سنتھیا یا سنکھیا!

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 8 جون 2020
aamir.liaquat@express.com.pk

[email protected]

دنیا بدل رہی ہے سنتھیا جی! سفید فام لوگوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو بس میں رکھیں،سیاہ فام انسانوں کو غلام بنانے کے حربے اور ان کی ذات پر الزامات دھرنے کی ’’آسائشیں‘‘ اب آلائشوں کی شکل میں اتنی متعفن ہوچکی ہیں کہ گفتگو سے بھی گھن آتی ہے …… اول تو برسوں سے آپ پاکستان میں نہ جانے کس ’’مشن‘‘ پر کون سے کام سرانجام دے رہی ہیں؟کسی کو نہیں معلوم!

اس پر آپ کی 9 برس بعد’’می ٹو‘‘ سیریز کی نئی سنسنی خیز داستان نے مخدوم و رحمان و شہاب کے شباب دنوں کو جو داغ دار کیا ہے وہ اگر ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘ کی مانند نکل آئے تو آپ کاکیا ہوگا ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچا ہے؟اور پھر عبدالرحمان ملک صاحب کے بارے میں تو قرین قیاس یہاں تک ہے کہ وہ ڈاکٹر جاوید عالم فاروقی سے گورے ہونے کے 60 انجکشن لگوا کر اس رنگ و روپ تک پہنچے ہیں ورنہ بالوں کی ساخت سے توکوئی بھی پہچان سکتاہے کہ ان کا مارٹن لوتھر کنگ سے کتنا گہرا تعلق ہے…..

گویا آپ نے جانتے بوجھتے ایک سیاہ فام انسان پر گھنائونا الزام عائد کر کے نہ صرف اپنی نسل پرستانہ نہج کا ثبوت دیا ہے بلکہ آپ سنتھیاکے بجائے ’’سنکھیا‘‘ نکلیں، ایک ایسا زہر جو ہوتا تو بے ذائقہ ہے لیکن اپنے شکار کو قتل کرنے سے باز نہیں آتا…..

ویسے سنتھیا جی!پشاور میں سائیکل چلا کر اور ٹرک کے سامنے اپنی تصاویر کھنچوا کر آپ نے پاکستان کا پاکستان ہی میں جو مثبت چہرہ اجاگر کرنیکی ’’عظیم کوششیں‘‘ کی ہیں وہ ہم غلام پاکستانی مدتوں یاد رکھیں گے….. آپ کا ظرف تو اتنا اعلی ہے کہ ’’فری لینس پروڈیوسر، ہدایت کاراور اسٹرٹیجک کمیونیکیشنز کنسلٹنٹ‘‘ جیسے عہدوں کی خود ساختہ مالکن ہونے کے باوجود آپ نے کبھی صحافی ہونے کا دعوی نہیں کیا….. پھر وجہ کیا ہوئی کہ بقول آپ کے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی…..آپ کی عزت و عفت کو پائمال کرنے کی پیپلی سازش کی گئی؟

اور پھر ایک کے بعد ایک یعنی الگ الگ واقعات میں یہ رنگیلے حکمران آپ پر حملہ آور ہوئے؟…..تاہم آفرین ہے آپ کے ضبط و قوت برداشت کو کہ جس نے 9 برس تک زبان کے تہ در تہ غلافوں میں اس داستان الم کو کسی اندوہناک راز کی طرح چھپائے رکھا حالانکہ جناب مصطفی کمال صاحب کی آمد کے بعد تو راتوں رات ہزاروں مردہ ضمیر جاگ گئے تھے گویا ضمیروں کے قبرستان میں ہنگامہ تھا کہ ’’اٹھو دلوں کے تاجور،ہمارے رہبر مصطفی کمال دبئی والے تشریف لے آئے ہیں…..اے زبانو! اب خاموش نہ رہنا، اے آوازو!

تم پہ لازم ہے کہ بلند ہوجانا نہ چلے اب کوئی بہانا کہ مصطفی کمال تشریف لے آئے….. تاہم ان کے قدم رنجہ فرمانے کے باوجود آپ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق اپنی زبان کو سیے بیٹھی رہیں، میرا گمان ہے کہ شاید آپ کو مصطفی کمال صاحب مد ظلہ العالی دامت برکاتہم العالیہ کے ضمیری اعترافات متاثر نہیں کر سکے ورنہ تو ان کے متاثرین میں آج بھی ایسے سیکڑوں متاثر ہیں جو اس بات سے متاثر ہیں کہ وہ  کیوں متاثر ہوئے؟

خدا لگتی کہوں  تو مجھے بھی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ کے خوابیدہ ضمیر بھائی کس سبب سے جاگے، ممکن ہے کہ ضد میں جاگ گئے ہوں ورنہ ان کی بیداری کا کوئی منصوبہ خود ان کے زیر غور نہ تھا…..اس نے مجھ سے پوچھا مفہوم غلط فہمی کیا ہے؟

میں مسکرا کے بولا تم سے امید وفا رکھنا…..میرا خیال ہے آپ کے المیے کا یہی ایک سادہ سا جواب ہے اور معذرت کے ساتھ عرض کروں روز آئینہ بھی نہ دیکھا کیجیے، کم بخت عجیب شے ہے ہر چیز دکھادیتا ہے کچھ نہیں چھپاتا مگر پھر بھی ایک غلطی کر جاتا ہے، دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں دکھاتاہے…..یہ کیسی شفافیت ہوئی کہ اپنا عکس ہی الٹا نظر آئے….. یہاں کوئی سچا نہیں ہے آئینہ تک دھوکا دے جاتاہے…..بہت سی غلطیاں ہوئیں زندگی میں لیکن جو غلطیاں لوگوں کو پہچاننے میں ہوئیں ان کا خمیازہ سب سے زیادہ بھگتا ہے…..آپ نے نہیں….. میرے وطن نے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔