوہیں نام لینے کی ضرورت نہیں کہ ایک چاول سے پوری دیگ کاپتہ چل جاتاہے، کہیں یہ سب کے سب تو؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔