چین نے ایک بار پھر دنیا کو ’’نئی سرد جنگ‘‘ کے خطرات سے خبردار کردیا

ویب ڈیسک  منگل 26 جنوری 2021
صدر شی جن پنگ نے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کا مل کر مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے(فوٹو، فائل)

صدر شی جن پنگ نے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کا مل کر مقابلہ کرنے پر زور دیا ہے(فوٹو، فائل)

ڈیووس: چین نے ایک بار پھر دنیا کو ’’نئی سرد جنگ‘‘ کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ دوریاں پیدا کرنے یا نئی سرد جنگ کا آغاز کرنے اور دوسروں کو دھماکنے کی کوششوں سے دنیا مزید تقسیم ہوگی۔

صدر امریکا بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ چینی صدر کا کسی بین الاقوامی فورم پر پہلی مرتبہ اظہار خیال تھا۔ انہوں نے سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے چین کے خلاف اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے ماضی کی طرح نئی سرد جنگ سے تعبیر کیا ۔

صدر شی کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں دنیا کو یکجا ہو کر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے چین کو بہت محنت کرنا ہوگی۔ جب پوری انسانیت خطرے میں ہے تو چین ضرور ایک قدم آگے بڑھا کر اپنا فریضہ ادا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آزاد عالمی معیشت تعمیر کرنا ہے، جس میں تمام فریقین کے مفادات کا تحفظ کرنے والی تجارتی پالیسیاں تشکیل دی جائیں، جس میں ایسے نظام اور اصول نہ ہوں جو تجارتی تعلقات، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے تبادلے  میں بلند دیواریں اور رکاوٹیں حائل کرنے کا باعث بنیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: چین نے امریکا کو تصادم کے خطرے سے خبردار کردیا

واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں چین امریکا تعلقات مسلسل کشیدگی کا شکار رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چینی حکومت، افراد اور کمپنیوں کے معاشی مفادات کو محدود کرنے کے لیے قانونی اور سفارتی سطح پر کئی اقدامات کیے اور بالخصوص کورونا وائرس کی وبا کے بعد ٹرمپ نے چین کو اس عالمی بحران کا ذمے دار ٹھہرانا شروع کردیا جس نے اس خلیج کو مزید گہرا کیا۔ علاوہ ازیں تائیوان میں امریکا کی بڑھتی مداخلت اور چین میں انسانی حقوق پر امریکی پالیسی پر بھی چین میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: تائیوان کے معاملے پر امریکا باز نہ آیا تو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی، چین

حال ہی میں امریکا کے صدر بننے والے جوبائیڈن بھی امریکا کے مقابلے میں چین کے عالمی معیشت اور سیاست  پر بڑھتے ہوئے رسوخ کے ناقد  ہیں تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ بائیڈن اس حوالے سے اپنے پیش رو کی طرح جارحانہ پالیسی اختیار نہیں کریں گے۔ اس پس منظر میں چین کے صدر کے عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کو امریکا کی نئی انتظامیہ کی جانب ایک قدم بڑھانے کے مترادف قرار دیا جارہا ہے۔

 

چینی صدر کی تقریر کے چیدہ چیدہ نکات

شی جن پھنگ نے زور دے کر کہا کہ اس وقت ہم وبائی دور سے گزررہے ہیں، وبا کے خلاف جنگ جاری ہے، لیکن ہمارا ایمان ہے کہ سردی بہار کی آمد کو نہیں روک سکتی، اور نہ ہی تاریک رات صبح کی کرنوں کو روک سکتی ہے۔ یقیناً بنی نوع انسان آفات کے خلاف جدوجہد میں فتح یاب ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں کوئی دو ایسے پتے موجود نہیں جو بالکل ایک جیسے ہوں اور نہ ہی ایسی تاریخ، ثقافت اور معاشرتی نظام جو بالکل ایک جیسے ہوں۔ مختلف ممالک کی اپنی اپنی تاریخ، ثقافت اور معاشرتی نظام ہیں جن کے ایک دوسرے سے بہترہونے یا برا ہونے کا سوال نہیں۔

مختلف ممالک کی تاریخ، ثقافت اور معاشرتی نظام میں تفریق و اختلافات قدیم زمانے سے موجود ہیں، یہ انسانی تہذیب کی موروثی خصوصیت ہے۔ تنوع کے بغیر انسانی تہذیب کا تصورنہیں کیا جاسکتا۔ تنوع ایک معروضی حقیقت ہے جو ہمیشہ موجود رہے گی۔

چینی صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات خوفناک نہیں بلکہ غرور، تعصب اور نفرت خوفناک ہیں۔ انسانی تہذیب کو مختلف درجوں میں تقسیم کرنا خوفناک ہے اور اپنی تاریخی ثقافت اور معاشرتی نظام کو دوسروں پر مسلط کرنا خوفناک ہے۔

ممالک کو باہمی احترام کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے اور اختلافات کے باوجود مشترکہ تصورات کا تحفظ کرنا چاہیے تاکہ ممالک کے مابین تبادلہ کو فروغ ملے اور انسانی تہذیب کی ترقی اور پیش رفت ممکن ہو۔

چینی صدر شی جن پھنگ نے کہا کہ بنی نوع انسان کا کرہ ارض ایک ہی ہے اور بنی نوع انسان کا مستقبل مشترک ہے۔ چاہے موجودہ بحران سے نمٹنا ہو یا بہتر مستقبل پیدا کرنا ہو، بنی نوع انسان کو مل کر کام کرنے، متحد ہونے اور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

’’آئیے، ہم ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں اور کثیرجہتی مشعل سے بنی نوع انسان کے ترقیاتی راستے کو روشن کریں اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے مل کر کوشش کریں،‘‘ انہوں نے اختتامی تاثرات میں کہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔