پی ڈی ایم کا کامیاب جلسہ اور کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری کا معاملہ

عامر خان  بدھ 21 اکتوبر 2020
اپوزیشن کے اہم رہنما کی گرفتاری نے سندھ حکومت کو وضاحتیں دینے پر مجبور کردیا ہے فوٹو : فائل

اپوزیشن کے اہم رہنما کی گرفتاری نے سندھ حکومت کو وضاحتیں دینے پر مجبور کردیا ہے فوٹو : فائل

 کراچی: اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) نے کراچی میں بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا اور باغ جناح میں ہونے والے جلسہ عام کو تمام سیاسی پنڈتوں نے ایک کامیاب پاور شو قرار دیا ہے، تاہم اس جلسے کے بعد پیش آنے والے واقعات نے ملک کا سیاسی پارہ ہائی کردیا ہے۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری اور پھر ضمانت پر رہائی نے ایک بھونچال پیدا کردیا۔ یہ گرفتاری پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے لیے ایک انہونی تھی کیونکہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے اور محکمہ پولیس صوبائی حکومت کے ماتحت ہے۔ اپوزیشن کے اہم رہنما کی گرفتاری نے سندھ حکومت کو وضاحتیں دینے پر مجبور کردیا ہے۔

اس سے قبل پی ڈی ایم کے جلسے سے مولانا فضل الرحمن، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سینئر نائب صدر مریم نواز، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سردار اختر جان مینگل، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ، مرکزی جمعیت اہلحدیث کے امیر علامہ پروفیسر ساجد میر، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما امیر حیدر خان ہوتی، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ، جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل شاہ اویس نورانی صدیقی، قومی وطن پارٹی کے ہاشم خان داور نے خطاب کیا۔اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ گوجرانوالہ میں ایک متنازع خطاب کے بعد قائد مسلم لیگ (ن) نے کراچی میں خطاب نہیں کیا۔

ا س حوالے سے کوئی بات بھی سامنے نہیں آسکی ہے کہ ان کے خطاب نہ کرنے کی کیا وجوہات تھیں۔ میاں نواز شریف نے گوجرانوالہ میں جو سخت لب و لہجہ اختیار کیا تھا ان کے اس بیانیے سے پاکستان پیپلزپارٹی مکمل طور پر متفق نہیں ہے اور پیپلزپارٹی قیادت کراچی کے جلسے کو متنازع نہیں بنانا چاہتی تھی اس لیے نواز شریف کے خطاب سے اجتناب کیا گیا تاہم مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے اپنی تقریروں میں وفاقی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ آج بھی علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہم اس کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ یہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتا ہے کہ میں جمہوریت ہوں، اس سے بڑی آمرانہ سوچ کیا ہو گی کہ یہ پارلیمنٹ کو نہیں مانتا، یہ پاکستانی جمہوریت ہونے کا دعوی کرتا ہے، کسی ایک شخص کی حکومت جمہوریت کی نفی ہے،جلسے سے سب سے اہم خطاب مریم نواز شریف کا تھا جنہوںنے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل ایک شخص چیخ چیخ کر اپنی ناکامی اور شکست کا ماتم کر رہا تھا۔

یہ ابھی تو ایک جلسہ ہوا ہے لوگوں کو کہتا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے ، اگر آپ یہ جانتے کہ وقار کس طرح دکھایا جاتا ہے تو ہم سے ہی سیکھ لیں، آپ کی حرکات اور سکنا ت اور تقریر سے آپ کی گھبراہٹ نظر آ رہی ہے، عوام آپ کے چہرے پر خوف دیکھنا چاہتی ہے، عمران خان کے چہرے پر جو خوف ہے ، وہ عوام کی طاقت کا خوف ہے، دباؤ میں کس طرح کام کیا جاتا ہے اور کس وقار سے کیا جاتا ہے تو نواز شریف سے ہی سیکھ لیتے، جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے بھی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کراچی میں اپوزیشن نے ایک کامیاب شو کیا ہے۔ وفاقی حکومت لاکھ اس بات سے انکار کرے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کی وجہ سے عوام مشکلات کا شکار ہیں اور وہ اپنے غصے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ ابھی تک تعبیر نہیں پا سکے ہیں بلکہ حالات عوام کے لیے مزید کٹھن ہوگئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالف تحریک شروع ہونا پی ٹی آئی کے لیے مزید مشکلات سامنے لاسکتا ہے۔

اپوزیشن کی جماعتیں عوام میں اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور ان میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ عوامی اجتماعات کے ذریعہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں۔ وزیراعظم عمران خان اس وقت اپوزیشن کے حوالے سے جو لب و لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں اس کوکسی صورت بھی مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ افہام و تفہیم ماحول پیدا کیے بغیر ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کی بات کرنا محض خام خیالی ہی ہوگی ۔

ایک جانب سے کراچی میں اپوزیشن کے جلسے کا شور تھا تو دوسری جانب سے کیپٹن (ر)محمد صفدر کی گرفتاری نے ملک کے سیاسی ماحول کو مزید کشیدہ کردیا۔ مسلم لیگی رہنما کی گرفتاری کافی حوالوں سے بہت دلچسپ ہے۔ان پر الزام ہے کہ انہوںنے مزار قائد اعظم پر سیاسی نعرے بازی کرکے مزار کے تقدس کو پامال کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان ، حلیم عادل شیخ ، راجہ اظہر اور دیگر مزار قائد کا تقدس پامال کرنے پر پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کرانے بریگیڈ تھانے پہنچے تھے۔

پہلے پہل پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا تو پی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنان نے تھانے کے باہر دس گھنٹے سے زائد احتجاج کیا جس کے بعد مقدمہ درج کیا گیا۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے مقدمہ درج نہ ہونے کی صورت میں آئی جی سندھ کو او ایس ڈی بنانے کا معاملہ کابینہ میں اٹھانے کی بھی وارننگ دی تھی، ادھر مریم نواز نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں پولیس نے ہوٹل میں ہمارے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر)صفدر کو گرفتارکیا۔انہوں نے ہوٹل کے کمرے کی ویڈیو بھی شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ جب پولیس اہلکار زبردستی اندر گھسے تو وہ کمرے میں موجود تھیں اور سو رہی تھیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی لیکن اس گرفتاری نے اپوزیشن اتحاد میں بھونچال پیدا کردیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز شریف سے رابطہ کرکے اس گرفتار ی کی مذمت کی تو دوسری جانب وزیراطلاعات سندھ سید ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدرکی گرفتاری کا سارا کھیل وفاقی حکومت کی ایما پر ہوا ہے۔کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے ہنگامی پریس کانفرنس بھی کی جہاں مولانا فضل الرحمن ،مریم نواز شریف اور راجہ پرویز اشرف نے اس گرفتاری کو پی ڈی ایم کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا۔ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ صرف مریم پر نہیں بلکہ پوری پی ڈی ایم پر حملہ ہے، بلاول بھٹو، آصف زرداری کو اس واقعے سے دکھ پہنچا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے معاملے پر کہا ہے کہ اس واقعے کی مکمل چھان بین ہوگی ایسے کسی کو نہیں چھوڑیں گے، انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس معاملے میں پی ٹی آئی کے لوگ شامل ہیںاس تمام معاملے کی انکوائری کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی۔

اس انکوائری کے لئے وزراء پر مشتمل کمیٹی بنے گی جو سب کو طلب کر کے تحقیقات کرے گی۔ اس ضمن میں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کیپٹن صفدر کی سندھ کی حدود سے گرفتار ی ایک غیر متوقع چیز تھی۔اس گرفتاری نے پیپلزپارٹی کو کافی شرمندہ کیا ہے تاہم سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر سندھ حکومت کا اس گرفتاری میں کوئی ہاتھ نہیں تھا تو وہ کون سی طاقتیں تھیں جنہوں نے پولیس کے ذریعہ اس گرفتاری کو یقینی بنایا۔ پولیس نے پہلے ایک ٹوئٹ کے ذریعہ اس گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا اور اس کے بعد ٹوئیٹ کو ڈیلیٹ کردیا گیا۔

پولیس کے اس اقدام نے گرفتاری کو مزید مشکوک بنا دیا ہے تاہم اب یہ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گرفتاری کی گتھی سلجھائے اور تمام حقائق سامنے لے کر آئے۔ تاکہ پی ڈی ایم میں شامل دو اہم جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں سیاسی اختلاف نہ ہو سکے اور مذکورہ اپوزیشن اتحاد برقرار رہ سکے۔اپوزیشن اتحاد کو چاہیے وہ اپنے بیانیہ میں عوامی مسائل کو زیادہ اجاگر کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔