حضرت ہزاروی کا سانحہ ارتحال، کرونا کی صورتحال (حصہ دوم)

اشفاق اللہ جان ڈاگئی  جمعرات 2 جولائی 2020
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

کرونا وباء روئے زمین پر انسان کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے، دنیا کے 200سے زائد ممالک میں لوگ اس مہلک وباء کا شکار ہیں، لمحہ موجود میں مجموعی طور پر کیسز کی تعداد لگ بھگ 92لاکھ ہے، 58ہزار سے زائد موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، کیسز کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اس رفتار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے چند ہی دنوں میں دنیا بھر میں کرونا مریضوں کی تعداد ایک کروڑ کو پہنچ جائے گی۔

پاکستان میں کرونا کے شکار مریضوں کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ 90ہزار جبکہ ساڑھے تین ہزار سے زائد افراد انتقال کرچکے ہیں۔ پوری دنیا میں معیشت کا پہیہ تھم سا گیا ہے، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے جن جس طرح بے قابو دکھائی دے رہے ہیں، انھیں قابو کرنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ایک جانب کروناکی وباء نے ہمیں آن گھیرا ہے اور دوسری جانب کروناوباء سے پیدا ہونے والی صورتحال اور علماء کرام کا اس طرح کوچ کرجانے کے سبب رواں سال کو ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ حقیقت میں دکھ بھرا سال ہے۔

دکھوں اور تکلیفوں کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔کرونا اﷲ کا عذاب بن کر ہم پر ٹوٹا ہے اور ہم پہلے دن سے اس بات کا بار بار اظہار کررہے ہیں کہ اﷲ ہم سے ناراض ہے، جب تک وہ راضی نہیں ہوگا تب تک نجات کے تمام راستے مسدود ملیں گے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہی کچھ لوگ اﷲ کو راضی کرنے کے بجائے اپنی کالی کرتوتوں سے اس کے غصے کو مزید بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پوری دنیا میں اس وائرس پر تحقیق کا عمل جاری ہے ابھی تک اس کی ویکسئین تیار ہو سکی ہے نہ ہی علاج کے لیے کو ئی دوا لیکن یہ بات سچ ہے کہ ویکسین کی تیاری کی کوششوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ پاکستان میں اس وبا کے آغاز کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسے ایسے پیغامات کی بھرمار دیکھی گئی جس میں مختلف ادویات، جڑی بوٹیوں یا پھر کھانے پینے میں روزمرہ استعمال ہونے والی اشیا کو اس بیماری سے صحت یابی میں مددگار یا پھر اس کا علاج ہی قرار دے دیا گیا جس سے ایی مافیا سرگرم ہوا اور وہ انسانی جانیں بچانے کے لیے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتا رہا۔

امریکی صدر کی جانب سے اس وباء کے علاج کے لیے کلوروکوئین کے استعمال کو فائدہ مند قرار کیا دیا گیا، ہمارے ہاں اسے مارکیٹ سے ہی غائب کردیا گیا، بعد ازاں اس کی بلیک مارکیٹنگ شروع ہوئی پچاس روپے میں ملنے والا دوائی کا یہ پتا چار سے پانچ ہزار روپے تک فروخت ہوتا رہا۔

ایک تحقیق آئی کہ کرونا کے مریضوں کے اعضاء کو وائرس کے حملے سے بچانے کے لیے ایکٹیمراانجیکشن مفید ہے، یہ خبر سنتے ہی فارما انڈسٹری سے جڑے جس شخص کے پاس بھی اسٹاک میں یہ انجیکشن موجود تھا اس نے اسے چھپا لیا اور 29ہزار روپے مالیت کا یہ انجیکشن ہمارے ہاں دو سے تین لاکھ روپے تک فروخت ہوا۔

ہمارے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے جیسے ہی اعلان کیا کہ کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے لیے ڈیکسا میتھا سون فائدہ مند ہے اس اعلان کے چند گھنٹے کے اندر اندر یہ دوا نایاب ہوگئی اور اس کی قیمت آسمان کو چھونے لگی۔  سرجیکل ماسک کی قیمت کرونا وباء سے پہلے پانچ روپے تھی اور اس وقت پچاس روپے تک فروخت ہورہا ہے، گلوز کا جوڑا جو پہلے تیس روپے میں دستیاب تھا اس وقت پچاس روپے میں بک رہا ہے،جو آکسیجن سلنڈر تین سو کا ہوتا تھااس وقت بلیک میں پندرہ پندرہ ہزار روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

نزلہ، کھانسی اور بخار کی ادویات کی مصنوعی قلت جاری ہے، غیر معیاری سینی ٹائزر اور ماسک کی لوٹ سیل جاری ہے، جو سنا مکی دو سو روپے فی کلو گرام میں دستیاب تھی، وہ آٹھ ہزار روپے تک فروخت ہوتی رہی۔ اور تو اور کروناوائرس کا شکار جو مریض صحت یاب ہوچکے ہیں ان کی اکثریت دوسرے مریضوں کی جان بچانے کے لیے اپنا پلازما تین تین لاکھ روپے میں فروخت کررہے ہیں۔

ہمارے ان کاموں سے اﷲ کیسے راضی ہوگا؟۔ قرآن کہتا ہے جس نے ایک انسان کا جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی، لیکن آج ہم میں سے ہی کچھ لوگ مرتے ہوؤں کی جان بچانے کے لیے منہ مانگی قیمت وصول کررہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی موت کو بھول چکے ہیں۔ انھیں اﷲ کا جلال اور قہاریت کیوں دکھائی نہیں دے رہی،انھیں قیامت سے پہلے قیامت کا منظر کیوں دکھائی نہیں دے رہا،کیا یہ اﷲ کی جانب سے ہواؤں اور پانیوں کو حکم کے منتظر ہیں، جو ہمیں نیست و نابود کرکے رکھ دے،کیا یہ اس وقت کے منتظر ہیں جب پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے نظر آئیں گے، کیا یہ زمین کو لپیٹ دینے کے عمل کو دیکھنا چاہتے ہیں؟۔

ایک چھوٹا سا جرثومہ جو خوردبین سے بھی بمشکل نظر آتا ہے، اس نے ہماری مادی ترقی، ٹھاٹھ باٹھ کا جنازہ نکال کے رکھ دیا اور یہ مافیا ابھی تک حرام مال سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 30میں اﷲ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’تم پر جو مصیبت آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے‘‘۔

اسی طرح حضور اکرمؐ نے فرمایاکہ ’’ جو کوئی بھی اپنی تمام تفکرات کا محور بس ایک چیزآخرت کو بنا لیتاہے، اﷲ اسے دنیاکی فکروں سے آزاد کردے گا لیکن جس کے افکار دنیا کے مختلف بکھیڑوں میں پریشان ہوں گے اﷲ کو اس کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کہ وہ اس کی کس وادی میں جامرے‘‘۔ جب لوگ احکامِِ خداوندی سے روگردانی کرتے ہیں تو ان کے وسائل محدود کردئیے جاتے ہیں، انہی لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ایسے لوگ واقعی قابل رحم ہیں کیونکہ ان میں سے اکثرکو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ان کی بے چینی کی وجہ کیاہے؟۔

(ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔