فلسطین صہیونی سازشوں کا نشانہ

صابر کربلائی  اتوار 8 دسمبر 2013

مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں بشمول شام، مصر، لیبیا، بحرین، عراق سمیت دیگر مقامات پر جاری بحرانی کیفیت کا ذمے دار براہ راست امریکا اور اسرائیل ہے۔مصر کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جہاں پر ایک ایسی حکومت کو جو سیکڑوں مصری  عوا م کی قربانیوں کے بعد منظر عام پر آئی تھی اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت ایک سال کے عرصے میں ہی غیر مستحکم کر دیا گیا اور پھر ایک ایسے فوجی جرنل کو کمانڈ سونپ دی گئی جس کا براہ راست تعلق  اسرائیل سے ہے۔مصر کا انقلاب ہو یا تیونس سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر ہو، اور اسی طرح دوسرے ممالک میں جہاں ہم نے گزشتہ تین سالوں کے عرصے میں اسلامی بیداری کا مشاہدہ کیا تھا ان تمام تحریکوں کے درمیان ایک شعار مشترک تھا جو کہ ’’فلسطین‘‘ تھا، یعنی مصر کی سابقہ حکومت ہو یا تیونس میں بیٹھے ہوئے اس وقت کے بادشاہ ہوں ان سب نے مسلم امہ کے اہم ترین مسئلے فلسطین کو فراموش کر دیا تھا اور یہ سبب بنا کہ مشرق وسطیٰ ، عرب مسلم ممالک کی عوام نے قیام کیا اور اپنے قیام کو تحریک آزادی فلسطین کے ساتھ منسلک کر دیا یعنی اسلامی بیداری کا بنیادی ہدف فلسطین اور فلسطینیوںکی آزادی اور حمایت قرار پایا ۔

عالم انسانیت کے ازلی دشمن امریکا اور صہیونی غاصب ریاست نے مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت مشرق وسطیٰ میں ایک ایسی حکمت عملی پر کام کیا ہے جس کا محور اور مرکز فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں اور عرب مسلم ممالک کے بنیادی مسئلے سے نکال کر فلسطین کو صرف ایک ملک کا مسئلہ یا پھر ایسا کہیے کہ فلسطین کے مسئلے کو فلسطینیوں تک محدودکرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لیے جو ٹول استعمال کیا گیا ہے وہ نام نہاد اسلامی گروہ ہے ، اس گروہ کی مدد سے عالمی سامراج امریکا اور اس کے حواریوں نے اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لیے شام کا انتخاب کیا اور پھر شام میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا،جس کے بعد شام میں خانہ جنگی کی کیفیت شروع ہو گئی، اوائل میں تو امریکا اور اسرائیلی حواری یہی کہتے رہے کہ بس چند روز میں شام کو فتح کر لیں گے لیکن شام کی مزاحمت اور استقامت کے سامنے ان کے تمام حربے ناکام رہے۔

در اصل شام کو نشانہ بنانے کا اصل مقصد فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا تھا اور آج اگر تین سالہ عرصہ گزرنے کے بعد ہم بغور مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیںکہ شام کے مسئلے میں جو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں وہ فلسطینی ہیں اور مسئلہ فلسطین کو شدید دھچکا لگا ہے۔ شامی افواج کے ساتھ ساتھ فلسطینی مسلمانوں کو کیوں قتل کیا گیا؟ آخر کیوں ان فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا، در اصل یہی وہ امریکی و اسرائیلی منصوبہ بندی تھی جسے تکفیریوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ شام کے پورے مسئلے میں صرف اور صرف فلسطینیوں کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا تا کہ اس پورے بحران کا نقصان فلسطین کو پہنچے ، اور عملی طور پر وہی ہوا، ایک مرتبہ پھر اپنے گھروں سے بے گھر فلسطینی مہاجرین لبنان کی سر زمین پر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ۔

مصر کی صورتحال بھی شام کی صورتحال سے ملتی جلتی ہے کہ جہاں پر ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت فوجی حکومت کو برسرپیکار لایا گیا اور اب مصر کی پوری غیر مستحکم صورتحال کا نقصان اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطین ہی ہے،غزہ کی سرحد کو مکمل طور پر بندکردیا گیا ہے کہ جہاں سے فلسطینی اپنی زندگی کی ضروریات کی اشیاء فراہم کیا کرتے تھے تاہم غزہ آج بھی اسرائیلی محاصرے کا شکار ہے، غزہ میں پانی کی قلت، دوائوں کی قلت، پٹرول کی قلت سمیت انسانی ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء کی شدید قلت ہے اور غزہ میں پندرہ لاکھ سے زائد انسان موجود ہیں لیکن مصر کی غیر مستحکم صورتحال کے باعث اگر کسی کو قیمت ادا کرنا پڑی ہے تو فلسطین ہے کہ جو سب سے مہنگی قیمت ادا کر رہا ہے۔

اسی طرح کی صورتحال بحرین، یمن، لیبیا، اور بالخصوص عراق میں ہے، کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل اپنے نمک خواروں کے ذریعے ان ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے، لیبیا ظاہراً تقسیم کے دہانے پر ہے، بحرین میں آئے روز عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یمن کی صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں امریکی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک عظیم رہنما ڈاکٹر محمود الزھار کہ جو فلسطین کی آزادی کو مسلح جہاد سے ممکن سمجھنے کو اپنا عقیدہ سمجھتے ہیں اور آپ کے فرزند بھی تحریک آزادی فلسطین کی راہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر الزھار نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹر ویو میں کہا ہے کہ عرب خطے میں پیدا ہونے والی تمام تر صورتحال میں فلسطین نشانہ بنا ہے اور فلسطینیوں کو شدید نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے اور خطے کی عرب بادشاہتیں اپنے اپنے اندرونی اختلافات میں الجھی ہوئی ہیں۔ڈاکٹر الزھار نے کہا ہے کہ فلسطین جو مسلم امہ کے لیے ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے ، امریکا اور اسرائیل عرب بادشاہتوں کے ساتھ مل کر فلسطین کو مسلم امہ کے مرکزیت سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے خطے میں فرقہ واریت کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ خطے کے عوام باہم دست و گریباں ہو جائیں اور مسئلہ فلسطین سے صرف نظر کر لیں،ان کاکہنا تھا کہ حماس مزاحمت پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ بھی فلسطین کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔

حماس کے بنیادی رہنما ڈاکٹر محمود الزھار نے واضح طور پر کہا کہ خطے میں تکفیری نہ صرف عرب مسلم ممالک کے لیے خطرہ ہیں بلکہ فلسطین اور مزاحمت فلسطین کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں تاہم ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا اصل دشمن صرف اور صرف امریکا اور اسرائیل ہیں۔انھوںنے مزید کہا ہے کہ ہر آدمی اپنے اعمال کا ذمے دار ہے جو وہ انجام دیتا ہے اور آج ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے کیونکہ اسرائیلی دشمن نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے تاہم ہماری اولین ترجیح صرف اور صرف فلسطین ہونے چاہیے اور عوام کو چاہیے کہ دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ان سازشوں کو ناکام بنا دیں اور آپس میں متحد رہ کر فلسطین کی آزادی کے لیے جد وجہد کریں،کیونکہ فلسطین ہمارا مرکز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔