انٹرنیٹ کے دوش پر، جرمنی میں بکھرتی اردو کی خوشبو

حمنہ افضل  جمعرات 4 جون 2020
جرمنی سے اس اردو ویب چینل کی ساری ٹیم رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: ویب سائٹ اسکرین گریب)

جرمنی سے اس اردو ویب چینل کی ساری ٹیم رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: ویب سائٹ اسکرین گریب)

کہتے ہیں جو جبلی پہچان ہو، جو وراثتی حصہ ہو، جو بن مانگے مل جائے، جو چاہ کی آہ سے مبرا ہو اور بس ہمیشہ ہو، وہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے۔ کسی نے خوشی کی کیا خوب تعریف بیان کی ہے کہ یہ وہ تو نہیں جو تلاش کی جائے، خوشی تو وہ ہے جو سانسوں کی طرح زندگی کے ہر لمحے میں ملتی ہو۔

وہ ہر سال چاروں موسموں کے خوبصورت نظارے، مٹی کی خوشبو، تیکھے کھانوں کی لذت، عید میلوں کا جشن، راجہ رانی کی کہانیاں، دوستوں کی بیٹھک، رشتے داروں کے قصے، غالب و میر کی غزلیں، یہ سب کچھ کتنا اپنا اور عام نظر آتا ہے۔ لیکن کبھی کسی پردیسی سے پوچھ کر دیکھو کہ یہ عام کتنا خاص، کتنا اہم اور خوشی کا کتنا مقدس اثاثہ ہے۔

پردیس زمین پر دیسی کھوج ان ہی قیمتی چیزوں کےلیے ہوتی ہے اور اس کا دل ہمیشہ اسی دائرے کا متلاشی رہتا ہے جہاں چاہے یہ سارے عنصر حقیقی معنوں میں موجود نہ ہوں، مگر ان کے ذکر و اذکار کی محفل سے دل یادوں کی بارات سجاتا رہے اور اپنی روایات کی ترجمانی کرتا رہے۔

اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ (ارد) ایسے ہی ایک پلیٹ فارم کا نام ہے جو کسی بھی طرح کا مالی فائدہ، معاوضہ، اجرت، یا تنخواہ سے نا آشنا ہو کر پیشہ ورانہ طریقوں سے مغربی روشنیوں میں مشرقی دیا جلانے کی کاوشوں میں لگا ہے جبکہ اِدھر، اپنے ہی دیس میں، ہماری نسلِ نو روایات، تہذیب اور اردو ادب کی زرخیز زمین کو انگریزی بیج ڈال ڈال کر بنجر کر رہی ہے۔ جہاں تگ و دو سے حاصل کی گئی ہندی، فارسی و عربی آوازوں پر مشتمل اس دلفریب زبان کو ہم خود ہی فراموش کر رہے ہیں۔ جہاں مغربی طاقتوں کو خوش کرنے کےلیے جگہ جگہ انگریزی، چینی، جرمن، ہسپانوی سکھانے کےلیے درس گاہیں کھولی جارہی ہیں، وہیں دوسری طرف اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ جرمنی کا وہ واحد آن لائن ریڈیو چینل ہے جو پرائی سرزمین پر اپنوں کو اکٹھا کرنے میں لگا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد ریڈیو چینل جرمنی کی آزاد فضاؤں میں ادبی ذوق کی لہریں بکھیر رہا ہے۔

ارد ویب ریڈیو چینل، ویب ٹی وی اور ویب میگزین کا مکمل پیکیج ہے جو کم وقت میں ہزاروں فالوورز پر مشتمل فیس بک پیج کی نمائندگی کررہا ہے۔

اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کی بنیاد جرمنی میں مقیم پاکستانی امیگرینٹ حسن رضا نے چند سال پہلے رکھی۔ حسن رضا جو کئی سال سے جرمنی کا حصہ ہیں، اس پلیٹ فارم کو سربراہ کی حیثیت سے مخلصانہ نشوونما کی سیڑھیاں چڑھا رہے ہیں اور یہ کوشش لگاتار جاری و ساری ہے۔ اس بارے میں حسن رضا کا کہنا ہے:

’’اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کھلی آنکھوں سے دیکھا خواب تھا جو جرمنی میں مقیم ایک وسیع اردو کمیونٹی کو اکٹھا کرنے کےلیے دیکھا گیا۔ پاکستان میں میڈیا سے منسلک ہونے کی وجہ سے میں بخوبی آگاہ تھا کہ میڈیا مثبت خزانہ تلاش کرنے اور اپنی آواز اپنوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہے اور آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔ تو ہمارے پاس بہترین آپشن میڈیا تھا جو پرائے دیس میں اجنبیت دور کرنے اور یخ بستہ یورپی ہواؤں میں اردو ادب کی تپش کو زندہ رکھ سکتا تھا۔‘‘

اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ پر ادبی، ثقافتی، معلوماتی اور تفریحی پروگرامز نشر کیے جاتے ہیں۔ موسیقی بھی ان پروگرامز کا اہم حصہ ہے۔ پروگرامز میں مختلف کارآمد موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے جن میں جرمنی میں ہونے والی ثقافتی و ادبی تقریبات، خواتین کی خودمختاری، جرمنی میں مقیم کامیاب پاکستانیوں کی جدوجہد اور حاصل ہونے والے مقام کی داستان، پاکستان سے آنے والے طالب علموں کو پیش آنے والے مسائل اور ان کا حل، پاکستانی طالب علموں کےلیے جرمنی اسکالرشپس حاصل کرنے کے مثبت مواقع اور خاص طور پر ایسے جرمن لوگ جو کسی طرح پاکستانی ثقافت سے منسلک ہیں، ان کی اس ادبی تہذیب سے محبت کو عیاں کرنا شامل ہیں۔

اردو اور ادب کا ہمیشہ آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ اس تعلق کی مضبوطی اور اردو زبان و ادب کے ارتقا، وسعت اور رحجانات کو فروغ دینے اور نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کرنے اور اردو سیکھنے کا ذوق و شوق پیدا کرنے کےلئے ’’اُرد‘‘ کا اپنے فیس بک پیج پر اور گروپ میں اپنے مشہور و معروف ادیبوں اور شاعروں کے اشعار و کلام اور اردو لغت کو شیئر کرنا بیش قیمت معمول ہے۔

’’غزلائے ہوئے رہنا‘‘ جیسی کیمپین سے اردو ادب اور شعر و شاعری کا شوق رکھنے والوں کو مؤثر پلیٹ فارم فراہم کیا جارہا ہے جہاں ہر کوئی شعر و ادب کے ساتھ اپنے رشتے کو مزید مستحکم کرتے ہوئے اپنی من پسند شاعری ریکارڈ کروا کر اس کمپین کا حصہ بن سکتا ہے۔

اُرد کی ٹیم 51 لوگوں پر مشتمل ہے جن میں سے 10 تا 12 ارکان اُرد کے شوز کی میزبانی کر رہے ہیں جن میں آر جیز اور پروگرام ہوسٹ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ایک مناسب تعداد پردے کے پیچھے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ ارد کی ٹیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک بات واضح کرنا انتہائی ضروری ہے جو بہت دلچسپ اور دلآویز ہے کہ اُرد کی اس چھوٹی سی فیملی میں وہ لوگ بھی اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں جو اردو بولنا جانتے تو نہیں مگر اردو کی میٹھی زبان سے محظوظ ہو کر وہ ارد کے ساتھ دوست پرور حیثیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ جرمنی سے ہی تعلق رکھنے والی ڈاکٹر الموتھ، ریکا اور ہانگ کانگ کی باشندہ کمی جیسے نام قابلِ ذکر ہیں۔

اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کی اس چھوٹی سی کاوش کو بڑا بنانے میں اہم ہاتھ پاکستان کی نامور شخصیات اور جگمگاتے ستاروں کا بھی ہے۔ پاکستان کی معروف سیلیبریٹیز نے نہ صرف اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ جیسے پلیٹ فارم کو سراہا بلکہ ارد کےلیے نیک خواہشات کا پیغام بھی ارسال کیا۔ جرمنی میں اوورسیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اور سیلیبریٹیز مداحوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آن لائن ریڈیو چینل سیلیبریٹیز انٹرویوز سے اپنے شائقین کی تسکینِ ذوق کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ ہمایوں سعید، سعدیہ امام، توثیق حیدر، وصی شاہ، اور نامور ملکی میوزک بینڈز کے انٹرویوز چینل کی زیبائش ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا کی عالمی وبا سے وابستہ صورتحال میں کبرونا کی دہشت ذرا کم کرنے اور لوگوں کو حفاظتی اقدامات سے آگاہ رکھنے میں میڈیا اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے میڈیا کی طرح اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ بھی ان نازک حالات میں اپنی ذمہ داری غیرجانبداری اور مخلصانہ طریقے سے نباہ رہا ہے۔ یورپ اور جرمنی میں کورونا کیسز کے حوالے سے اردو برادری کو ان کی اپنی زبان میں معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ ریڈیو، ویڈیو پروگرامز اور ڈاکٹروں کے انٹرویوز کی شکل میں کورونا مرض، اس سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر سے لوگوں کو روشناس کروایا جارہا ہے۔

حسن رضا کا کہنا ہے: ’’جب ارد شروع کیا تو اس کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ سمندر پار پاکستانیوں کےلیے ان کی قومی زبان میں خوشی اور فرحت کا سامان مہیا کیا جائے؛ اور اب خوف اور بے یقینی کی فضاؤں میں یہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ عالمی وبا کے ڈر کو مدھم کرنے کےلیے لوگوں کو حوصلے کی رسی کا سہارا دیا جائے۔‘‘

اس سلسلے میں ارد کا ایک رکن اپنی رضاکارانہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں مالی بحران سے ستائے ہوئے لوگوں کےلیے اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ اور پاکستانی کمیونٹی کے مشترکہ فلاحی پروجیکٹس تشکیل دیئے گئے ہیں۔ اس کٹھن گھڑی میں ارد کی طرف سے اپنوں اور کورونا سے متاثر لوگوں کی مدد کےلیے کراچی میں موجود جے ڈی سی ویلفیئر آرگنائزیشن کےلیے پاکستان اسٹوڈنٹ آخن ایسوسی ایشن کے باہمی تعاون سے فنڈ اکٹھا کیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے آغاز سے ہی رحمتوں اور نیکیوں کو سمیٹنے اور مستحق افراد کی امداد کے پیشِ نظر مہم جاری وساری رہی۔ اس مہم کے تحت نہ صرف صاحبانِ استطاعت کو عطیات اور مدد کےلیے مفید فورم مہیا کیا گیا ہے بلکہ جرمنی کے ہر گوشے سے ان غیر معمولی حالات میں فلاح و بہبود کے کاموں کو کور کیا جا رہا ہے۔

’’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے!‘‘ اس جذبے کو فروغ دینے اور بڑھتے ہوئے نفسیاتی خوف سے بازیاب کرانے کےلیے لائیو شوز ارد چینل کا ایک اہم جزو ہیں۔ ان لائیو شوز میں منفی خدشات کی نفی کرتے ہوئے صرف مصدقہ اطلاعات، فرنٹ لائن پر جارحانہ لڑنے والے افسروں، شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والوں کو سلام اور مثبت پیش رفت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔

اردو ریڈیو ڈوئچ لینڈ کے جنرل منیجر کا کہنا ہے: ’’جتنا نایاب جرمن باغات میں اردو کونپل کی خوشبو بکھیرنا تھا اتنا ہی بے نظیر اس پلیٹ فارم کی فیملی ہے جس کا ہر رکن خالصتاً خیر خواہی اور بھلائی کےلیے خلوصِ نیت سے بلامعاوضہ کام کر رہا ہے۔ یہ اپنی نوعیت میں ایک دلچسپ اور غیر معمولی انداز ہے کہ ارد سے وابستہ تمام لوگ، روپے پیسے کی حرص و ہوس سے آزاد رہتے ہوئے، صرف اردو ادب کی ترقی کا ڈنکا یورپ میں بجانے کے لالچ سے کام کر رہے ہیں۔ اس کاوش میں ہم پاکستانی قونصل خانے کے بھی شکر گزار ہیں جس کے تعاون سے ارد وی لاگرز میٹ اپ سیشن، ہیلتھ ایشوز اور اینٹریپرینیورشپ پر سیمینارز کرواچکا ہے اور اب جرمنی میں پہلی بار کسی تعلیمی ادارے (مائنز یونیورسٹی) میں پاکستانی ثقافت و معاشرت کی جھلک اور فروغ کےلیے سیمینار کا انعقاد طے پایا ہے (جو کورونا کے پیشِ نظر ملتوی کردیا گیا ہے)۔‘‘

حسن رضا نے اب تک کے سفر کامیابی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’یہ خیال ہی کتنا فخریہ اور احساسات سے لپٹا ہے کہ دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر بولی جانے والی ہماری اپنی قومی زبان اب جرمنی میں اردو میڈیا کی ہمفسر ہے۔ یہ سفر انتہائی دلفریب رہا ہے لیکن یہ سفر جاری ہے اور ابھی ارد کو بہت سی منزلیں طے کرنی ہیں۔ ارد ویب چینل کو جرمنی میں رجسٹر کرلیا گیا ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔ لیکن اب ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ گئی ہے کہ اس چراغ کو بجھنے نہ دیا جائے بلکہ ادبی چراغ سے یورپ کا ہر کونہ روشن کیا جائے۔ اس ضمن میں کوشش کی جارہی ہے کہ ویب ٹی وی کو سیٹلائٹ ٹی وی کی طرف لے جائیں۔‘‘

جرمنی جیسے ملک میں جہاں جرمن اور انگریزی زبان ہی میڈیا کی واجبی شناخت سمجھی جاتی ہیں، وہاں اردو زبان پر مبنی ویب چینل کا رجسٹر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو ادب کی چاشنی اور اس چاشنی کا چسکا کبھی ماند نہیں پڑ سکتا۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنی روایات، اور اپنی ثقافت کو دل سے گلے لگائیں اور ان کی افزائش کی غرض سے خلوصِ نیت کے ساتھ کام کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔