ایم ایم عالم :غدار یا ہیرو؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 دسمبر 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی قوم کے ہیرو بے مثال کردار ہوتے ہیں اور یہ کردار ہماری نئی نسل کے لیے ’’رول ماڈل‘‘ کا باعث بھی ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم کے بھی بے شمار ہیرو ہیں۔ ہم نئی نسل کی تربیت کے لیے فخر سے ان کی کہانی اور کارنامے سناتے ہیں۔ ہمارے ان ہیرو میں ایک ایسا ہی نام ایئر کموڈور محمد محمود عالم خان کا ہے جو ایم ایم عالم کے نام سے مشہور و معروف تھے۔

ایم ایم عالم 78 سال کی عمر میں 18 مارچ 2013 کو طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ راقم نے اپنے بچوں کو ایم ایم عالم کی بطور ہیرو کہانی سنائی، بچے بہت متاثر ہوئے لیکن ایک روز ایم ایم عالم سے متعلق ایک بچے کے سوال پر میں سناٹے میں آگیا اور مناسب جواب کے لیے گم صم ہوگیا، یہ کتنا تلخ سوال تھا؟ یہ وہ سوال تھا جو کسی بھی محب وطن کے سامنے آئے تو اس کے بدن میں لرزہ پیدا ہوجائے اور آنکھیں نم ہوں۔

یہ سوال ذرا آخر میں پہلے ایک نظر ایم ایم عالم کے حالات زندگی اور کارنامے پر کیونکہ اس کے بعد ہی اس سوال کی اہمیت اور تلخ ہونے کی وجہ سامنے آتی ہے۔

ایم ایم عالم 6 جولائی 1935 کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دیگر مہاجرین کی طرح ان کا خاندان ڈھاکا ہجرت کرگیا تھا۔ ڈھاکا ہی سے ایم ایم عالم نے میٹرک بھی کیا۔ اس کے بعد انھوں نے پاکستان ایئرفورس میں شمولیت اختیار کرلی، 1935 کے بعد وہ فائٹر لیڈر اسکول سے وابستہ ہوگئے۔ ایم ایم عالم بیک وقت تین اسکورڈن کے کمانڈر بھی رہے، انھوں نے آپریشن ریسرچ کے ڈائریکٹر اور ساتھ ہی ایئرچیف اسٹاف کے نائب کی خدمات بھی انجام دیں۔

ان کی شہرت 1965 کے جنگ کے واقعے سے ہوئی۔ جس وقت 6 ستمبر 1965 کو پاک بھارت جنگ چھڑی تو وہ سرگودھا میں تعینات تھے۔ جنگ کے پہلے ہی دن ایم ایم عالم نے پاکستان ایئرفورس کے گیارہویں اسکورڈن کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں گھس کر دو جہاز گرا دیے جب کہ تین جنگی جہازوں کو نقصان بھی پہنچایا۔ اس اہم کارنامے پر حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ستارہ جرأت سے بھی نوازا گیا۔ اس واقعے کے دوسرے روز 7 ستمبر کو بھارت کی جانب سے سرگودھا پر 6 حملے کیے گئے، صبح صادق کے وقت چار فضائی حملے بھی ہوئے۔

ایم ایم عالم کی جانب سے جوابی کارروائی بھی ہوئی، وہ دشمن کے جنگی جہازوں کا تعاقب کرتے رہے، اس دوران ایم ایم عالم نے دشمن کی جانب سے ایک اور فضائی حملے کو ناکام بنانے کے لیے دشمن کے پانچ جنگی جہازوں کو گھیر لیا اور تقریباً 30 سیکنڈ میں بھارت کے 4 جنگی جہازوں کو نشانہ بنادیا پھر مزید 60 سیکنڈ کے اندر پانچواں جہاز بھی تباہ کردیا۔

یہ کارنامہ ناقابل یقین تھا، چنانچہ حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ایک اور ستارہ جرأت سے نوازا گیا اور یوں وہ قوم کے ایک حقیقی ہیرو بن گئے۔

یہ وہ عظیم کہانی اور کارنامہ ہے جو آج بھی پاکستانی اپنے بچوں کو فخر سے سناتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ جب 1971 میں ملک پر کڑا وقت آیا اور پاک فوج کو ایک بار پھر دشمن کے مقابلے کے لیے ایم ایم عالم جیسے اپنے ہیروز کی ضرورت پیش آئی تو ایک سخت فیصلہ کیا گیا جس کے تحت تمام بنگالی افسران کے جہاز اڑانے پر پابندی لگا دی گئی۔

افسوس ناک امر یہ تھا کہ ایم ایم عالم کی خدمات کو بھی نظر انداز کردیا گیا اور دیگر بنگالی افسران کے ساتھ ان کے جنگ میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔یہ بنگالی افسران پر عدم اعتماد کا مظہر تھا چنانچہ بعد میں بنگالی افسران کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر بنگلہ دیش چلی گئی لیکن سلام ہے اس ہمارے ہیرو ایم ایم عالم پر کہ اس سب کے باوجود انھوں نے نہ صرف پاکستان ہی میں رہنا پسند نہیں کیا بلکہ اپنے خاندان والوں کو بھی ڈھاکا سے پاکستان بلالیا۔

سوال یہ ہے کہ ایسے عظیم ہیرو پر اعتماد کیوں نہیں کیا گیا؟ بس یہی سوال ایک معصوم بچے نے اٹھایا کہ ایم ایم عالم نے 65 کی جنگ کی طرح 1971 میں دشمن کے جہاز گرا کر دشمن کو کیوں نہیں مار بھگایا؟

یہ سوال ابھی یہیں ختم نہیں ہوتا کیونکہ ایم ایم عالم کو نہ صرف فوجی خدمات سے روکا گیا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب اسی ہیرو پر ملک سے غداری کا الزام لگاتے ہوئے گرفتار بھی کیا گیا۔ شاید بنگالی قوم سے ہونا بڑا جرم تھا بہ نسبت قومی ہیرو کے ۔ نوجوان افسران کے احتجاج پر اس ہیرو کو رہائی ملی۔

یہ ہیرو پھر شام چلا گیا اور وہاں جاکر شام کی فضائیہ کے افسران کو ٹریننگ دی۔ سلام اس ہیرو پہ کہ جس نے بے انتہا قربانیاں دے کر بھی کبھی ملک کے خلاف زبان نہ کھولی، نہ کبھی اپنی توہین پر احتجاج کیا بلکہ دفن ہونے کے لیے بھی اپنے ملک کی مٹی کو ترجیح دی اور ان کی تدفین مسرور بیس کے فوجی قبرستان میں ہوئی۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت لکھا گیا اور راقم نے بھی روزنامہ ایکسپریس میں بحیثیت کالم نگار گزشتہ 13 برسوں میں مختلف حوالوں سے لکھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب دسمبر کے مہینے میں سانحہ مشرقی پاکستان کے اس پہلو پر قلم اٹھایا۔ بلاشبہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ایک پہلو یہ بھی تھا جس میں ہمارے عظیم قومی ہیرو اور دیگر محب وطن بنگالی افسران کی اس طرح توہین کی گئی۔

آج یقیناً نئی نسل بھی یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ 65 کے ہیرو کو 1971 کی جنگ میں خدمات کے لیے کیوں طلب نہیں کیا گیا؟ کیا وہ ہمارا ہیرو نہیں، غدار تھا؟ ایم ایم عالم نے 1971 میں اپنی توہین برداشت کرکے اور محب وطن جذبات کا خون کرکے بھی بعدازاں ثابت کردیا کہ وہ غدار نہیں محب وطن تھا اور اس کا ثبوت اس نے پاکستان کو اپنا وطن بناکر پیش کردیا۔

یہی وہ سب سے بڑا ثبوت ہے جو یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس وقت غداری کا لیبل لگا کر فیصلے دینے والے درست نہیں غلط تھے۔ اصل اور حقیقی ہیرو کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنا سب کچھ قربان کرکے بھی نہیں پچھتاتا بلکہ آخری سانس تک اپنے وطن کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتا ہے۔ یہی بات ثابت کر رہی ہے کہ ایم ایم عالم غدار تھا یا ہیرو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔