شاہ لطیف کی سعیِ طلب اور بلوچوں کے نشاں (آخری حصہ

عابد میر  پير 23 دسمبر 2013
khanabadosh81@gmail.com

[email protected]

شاہ ہمارے ہاں اتنا رِیلے وَنٹ ہے کہ میں یہاں شاہ کے رسالہ سے انتخاب ہی اگر پڑھنا شروع کر دوں تو شاہ آپ کو حالاتِ حاضرہ کا شاعر لگنے لگے گا۔اب یہی دیکھ لیجیے جو بات شاہ نے ماروی کی زبان سے تھر کے ماروؤں کے لیے کہلوائی تھی، وہ کیسے آج کے بلوچستان کی ترجمان بن گئی؛

اگر وہ حاکم جن کے سائے میں مارو رہتے ہیں، وہی راہزن بن جائیں
تو مارو تھر میں کیسے آباد رہ سکیں گے؟
اگر وہ حاکم جن کے سہارے مارو رہتے ہیں، وہی راہزن بن جائیں
تو پھر مارو کس سے فریاد کریں

(سر کیڈارو، داستان سوم)
شاہ صوفی ہو نہ ہو،اس کا کلام بلاشبہ ایک معجزہ تو ہے۔اور یہ معجزہ محض ولیوں والا نہیں، یہ تو ایک مکمل سائنسی اور سماجی معجزہ ہے…جیسا معجزہ روسو کا معاہدہ عمرانی تھا،جیسا مارکس کا کیپٹل تھا۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم شاہ کو مارکسوادی یا گوریلا بنارہے ہیں…لیکن موجودہ نظام سے نفرت اور اسے بدلنے کی سعی، ہر اچھے انسان کی طرح شاہ کا اور اس کے کلام کا بنیادی وصف ضرور ہے۔ وہ لاکھ محبت کے گن گاتا ہو، مگر بھوکے پیٹ والوں کو بھی نہیں بھولتا؛

سنہا بھان ئِ مہَ سبھ، سُکا جِن جا پیٹ
تنین جی جھپٹ، جنگین کھے جوکھے تھی

لیجیے دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم والے نظام کا پورا کچا چٹھا، کھول کررکھ دیا شاہ نے ایک بیت میں۔ اور اپنے انھی بیتوں میں وہ نہ صرف استحصالی نظام کو چیلنج کرتا ہے، بلکہ اس کی جگہ ایک برابری والے نظام کا نقشہ بھی پیش کرتا ہے۔اور یہی جدوجہد بلوچستان کی ہے۔ اسی لیے تو شاہ ہمیں بلوچ دوست لگتا ہے، بلوچ لگتا ہے۔

میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمارے ایک محقق اور بلوچ دانشور نے شاہ کے کلام میں ایک متبادل نظام کی نشاندہی کی ہے۔ یہ کام اس سے قبل ہندو سندھ میں شاید ہی اس نقطہ نظر سے ہوا ہو۔ اس لیے میں آپ کو شاہ سے متعلق بلوچستان کی اس ’تازہ دریافت‘میں ضرور شامل کرنا چاہوں گا۔ ہمارے یہ محقق اورمشفق ہیں ، پروفیسرڈاکٹر شاہ محمد مری،لکھتے ہیں؛

’’شاہ نے ایک طرف اسٹیٹس کو کی قوتوں کی نشاندہی کی اور دوسری طرف انقلابی قوتوں کو شناخت کر کے ان سے خطاب پر مشتمل اپنی پوری شاعری کی۔ بہت استادانہ انداز میں انھیں جدوجہد کی راہ دکھائی۔ راہ کی مشکلات سے خبردار کیا اور ان مشکلات پر قابو پانے کی تدابیر بتائیں۔

شاہ کا متبادل نظام کیا تھا؟ ایک زرعی معاشرے میں بھلا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ وہ تو ٹالسٹائی والا، مست توکلی والا ہی ہو سکتا ہے؛ نیکی اور اچھائی۔ صنعتی معاشرے میں استحصال کے تجربات ،کیپٹلزم کی پیچیدگیوں کا ادراک اور ایک منظم و مربوط متشدد جدوجہد کی ضرورت شاہ لطیف کے زمانے کا معروض تھا ہی نہیں۔ اس کا متبادل تو ایک نئے سماج کا قیام ہے جہاں انسان کے بنیادی حقوق پامال نہ ہوتے ہوں،لوگ معاشی تفکرات سے آزاد ہوں…شاہ لطیف کے ہاں ایسی تبدیلی ناگزیر تھی اور یہی اس کا سیاسی شعور تھا۔شاہ لطیف نے بے بس انسانوں کے دلوں میں ایک نئی روح ڈال دی۔ انھیں یاسیت کے گہرے کھڈ سے نکالا،فرد کو جدوجہد کی راہ دکھائی اور اپنی جدوجہد پر امید و یقین رکھ کر رواں دواں ہونے کا سبق سکھایا۔ اس نے دلیلیں دے کر ایسا کیا، مثالیں دے کر ایسا کیا۔ مثلاً اس کے ہاں انسانی بلند اقدار اور انصاف بھرے سورج کے شہروں میں سے ایک کیچ ہے۔کیچ،جہاں پنوں قید ہے اور سسی اپنے محبوب کی رہائی کا واحد مقصد لے کر اشتیاق و تیقن سے اُس جانب لپکتی ہے۔ سسی کے علاوہ بھی آپ شاہ کے جس کیریکٹر کو دیکھیں وہاں آپ کو شاہ دُکھی، مظلوم اور محکوم انسانوں کے لیے امید کا چراغ نظر آتا ہے۔ شاہ اُمید، شاہ حوصلہ، شاہ جہد، شاہ اتحاد، شاہ انقلابی، شاہ آزادی، شاہ ترقی پسندی، شاہ اسٹیبلشمنٹ مخالف، شاہ انسانیت…شاہ نے اپنے جادو بھرے کلام کے ذریعے فرد کو جینے اور اپنے حقوق لینے کے لیے تیار کیا اور اس میں یہ جذبہ بیدار کیا کہ وہ ظلم کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ ظالم قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہو جائے۔

’’کوئی پابندیاں نہیں، کوئی بندشیں نہیں/وہ آزادنہ بازو بھر بھر کر سرخ پھول لاتے ہیں/قیمتی لوگ ہیں یہ، اپنی سرزمین پہ نازاں/اور سرزمین اِن پہ نازاں/میرا جسم زنجیروں میں جکڑا ہے/ساری رات میں آزادی کے لیے کوکتی اور فریادیں کرتی ہوں۔‘‘

شاہ لطیف خالی خولی دعوے کرنے اور بڑی بڑی باتیں بانے والوں کو معیار نہیں بناتا ، وہ تو جدوجہد میں کود جانے والوں کو معیار ٹھہراتا ہے۔ وہ اپنی دھرتی کی دانشورانہ دنیا کا ایک تخلیقی جینیس ہے۔ وہ زندگی کا شاعر ہے، زندگی کی میٹھی کڑوی حقیقتوں کا شاعر ہے۔ جذبات اور احساسات کے ساتھ ساتھ خیال اور فکر اس کی شاعری میں اعلیٰ درجہ کے ہیں… المختصر شاہ لطیف لولاک کے سچ اور حق اور حسن اور انصا ف کا ترجمان ہے۔ وہ ہماری دھرتی اور اس کے باسیوں کا شاعر ہے۔ وہ متبادل مہیا کرنے والا شاعر ہے۔‘‘

لیجیے ہماری دھرتی کی دانشورانہ دنیاکے ایک تخلیقی جینیس نے ، سندھ کے اس نابغہ روزگار کو ’متبادل مہیاکرنے والا ہمارا شاعر‘قرار دے دیا۔ یہ اس شاہ کے لیے اُن بلوچوں کا حقیر سا خراج ہے ، جو سسی کی زبان میں ہمیشہ ان کے لیے دعاگورہا۔ جس نے سسی کے منہ سے بلوچوں کے لیے یہ دعا کی تھی کہ ؛

میری سعی طلب ملحوظ رکھنا
بلوچوں کے نشاں محفوظ رکھنا

اور جب دعا شاہ جیسے جینیس کی ہو تو قبولیت کے در تاابد کیوں نہ وَا ،رہیں۔بلوچوں پہ اسی دعاکا اثر ہے کہ صدیوں سے تاریخ کا کوئی جبر، ان کی قبر نہیں بنا سکا، ان کے نشاں نہیں مٹا سکا۔ اِسے دعویٰ نہیں، ایک حقیر خواہش سمجھا جائے کہ بلوچ جب کبھی اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہوئے وہ شاہ کا عرس ، ہر سال اُس جگہ منائیں گے جہاں سندھ بلوچستان کے سنگم پرشاہ کے ہیرو سسی اور پنوں مشترکہ قبر میں دفن ہیں۔اور وہاں محض تقریریں کرنے اور شعر پڑھنے والے جمع نہ ہوںگے ، بلکہ شاہ نے تا عمرجن کے گُن گائے،وہ سبھی محنت کش، مظلوم اور محکوم مارُوجمع ہوں گے ،وہ صرف تقریریں اور شعروں میں شاہ کو خراج پیش نہیں کریں گے بلکہ شاہ کے دیے ہوئے متبادل نظام کو عملی بنانے کی حقیقی جدوجہد کی سعی کریں گے…اور ان سب کے ہاتھ میں ایک ہی پرچم ہو گا، جس کا رنگ شاہ کے کلام کی طرح سرخ ہوگا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔