پٹرولیم کی قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

محمد آصف سالارزئی  جمعرات 18 جون 2020
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں مختلف ٹیکسز اور لیویز کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین میں مختلف ٹیکسز اور لیویز کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پٹرولیم کی قیمتوں کا مسئلہ ہمیشہ سے پاکستانی عوام کےلیے دردِ سر بنارہا ہے۔ ہر دور میں حزبِ اختلاف اس مسئلے کو کیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر مختلف نوٹیفکیشن زیرِ گردش رہتے ہیں، جن میں پٹرولیم کی قیمت اور مختلف ٹیکسز اور لیویز درج ہوتے ہیں۔ کیا واقعی حکومت عوام کو مہنگے داموں پٹرولیم بیچتی ہے یا یہ صرف اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے یا عوام کی غلط فہمیاں۔ آئیے اس کو ذرا گہرائی میں سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں گیس اور خام تیل کے ذخائر موجود ہیں، جن سے مقامی سطح پر تیل نکالا جاتا ہے لیکن ایک طرف تو وہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ناکافی ہوتے ہیں تو دوسری جانب یہ عالمی نرخ سے مہنگا بھی پڑتا ہے۔ لہٰذا مجبوراً بیرونی دنیا خصوصاً عرب ممالک سے تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔

خام تیل کو زمین سے نکالنے کے بعد پاکستان میں آئل ریفائنریز کو بھیجا یا درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تقریباً 15 آئل ریفائنریز کئی مقامات پر کام کررہی ہیں۔ جہاں اسے صاف کرکے پٹرولیم مصنوعات کی شکل میں مختلف آئل مارکیٹنگ کمپنیوں [OMCs] کو فروخت کیا جاتا ہے۔ [OMCs] کی وضاحت نیچے آرہی ہے۔ جس قیمت پر اسے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ریفائنریز سے فروخت کیا جاتا ہے، اسے Ex-refinery قیمت کہتے ہیں۔ پاکستان اپنی ضروت کا 70 فیصد پٹرول اور 50 فیصد ڈیزل باہر سے درآمد کرتا ہے۔

پٹرول، آئل اور لبریکنٹس کی قیمتوں کے تعین میں خام تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمت، حکومت کو ملنے والی قیمت، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی موجودہ قیمت اور حکومتی ضروریات کو دیکھ کر مختلف ٹیکسز اور لیویز کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کے متعلق درج ذیل تفصیل کو سمجھنے کے بعد آپ کےلیے ان کی قیمتوں کو سمجھنا آسان رہے گا۔
1۔ پٹرولیم فیول یا ایندھن کی اقسام:

جب ہم پٹرولیم آئل کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد گیسولین یعنی پٹرول، ڈیزل، LPG, LNG، کیروسین یعنی مٹی کا تیل، سمندری جہازوں اور پلانٹس میں استعمال ہونے والا فیول آئل ہوتا ہے۔ یعنی پٹرول صرف پٹرولیم آئل کی ایک قسم ہے۔ جو گاڑیوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
2۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں OMCs:

اس سے مراد وہ کمپنیاں ہیں جو تیل خرید کر پٹرول پمپس کو بیچتی ہیں۔ ان میں PSO، شیل، ٹوٹل پارکو، اٹک پٹرولیم، کیلٹیکس جیسی کمپنیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں 60 کے قریب اس طرح کی کمپنیاں کام کررہی ہیں۔
3. اِن لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن IFEM:

فریٹ سے مراد پٹرولیم وغیرہ کو بڑی مقدار میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہے۔ جیسے سمندری جہازوں کے ذریعے پٹرولیم کو ایک ملک سے دوسرے ملک تک منتقل کیا جاتا ہے۔

اِن لینڈ فریٹ سے مراد بندرگاہ سے آئل ڈپوٹس یا پٹرول پمپس تک لے کر جانا ہے۔ جو ٹینکروں اور دیگر ذرائع سے کیا جاتا ہے۔ بندرگاہ سے آئل ٹینکرز جتنی دور تک پٹرول سپلائی کریں گے اتنا ہی کمپنیوں کو مارجن ملے گا۔ مثلاً کراچی سے پنجاب تک جو ٹینکر تیل لے کر جاتا ہے، اس کا اِن لینڈ فریٹ مارجن کراچی سے سندھ تک کے فریٹ مارجن سے زیادہ ہوگا۔ یہاں تیل کمپنیوں، سرکاری افسران اور متعلقہ اداروں کی ملی بھگت سے زیادہ مارجن ظاہر کرکے ریکارڈ کیا جاتا ہے جو پٹرول کی قیمت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

اگر حکومت IFEM کا قانون ختم کردے تو بڑے شہروں کے عوام کو پٹرول فی لیٹر دوردراز کے علاقوں کی بہ نسبت سستا پڑے گا۔ مثلاً کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاہور، کوئٹہ، ملتان، پشاور وغیرہ کے عوام کو قبائلی علاقوں سمیت گلگت، چترال، اور آزاد کشمیر جیسے دور دراز علاقوں کے مقابلے میں کم قیمت ادا کرنا ہوگی۔

غور کیجئے کہ ان شہروں میں تقریباً 6، 7 کروڑ افراد بستے ہیں، جب کہ دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں کی افرادی قوت ملک کو ترقی دینے میں سب سے آگے ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کو فائدہ پہنچانا زیادہ اہم ہے۔ باقی چھوٹے گاؤں دیہات میں پٹرول کی قیمتوں کو کم رکھنے کےلیے حکومت سبسڈی ادا کرسکتی ہے۔ جو اتنی زیادہ نہیں ہے۔
4. پٹرولیم لیوی:

یہ ایک قسم کی ٹیکس فیس ہے جو حکومت عوام سے ہر لیٹر پر وصول کرتی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پر جتنی زیادہ لیوی موجودہ حکومت لے رہی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک خبر کے مطابق حالیہ دنوں میں حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ عوام کو منتقل کرنے کے بجائے ڈیزل کے بعد پٹرول پر بھی عائد لیوی میں 6 روپے سے زیادہ کا اضافہ کرکے 30 روپے فی لیٹر کی آخری حد تک پہنچادی ہے۔ یعنی ہر لیٹر پر ہمیں 30 روپے لیوی کی شکل میں حکومت کو دینا پڑتے ہیں، جس کا پٹرول کے اخراجات سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔

اسی طرح ڈیزل کے ہر لیٹر پر بڑی گاڑیوں کے مالکان کو 30 روپے، مٹی کے تیل پر 12روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل پر 5 روپے فی لیٹر دینا پڑ رہے ہیں۔

اگر حکومت کو حاصل ہونے والے اس جبری منافع کو دیکھا جائے تو مارچ 2020 میں حکومت نے صرف پٹرول پر 32 فیصد لیوی ٹیکس بڑھا کر محض ایک ماہ میں عوام کی جیبوں سے اربوں روپے حاصل کیے تھے۔

اسی طرح کیروسین کی مد میں ساڑھے 6 کروڑ، لائٹ ڈیزل کی مد میں 3 کروڑ جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی مد میں ساڑھے چار ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔ جو مجموعی طور پر آٹھ ارب فی مہینہ بنتے ہیں۔ ہر مہینے اربوں روپے حکومت کو صرف لیوی کی شکل میں عوام اپنے جیبوں سے دے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت لیوی کے بجائے جی ایس ٹی ٹیکس میں اضافہ کرسکتی تھی، لیکن جی ایس ٹی میں 57 فیصد حصہ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے جب کہ لیوی کی مد میں حاصل ہونے والا ریونیو مکمل طور پر صرف وفاقی حکومت کو ملتا ہے۔
5۔ آئل مارکیٹنگ کمپنی مارجن:

یہ ایک الگ ٹیکس نما فیس ہے جو آئل مارکیٹنگ کمپنیاں عوام سے ہر لیٹر پر وصول کرتی ہیں۔ یہ تقریباً 2 سے 3 روپے فی لیٹر ہے۔
6۔ GST یعنی جنرل سیلز ٹیکس:

ویسے تو ہم ہر خریدی ہوئی شے پر جی ایس ٹی حکومت کو دیتے ہیں، چاہے وہ چاکلیٹ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن پٹرولیم پر بھی حکومت نے جی ایس ٹی کو بڑھا کر 17 فیصد کردیا ہے، یعنی ہر 100 روپے میں 17 روپے جی ایس ٹی ٹیکس، جو ایک اور اضافی بوجھ ہے، جسے عوام کو برداشت کرنا ہے۔
7۔ کسٹم ڈیوٹی ٹیکس:

پاکستان میں تقریباً 60 فیصد آئل باہر سے درآمد کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی امپورٹڈ چیزوں پر کسٹم ڈیوٹی کے نام سے یہ ٹیکس بھی عوام اپنی جیب سے بھرتے ہیں۔ صرف پٹرول کے ہر لیٹر پر آپ کو 3 سے چار روپے کسٹم ڈیوٹی ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
8۔ ڈیلر مارجن:

ڈیلر مارجن کے نام سے پٹرول پمپس مالکان کا فائدہ بھی پٹرولیم قیمتوں میں شامل ہوتا ہے۔ مالکان کو فائدہ ہونا بالکل درست ہے، لیکن ملک بھر میں ہر پمپ مالک کو صرف ایک لیٹر پر 3 سے چار روپے فی لیٹر منافع دینا درست نہیں۔ تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہمارے ہاں پٹرول پمپس کے بیشتر مالکان ارب پتی کیوں ہوتے ہیں۔

اب آپ جب بھی اوگرا کے جاری کردہ نوٹیفکیشنز دیکھیں تو ان عوامل کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔ بنیادی قیمت فی لیٹر، پٹرولیم لیوی ٹیکس، اِن لینڈ فریٹ مارجن، سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا کمیشن، پیٹرول پمپ مالکان کا کمیشن۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد آصف سالارزئی

محمد آصف سالارزئی

مصنف دینی پس منظر رکھتے ہیں اور آج کل درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ شوقیہ قلم کاری بھی کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔