ڈراؤنے ڈرون سے ڈرنا کیا

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 7 دسمبر 2013
barq@email.com

[email protected]

ڈرون حملوں کا موضوع آج کل سب سے زیادہ بیسٹ سیلر اور ہارٹ فیورٹ ہے اس لئے اگر ہم بھی اس پر اپنی دو چار ’’سواریاں‘‘ چڑھائیں تو مضائقہ کیا ہے آخر ہم بھی اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں ڈرون حملے اڑتے اور ڈالر بہتے ہیں

گرمن از باغ تو یک میوہ بچنیم چہ شود

پیش پائی بہ چراغ تو بہ بنیم چہ شود

ہماری اتنی ہستی تو نہیں کہ دوسرے کالم نگاروں کی طرح امریکا کو بھکاری اور اس کی نیلی اور میلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں لیکن اتنا تو کر سکتے ہیں کہ یہاں وہاں سے ’’سیٹی بانسری‘‘ اٹھا کر کچھ نہ کچھ الاپ دیں کیوں کہ آخر ہمارے بھی کچھ پڑھنے والے ہیں  جو ہم سے چاہتے ہیں کہ

کچھ تو کہئے کہ لوگ کہتے ہیں

آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

ہم کچھ زیادہ تو نہیں کہہ پائیں گے کیونکہ جوانی سے لے کر اس پیری تک ہماری وہ توقع نہیں ٹوٹی ہے کہ کسی دن ہمیں بھی جارج واشنگٹن کی زیارت نصیب ہو گی اور اسی توقع پر ہم آج تک امریکا کے بارے میں صرف شبھ شبھ ہی بولتے رہے ہیں کیا پتہ کس وقت تقدیر مہربان ہو جائے اور ’’لفافہ‘‘ پھاڑ کر ہمیں بھی کچھ مل جائے، کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ خدا جب دیتا ہے چھپر پھاڑ کر دیتا ہے اور یہ امریکا جب دیتا ہے تو لفافہ پھاڑ کر دیتا ہے اور آپ تو جانتے ہیں اس بڑے اور عظیم خدا نے تو ہمارے اوپر چھپر نہیں پھاڑا ہے ممکن ہے امریکا لفافہ پھاڑ کر کچھ دے ہی ڈالے، وہ ہمارے ایک دوست سیف الرحمن سلیم مرحوم کا کہنا ہے کہ

د وڑو وڑو خدایا نو دے بندہ کڑم

لویہ خدایا زہ بہ چا چا تہ سجدہ کڑم

یعنی تم نے مجھے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بندہ بنایا ہوا ہے اے خدائے عظیم رب میں کس کس خدا کے آگے سجدہ کروں گا‘‘، اس کم بخت جارج واشنگٹن کی تصویر والے کاغذ میں کشش ہی ایسی ہی ہے کہ آدمی کو کشاں کشاں اپنے پیچھے چلانے لگتا ہے جسے بکری گھاس کے پیچھے چلنے لگتی ہے چنانچہ ہمیں بھی اپنے اصل موضوع سے یہاں تک کھینچ لائی ہے چلئے رسہ تڑا کر پھر اپنے اصل موضوع ڈرون پر آتے ہیں

خواجہ دانست کہ من عاشقم و ھیچ نہ گفت

حافظ ارنیز بداند کہ چنیم چہ شود

دراصل یہ جو ڈرون حملے ہوتے ہیں یہ اصل میں ڈرون حملے ہوتے ہی نہیں ہیں لوگوں نے خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بنایا ہوا ہے وہ تو پڑوسی ملک سے کچھ آوارہ چوپائے پھرتے پھراتے ہمارے کھیت میں آ جاتے ہیں تھوڑا سا چر چکھ لیتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں ایسا کوئی خاص نقصان بھی نہیں کرتے بس کنارے کنارے کچھ فالتو قسم کی گھاس کے چند لقمے لے لیتے ہیں، دنیا جانتی ہے کہ ہم اس گھاس کو ویسے بھی کاٹ کر پھینکنا چاہتے ہیں لیکن اپنے پاس مضبوط ہاتھوں اور تیز درانتیوں کی کمی ہے اس لئے کناروں کی گھاس اچھی خاصی بڑھ جاتی ہے ایسے میں اگر پڑوسی تھوڑی سی مدد ہماری کرتا ہے تو یہ تو اچھی بات ہے

صرف شد عمر گراں مایہ بہ معشوقہ ومے

تا از انم کہ بہ پیش آئد از نیم چہ شود

مطلب یہ کہ ڈرون حملے کوئی خاص بات ہے بھی نہیں مگر لوگوں کو تو بات سے بتنگڑ اور ڈالر سے ڈرون بنانے کی عادت ہوتی ہے حالانکہ گہرائی سے سو چا جائے تو بات کچھ بھی نہیں ہے اگر ڈرون جہازوں میں کوئی انسان ہوتا تو ہم شکایت کر بھی دیتے لیکن اتنی زور دار شکایت کرتے کہ یہاں سے واشنگٹن تک تھرتھری مچ جاتی اور وہائٹ ہاوس کے کنگروں سے کنکر گر پڑتے کیوں کہ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی اور سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی ہماری حدود کی خلاف ورزی کرے اور ہم چپ رہیں، لیکن یہاں تو ’’کوئی‘‘ ہوتا ہی نہیں کچھ بے زبان جہاز ہوتے ہیں جو بھول بھٹک کر ادھر آ جاتے ہیں بے زبان جانوروں کی غلطی پر کیا لڑنا اور کیا جھگڑنا جب کہ درمیان میں ڈالر کا مضبوط اور واجب الاحترام رشتہ بھی موجود ہو وہ ایک پشتو ٹپہ شاید آپ نے سنا ہو کہ

خاطر دے ڈپر راباندے گران دے

ماپہ ملالہ خولگئ لاس کلہ پر ے خونہ

یعنی تمہاری خاطر میرے دل میں بہت زیادہ ہے ورنہ میں اپنے  گال پر کہاں کسی کو ہاتھ پھیرنے دیتی، ذرا اور تو کوئی ایسا کرے اس پڑوسی ملک کی کوئی بکری تو ہماری طرف بلا اجازت نکل آئے قصائی سے نہیں کٹوایا تو پھر کہئے گا، ہم کوئی ایسے ویسے تو نہیں ہیں ملک کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں اور مضبوط ہاتھ بھی رکھتے ہیں لیکن ڈرون تو ہمارے عزیز مہمان ہیں

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

ذرا اس لفظ ڈرون کو گنگنا کر تو دیکھئے ایسا لگتا ہے جیسے منہ میں ڈالر گھل رہے ہوں جہاں تک کچھ لوگوں کے مرنے ورنے کا تعلق ہے تو موت سے کس کو رستگاری ہے آج تم کل ہماری باری ہے، جن لوگوں کو مرنا ہوتا ہے وہ ہرحال میں مر جاتے ہیں ہم پکے عقیدے کے مسلمان ہیں جس کو جب جب مرنا ہوتا ہے تب تب مر جاتا ہے جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی ۔۔۔ جس کی جہاں لکھی ہوتی ہے وہیں پر آ جاتی ہے، ازل کے لکھے کو کوئی بھی بدل نہیں سکتا ہے

یہ ضد کہ آج نہ آوے اور آئے بن نہ رہے

قضا سے شکوہ ہمیں کس قدر ہے کیا کہئے

یہ تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ موت برحق ہے البتہ کفن میں شک ہے ویسے بھی آپ نے اس شخص کا قصہ تو سنا ہی ہے جو اپنے  ایک درد کرتے ہوئے دانت کو نکلوانا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے اور دانت کا درد برداشت کرنے پر مجبور تھا لیکن ایک دوست نے مہربان ہو کر اس کے کلّے پر ایک مکے کا ڈرون گرا دیا اس کو ملنے والی راحت کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کو کبھی دانت درد ہوا ہو، ہمارے ایک شاعر نے کیا اچھی بات کہی ہے اس میں دانت اور بری اولاد کا ذکر ہے:

بدعملہ زوے چہ مڑ شی پلار ترے خلاص شی

لکہ غاخ چہ پہ وبستولہ دڑدہ خلاص شی

یعنی بداعمال بیٹے کے مرنے پر باپ کو وہی راحت ہوتی ہے جو کسی کو درد والا دانت نکلوانے پر ملتی ہے۔ مطلب یہ کہ درد کرنے والا دانت اور بداعمال اولاد ایک جیسی ہوتی ہے اور ڈرون ہی اس کا شافی علاج ہوتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ بداعمال اولاد کو سزا دینا اپنے ماں باپ کا کام ہے یعنی یہ قطعی ایک گھریلو معاملہ ہے اور گھر والوں ہی کو سلجھانے کا حق ہے اور غیروں کو گھر میں گھس کر ماں باپ کے سامنے ان کے بچوں کو مارنا پیٹنا بلکہ جان سے مار دینا بہت بُری بات ہے، چاہے اولاد کتنی ہی بری کیوں نہ ہو جائے، اصولی طور پر یہ بات درست ہے واقعی ایسے والدین دنیا میں بہت کم ہی ہوں گے جو اپنی اولاد کو پیٹنے کے لئے باہر سے اجرتی بلوائیں لیکن جادو ٹونا بھی تو کوئی چیز ہے اور جنتر منتر سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے اگر وہ باہر والے اجرتی ان والدین پر جادو ٹونا کریں اور جنتر منتر سے کام لیں تو سب کچھ ممکن ہے اور یہ ڈرون پر اعتراض کرنے والے یہی بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ڈرون کے ساتھ وہ تیر بہدف تعویز بھی تو ہوتا ہے جسے دنیا والے نیلی آنکھوں والوں کا نیلا تعویز کہتے ہیں۔ اس باکمال اور اثر دار تعویز میں اتنی قوت ہے کہ والدین خود ہی اپنی اولاد کو پکڑ کر اور خوب اچھی طرح باندھ کر حوالے کر دیتے ہیں کہ

سپردم بتو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را

ویسے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ڈرون کا نام ڈراونا ضرور ہے لیکن نیلے تعویز کو گلے میں پہننے والوں کے لئے بالکل بھی نہیں ہو گا کسی کے لئے ہو تو ہمیں کیا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔