عمر رسیدہ افراد اورکورونا وائرس …

شکیل صدیقی  اتوار 31 جنوری 2021

ہمارے معاشرتی نظام میں ضعیف العمرافراد کی اہمیت اور افادیت سے انکارکسی طوربھی ممکن نہیں۔ بزرگوں کا سایہ ماں ، باپ کی شکل میں ہو تو اولادکو تپتی جھلستی دھوپ میں بھی دعائوں کے یخ بستہ حصار میں لیے رکھتا ہے۔

اساتذہ کی صورت میں ہو تو علم کی جھلملاتی شمع سے زندگی کی تاریک راہوں کو روشن و منورکردیتا ہے اور اگر یہی گھنا سایہ گھرانوں اور خاندانوں کی سرپرستی کر رہا ہو تو پھر تو دینی اور دنیاوی کامیابیوں کا متواتر حصول مقدر بن جاتا ہے، غرضیکہ ہردور میں اسلاف کی موجودگی بالخصوص نئی نسل کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔

لیکن اگرکسی نام نہاد ماڈرن سوشل سسٹم میں بزرگوں کو اُن کے بنیادی حقوق ہی حاصل نہ ہوں ، انھیں قدم قدم پر تکالیف ، پریشانیوں ، مصیبت اور اذیتوں کا سامنا ہو، اُن کی عزت ووقار اور مرتبے کو نظر اندازکیا جا رہا ہو تو یہ عمل نہ صرف عملی اور اخلاقی پستی کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے مضراثرات پورے معاشرتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، جس کا خمیازہ نسل در نسل بھگتنا پڑتا ہے۔

اس کے برعکس معاشرے میں بزرگوں کو اُن کا جائز مقام ، عزت اور اہمیت دی جارہی ہو، اُن کی خوشحالی اورکامیابی کے لیے کوششیں کی جارہی ہوں، عمر رسیدہ افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہو ، تو پھر نہ صرف ایسے کام سراہے جاتے ہیں بلکہ ان کاموں کو انجام دینے والے افراد اور ادارے بھی عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ راستے چاہے کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں جذبوں اور ارادوں کی سچائی منزل سے ملا ہی دیتی ہے۔ سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (سرسو) معمر افراد کی فلاح وبہبود کے لیے ایسی ہی کاوشوں میں مصروف ِعمل ہے۔

سرسونے ہیلپ ایج انٹرنیشنل کے فنڈڈ پروجیکٹ(Promotion for the rights of older people (کے تحت جیکب آباد، شکارپور اورکراچی کے مختلف علاقوں میں عمر رسیدہ افراد کے ناتواں ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ اس پروجیکٹ کی سب سے خاص بات Old People Association(OPA) کا قیام ہے۔ OPA مختلف پسماندہ علاقوں میں قائم معمر افراد کا بنایا گیا، ایسا گروپ ہے جہاں انھیں سندھ سینئر سٹیزنز ویلفیئر ایکٹ 2014 کے تحت اپنے حقوق کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ ان کی اعتماد سازی کی تعمیرکی جاتی ہے ، باہمی مشاورت، روابط ، ہم آہنگی کی اہمیت کو اُجاگرکیا جاتا ہے اور زندگی سے جڑے دیگر مسائل پر بھی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔

سرسو نے جیکب آباد ، شکار پور اورکراچی میں مجموعی طور پر ایک سو سترہ    OPA  تشکیل دی ہیں جن کی بابت ہزاروں عمر رسیدہ افراد مستفید ہو رہے ہیں ۔ ملک میں رونما ہونے والے کورونا وائرس سے سب سے زیادہ بزرگ افراد متاثر ہو رہے ہیں، سیکڑوں قیمتی جانیں اس خطرناک وبائی مرض کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، نوجوان لوگوں کے ساتھ ساتھ ، عمر رسیدہ افراد کے لیے بھی اس مرض سے بچنے کا واحد راستہ مکمل آگاہی کا حصول اور احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ہے۔ سر سو کی جانب سے پروجیکٹ کے تحت معمر افراد کی رہنمائی اور مدد کے لیے کورونا وائرس سے بچائو کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دی جا رہی ہیں۔

OPA ابراہیم حیدری،کراچی کی معمرخواتین کا اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ وقت میں بارِ زیست کا اٹھانا مشکل ترین بن چکا ہے ، نہ کھانے کو روٹی میسر ہے ، نہ سر پر مضبوط اور مستحکم سائبان اور نہ ہی صحت کی معیاری سہولتیں دستیاب ہیں، عمررسیدہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے جڑے بیشتر معاملات میں بحیثیت سینئر سٹیزن جو سہولیات، سبقت ، تکریم و تعظیم ملنی چاہیے تھیں وہ کوسوں دور ہے ۔

یاسمین بی بی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے، بوڑھے ضرور ہیں لیکن معذور اور محتاج نہیں، ہم کام کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ سہل روزگار کے موا قع دستیاب نہیں، ہمیں قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، بسوں میں کھڑے ہوکر سفرکرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر دھکے ، لہجوں کی تلخی اور منفی رویوں کی برداشتگی کے ،اب ہمارے ناتواں وجود متحمل نہیں ہو سکتے! ان نامصائب حالات نے ہم سے جینے کی چاہ چھین لی تھی، ہم نا امید ہوچکے تھے ، مایوسیوں نے ڈیرے جما لیے تھے ، سانس لینا دشوار لگتا تھا، شام کے بعد رات آتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے اب سویرا ہونا ناممکن ہے، تاریکیاں اپنا وجود برقراررکھتیں، یہ اندھیرے ہرگز نہ چھٹتے اگر سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن نویدِ سحر بن کر نہ آتی، سرسو نے بروقت ہمارے کمزور ہاتھوں کو تھام کرہمیں مضبوط سہارا فراہم کیا ہے ، زندگی کی قدروقیمت اور ایک نئے جذبے کو زندہ کیا ہے ، حوصلوں ارادوں کو تقویت بخشی ہے ، ہم سب کی خواہش ہے کہ ہمیں معاشرے میں ہمارا جائز مقام حاصل ہو ، عمر رسیدہ افرادکے لیے بنائے گئے قانون کا جلد از جلد نافذالعمل ہونا، گھپ اندھیرے میں جگمگاتے کسی چراغ کی مانند ہو گا، دعا ہے کی اس قانون پر جلد از جلد عمل درآمد شروع ہو تاکہ ہماری باقی ماندہ زندگی اطمینان اور سکون سے گزرسکے۔

مختاراں مائی کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں لوگوں کو منہ کا کینسر ، جلدی امراض اور شدید نوعیت کے بخارجیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ ایک نئی آنے والی وباء کورونا وائرس کو ہم ہرگز اتنا اہم نہ سمجھتے اگر سرسو کی جانب سے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی نہ کی گئی ہوتی، متعدد آگاہی اجلاس کا انعقاد ، ماسک ، سینیٹائزر اورگلوزکی فراہمی کے ساتھ ساتھ تین مہینے کے راشن کا بندوبست کرکے سرسو نے ہمارے دلوں میں گھرکرلیا ہے، اب ہم خطرناک وبائی مرض کے ضمن میں بتائی جانے والی تمام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔

فاطمہ بی بی نے گفتگوکا حصہ بنتے ہوئے کہا کہ بھوک ، افلاس ، بے روزگاری اور دیگر مسائل لوگوں کے اعصاب اور نفسیات پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں ،لوگ مجبور ہیں انھیں اپنے مسائل کے حل کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا، وہ ذہنی الجھنوں کا شکار رہتے ہیں نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں، یہ لوگ نشے کو گلے لگا کر تمام الجھنوں سے آزاد ہونا چاہتے ہیں، سرسو نے ان مسائل کے حل میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، نفسیاتی الجھنوں پر مبنی مفید اور مو ثر اجلاس منعقد کروا کر لوگوں میں یہ احساس بیدارکرنے کی بھر پورکوشش کی ہے کہ زندگی سے جڑی پریشانیوں کا حل کسی نشے میں نہیں بلکہ ہمت اور حوصلے سے ان کا سامنا کرنے میں ہے، انسان کا عزم ، حوصلہ ، یقینِ کامل اور محنت اُسے بلآخرکامیاب بنا ہی دیتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔