الوداع ماہِ رمضان

عبدالقادر حسن  ہفتہ 23 مئ 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قارئین جب یہ سطور پڑھ رہے ہیں تو وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور میرے بھتیجے فواد چوہدری کے سائنسی علم کے مطابق آخری روزہ ہے ان کاکہنا ہے کہ قمری کیلنڈر کے مطابق چوبیس مئی کو عید الفطر کا دن ہے رویت ہلال کمیٹی کو وہ اہمیت نہیں دیتے آج کے جدید سائنسی علوم پر ان کا بھروسہ زیادہ ہے ۔

بہر حال عید کل ہو یا ایک دن بعد ماہ رمضان کا با برکت مہینہ رخصت ہو رہا ہے وہ لوگ خوش نصیب ہیں جو اس مبارک مہینے کی نعمتوں سے سرشار ہوتے ہیں اور اپنے لیے خیرو برکت سمیٹتے ہیں، انھی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں جو طبی عذر کی وجہ سے ایک روزہ بھی نہیں رکھ سکا اور اس کی اجازت مجھے میرے ڈاکٹر فتح خان اختر نے دے رکھی ہے جن کا کہنا تھا کہ تمہارا ایک گردہ کام کر رہا ہے جس کی وجہ سے تمہارا جسم روزہ کی سختی برداشت نہیں کر سکتا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی بیماری کی صورت میں چھوٹ دے رکھی ہے لہذا تم اپنے روزوں کا کفارہ ادا کر دیا کرو۔

میں ڈاکٹر فتح خان کی اس نصیحت پر گزشتہ کئی برس سے عمل کر رہا ہوں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس ماہ رمضان میں ڈاکٹر صاحب وفات پا گئے ہیں جو میرے لیے ایک ذاتی صدمہ ہے، ڈاکٹر صاحب سے میرا تعلق کئی دہائیوں پر محیط ہے وہ میرے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے میں اپنی پیرانہ سالی کے باعث ان کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا اور گھر بیٹھ کر ان کی مغفرت کی دعا کرتا رہا۔ خوش نصیب ہیں بھائی فتح خان جو ماہ رمضان کے بابرکت اور رحمتوں والے مہینے میں اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔

میں روزہ دار تو نہیں ہوں لیکن میرا پورا مہینہ روزہ داروں کے آس پاس گزرا ہے اور یہ روزہ دار میرے بچے ہیں جن پر اب روزے فرض ہو چکے ہیں سوائے میری چھوٹی پوتی حلیمہ سعدیہ کے جس نے روزے فرض نہ ہونے کے باوجود بھی پورے روزے رکھے ہیں اور ہم گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اس کا جواب یہی ہوتا تھا کہ اس کا روزہ بڑے آرام سے گزر رہا ہے ۔

یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ ان بچوں کو روزے کی سعادت سے سرفراز کیا اور ان بچوں کو روزے کا ہر آرام فراہم کرنے والے بڑے روزہ داروں کو بھی خوشی کا موقع عطا کیا۔ میرے بچوں کی زندگی میں یہ پہلا رمضان ہے جس کے دوران وہ گاؤں بھی گئے اور آنے جانے کے سفر میں بھی روزے سے رہے اور گاؤں کے خنک موسم میں روزوں کا لطف دوبالا کرتے رہے۔ اب جب وہ واپس میرے پاس عید کے لیے آچکے ہیں تو روز شام کو افطار کے بعد میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور گاؤں کی باتیں شروع کر دیتے ہیں۔ میں اپنے ان روزہ دار بچوں کو دیکھ کر سرشار رہتا ہوں یہ میری مفت کی سرشاری ہے جو قدرت نے عطا کی ہے۔

ایسی سرشاری سے ہمارے گاؤں کے کتنے ہی روزہ دار گزر رہے ہوں گے جو سادی سحری کھانے کے بعد روزہ شروع کر دیتے ہیں اور روزے کی حالت میں گندم کی فصل بھی کاٹتے رہتے ہیں اور سالن روٹی سے افطاری کر کے صبر و شکر کے ساتھ روزے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ ہمارے گاؤں میں روزہ ایک معمول ہے جس سے ہر شخص گزرتا ہے اور گاؤں میں کوئی عاقل و بالغ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ روزہ قضاء کر لے گا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے یہ عہد کہ روزہ اس کے لیے ہی رکھا جائے گا۔ ’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا‘۔ اللہ کا یہ فرمان ہر روزہ دار کے ذہن میںسکون بن کر موجود رہتا ہے اور روزے کی سختی وہ اس ارشاد باری تعالیٰ کی برکت اور حوصلے سے گزار لیتا ہے۔

رمضان کے مہینے میں کئی ایسے ایمان افروز واقعات بے ساختہ یاد آتے ہیں جو انسان کے دل میں ایمان کو مزید پختہ کر دیتے اور بھر دیتے ہیں۔ ایک غریب بوڑھا کہیں سے کچھ لے کر خواجہ مسعود چشتی ؒ کے پاس حاضر ہوا اور جو کچھ پاس تھا اس کو نذرانہ کی شکل میں ان کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ خواجہ صاحب نے یہ نذرانہ اور غریب بوڑھے کو دیکھ کر کہا کہ بابا یہ سب آپ کی خدمت میں میری طرف سے تحفہ سمجھیں اور اسے قبول کر لیں ۔

یہ سن کر بوڑھے نے سوچا کہ میری عمر اور بے چارگی دیکھ کر خواجہ صاحب میرا نذرانہ قبول نہیں کر رہے اور معذرت کر رہے ہیں۔ بوڑھا عقیدت مند خواجہ صاحب کا جواب سن کر افسردہ ہوگیا اور رونے لگ پڑا ۔ اس کی حالت دیکھ کر خواجہ مسعود چشتی  ؒ نے نہ صرف اس کا تحفہ لے لیا بلکہ اس میں سے کچھ کھا پی بھی لیا۔ خواجہ صاحب کو کھاتادیکھ کر ان کے پاس جمع مریدوں نے عرض کیا کہ آپ تو روزے سے تھے لیکن اس فقیر کے لیے روزے کو توڑ لیا ۔ مریدوں کو جواب دیتے ہوئے خواجہ صاحب نے فرمایا کہ روزے کا تو کوئی کفارہ ہے جو میں ادا کرلوں گا لیکن کسی ٹوٹے ہوئے دل کاکوئی کفارہ نہیں ہے جسے میں ادا کر سکوں ۔ یہ بات کوئی ولی اللہ اور دلوں کا حال جاننے والا ہی کہہ سکتا ہے۔

روزہ مسلمانوں کی زندگی کا ایک حصہ ہے درحقیقت روزہ کے بغیر ہم اپنی عاقبت کی نجات اور رمضان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اس فرض کی ادائیگی کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں یہی حاضری ایک مسلمان کی زندگی ہے اور بات خواجہ مسعود چشتی ؒ والی ہے کہ روزے کا تو ایک کفارہ مقرر ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی دوسرے گناہ کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے اور اس کی مغفرت پر ہم زندہ ہیں ۔ رمضان جارہا ہوں اللہ تعالیٰ ہر گنہ گار کا مالک ہے اور معاف کرنے والا ہے اورہم سب اس کی ذات سے مغفرت کی امید رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔