نپولین فالٹ

جاوید چوہدری  اتوار 7 مارچ 2021
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

نپولین بونا پارٹ 18 جون 1815کو واٹر لو میں آخری جنگ ہار گیا‘ فرانس کے عروج کا سورج ڈھل گیا تاہم نپولین گرتے گرتے برطانیہ کے تمام توسیع پسندانہ خواب چکناچور کر گیا‘ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیاں دنیا کے درجنوں خطے ہڑپ کر چکی تھیں‘ بادشاہ کا خیال تھا یہ کامیابیاں انیسویں صدی کے آخر تک دوتہائی دنیا کو برطانوی راج کا حصہ بنا دیں گی لیکن پھر نپولین آیا اور اس نے برٹش عزائم کو اتنا زخمی کر دیا کہ آگے بڑھنا تو دور، انگریز کے لیے برطانیہ چلانا بھی مشکل ہو گیا اور آنے والے دنوں میں انگریز راج کی اینٹیں گرتی چلی گئیں۔

نپولین کے پاس وقت کی سب سے بڑی اور ٹرینڈ فوج تھی‘ یہ معاشی لحاظ سے بھی مضبوط تھا لیکن یہ اس کے باوجود ہار گیا‘ کیوں؟ عسکری ماہرین نپولین کی ہار کی چھ بڑی وجوہات بیان کرتے ہیں مگر یہ سب سے بڑی وجہ اس کے دشمنوں کے اتحاد کو قرار دیتے ہیں‘ یورپ اس زمانے میں منقسم تھا‘ آسٹریا اور جرمنی کے درمیان مسائل تھے‘ زار روس اور سکینڈے نیوین ملکوں کے درمیان لڑائی تھی‘ انگریز جاپان سے لے کر ہندوستان اور آسٹریلیا سے لے کر جنوبی افریقہ تک درجنوں دلدلوں میں دھنسا ہوا تھا اور اسلامی دنیا میں عثمانی خلافت تھی اور یہ بھی بدحالی کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی‘ یہ صورت حال نپولین کے لیے آئیڈیل تھی۔

یہ اگر آپس میں متحارب قوموں کو تقسیم کرتا‘ کچھ کو ساتھ ملاتا اور یہ کچھ کو رگڑا لگا دیتا تو یہ آدھی دنیا کو اپنی کالونی بنا لیتا لیکن اس نے طاقت کے زعم میں سب کو چھیڑ دیا‘ اس نے جرمنی‘ مصر‘ بیلجیئم‘ ہالینڈ‘ اٹلی‘ آسٹریا اور پولینڈ پر قبضہ کر لیا‘ یہ روس میں بھی داخل ہو گیا اور اس نے برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کر دی۔

اس کا یہ نتیجہ نکلا صدیوں کے ازلی دشمن اکٹھے ہو گئے‘ یہ نپولین کے خلاف متحد ہوئے اور پھر اس کی طاقت کے سورج کو واٹر لو کی کھائیوں میں بجھا کر دم لیا اور یوں نپولین تاریخ کا حصہ اور فرانس سپر پاور سے ایک چھوٹا سا ملک بن گیا‘ تاریخ نپولین کی اس غلطی کو نپولین فالٹ کہتی ہے جب کہ نپولین کے مقابلے میں انگریزوں نے جہاں بھی حکومت کی ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے فارمولے کے تحت کی اور وقت نے ثابت کیا یہ فارمولا بہرحال دنیا کی شاندار ترین تکنیک ہے۔

عمران خان کھلاڑی ہیں اور کھیل ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پر نہیں چلتا‘ اسپورٹس اعصاب‘ طاقت اورا سٹیمنے کی گیم ہوتی ہیں جب کہ سیاست جوڑ توڑ‘ گیو اینڈ ٹیک اور ڈائیلاگ کا نام ہے‘ آپ سیاست میں خون کے پیاسوں سے بھی ڈائیلاگ کرتے ہیں‘ آپ ازلی دشمنوں کو بھی کچھ دے کر اور کچھ لے کر راضی رکھتے ہیں اور آپ اپنے حریفوں کو اپنے ساتھ جوڑتے اور آپس میں توڑتے رہتے ہیں اور وقت نے ثابت کیا عمران خان سیاست میں کورے ہیں۔

آپ ان کی سادگی ملاحظہ کیجیے‘ یہ اڑھائی سال سے کریڈٹ لے رہے ہیں میں نے ’’ان سب کو اکٹھا کر دیا‘‘ کوئی ان سے پوچھے جناب! آپ کے سامنے گیارہ جماعتیں تھیں‘ یہ سب ایک دوسرے کی حریف اور دشمن تھیں‘ یہ لوگ 35سال سے ایک دوسرے کو غدار اور ’’سیکیورٹی رسک‘‘ قرار دے رہے ہیں‘ آپ اگر سمجھدار سیاستدان ہوتے تو آپ انھیں کبھی اکٹھا نہ ہونے دیتے‘ آپ انھیں ’’انگیج‘‘ رکھتے‘ آپ اپنی سادگی دیکھیے‘ اسٹیبلشمنٹ انھیں الگ الگ کرتی رہی‘ یہ انھیں مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے بھی دور رکھتی رہی لیکن وزیراعظم نے انھیں دھکیل کر ایک کنٹینر پر اکٹھا کردیا۔

اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ چالیس برس کے دشمن یکجان ہوئے اور انھوں نے حکومت کو دھکیل کر پھسلن پر رکھ دیا‘ میں آج تک حیران ہوں وہ وزیراعظم جو چوہدری صاحبان اور ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کر سکتا ہے اور جو شیخ رشید کو وزیرداخلہ بنا سکتا ہے وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے ساتھ ڈائیلاگ کیوں نہیں کر سکتا؟ اس نے مولانا فضل الرحمن جیسے شخص کو اپنا سیاسی دشمن کیوں بنا لیا؟ اور اس نے اختر مینگل اور جی ڈی اے کو کیسے ناراض کر دیا چنانچہ وزیراعظم یہ یاد رکھیں دشمنوں کو اکٹھاکرنا کامیابی نہیں ہوتی ناکامی ہوتی ہے۔

یہ نپولین فالٹ ہوتا ہے اور وزیراعظم اڑھائی سال یہ غلطی کرتے رہے‘ دوسرا وزیراعظم ’’این آر نہیں دوں گا‘‘ کا نعرہ لگاتے آ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف آصف علی زرداری جعلی اکاؤنٹس کے چودہ مقدموں کے باوجود گھر میں بیٹھے ہیں‘ یہ سینیٹ میں ووٹ کاسٹ کر رہے ہیں‘ میاں نواز شریف لندن میں واک کر رہے ہیں‘ مریم نواز تقریریں کرتی کرتی ملک کی مقبول ترین لیڈر بن چکی ہیں‘ حمزہ شہباز ضمانت پر گھر پہنچ چکے ہیں‘ یہ پنجاب میں عدم اعتماد کی تیاریاں کر رہے ہیں اور اب میاں شہباز شریف بھی دس پندرہ دنوں میں باہر ہوں گے لہٰذا وزیراعظم کے پاس کون سا ایسا این آر او ہے جو یہ نہیں دینا چاہتے‘ ملک میں عملاً ڈیڑھ سال سے این آر او ہو چکا ہے اور لوگ اسے انجوائے کر کے بھی تھک چکے ہیں۔

وزیراعظم یہ جانتے تھے ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے‘ یوسف رضا گیلانی کو اگر اپنی شکست کا ایک فیصد بھی شک ہوتا تو یہ کبھی اسلام آباد سے الیکشن نہ لڑتے‘ سیاسی لاٹ میں تین لوگ یہ حقیقت جانتے تھے یوسف رضا گیلانی یہ سیٹ جیت جائیں گے‘ عمران خان‘ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی لہٰذا آپ نے پھر حفیظ شیخ کو اسلام آباد سے الیکشن کیوں لڑایا؟ آپ انھیں سندھ‘ پنجاب یا کے پی کے سے جتوا سکتے تھے اور سیف اللہ ابڑو کو اسلام آباد سے ٹکٹ دے دیتے‘ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے رہتے‘ آپ کو اپنی سبکی کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ یہ بھی اندازہ کیجیے حفیظ شیخ نے ہارنے کے بعد آگے بڑھ کر یوسف رضا گیلانی کو مبارک باد پیش کی‘ وزیراعظم بھی یہ کرسکتے تھے۔

یہ اپنی شکست مانتے‘ یوسف رضا گیلانی کو مبارک باد پیش کرتے اور اپوزیشن کو دعوت دے دیتے‘ آپ کے پاس اکثریت ہے‘ آپ اپنا چیئرمین سینیٹ لے آئیں‘ وزیراعظم کا سیاسی قد کہیں سے کہیں پہنچ جاتا لیکن حکومت شکست کے بعد پچ پر بھی لیٹ گئی اور وزیراعظم نے الٹا الیکشن کمیشن کو جمہوریت کا دشمن بھی قرار دے دیا اور جواب میں الیکشن کمیشن نے پریس ریلیز جاری کر دی‘ حکومت اور وزیراعظم دونوں کی سبکی ہو گئی‘ پوری دنیا جانتی ہے الیکشن کمیشن اس معاملے میں صحیح اور حکومت غلط تھی‘ الیکشن کمیشن نے آئین اور قانون کا ساتھ دیا تھا‘ اس نے آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت الیکشن کرایا اور پاکستان تحریک انصاف نے اسی الیکشن میں کے پی کے میں اپنے حق سے ایک سیٹ زیادہ حاصل کی۔

اسی الیکشن میں پی ٹی آئی کی خاتون امیدوار فوزیہ ارشد کامیاب ہوئی‘اسی الیکشن میں سیف اللہ ابڑو اور عبدالقادر جیسے ارب پتی ایلیکٹ ہوئے اور اسی الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کو اڑھائی سال تک ڈس کوالی فکیشن اور پاکستان تحریک انصاف کو فارن فنڈنگ کیس سے بچائے رکھا‘ قوم حیران ہے یہ الیکشن کمیشن صرف ایک سیٹ کی وجہ سے جمہوریت کا دشمن کیسے بن گیا؟ آپ دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے‘ تحریک انصاف کے17 ارکان نے یوسف رضا گیلانی کو سپورٹ کیا‘ پارٹی ان لوگوں سے واقف ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

پارٹی اگر اتنی ہی اصول پسند ہے تو یہ ان 17 لوگوں کو پارٹی سے نکال دے لیکن وزیراعظم یہ نہیں کریں گے‘ کیوں؟ کیونکہ اس سے ان کی حکومت گر جائے گی‘ آپ اصول پرستی کا ایک اور ثبوت بھی دیکھ لیجیے‘ اپوزیشن کے پاس سینیٹ میں 53 ارکان ہیں جب کہ حکومت کے پاس 47 ووٹ ہیں لیکن حکومت چھ ووٹوں کے فرق کے باوجود صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کی کوشش کر رہی ہے‘ کیا یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں ہو گی‘ کیا یہ بے اصولی نہیں ہو گی اور یہ وہ نپولین فالٹس ہیں جو حکومت کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔

آپ یہ بھی سوچئے‘ وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ آپ خاموش بیٹھے رہتے‘ اپوزیشن بیشک عدم اعتماد کی کوشش کرتی رہتی‘ آپ کو خود ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کہاں کی عقلمندی‘ یہ کہاں کی دانشمندی ہے؟ دوسرا آپ نے اڑھائی سال اتحادیوں کو منہ نہیں لگایا‘ وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے تھے‘ چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف نیب انکوائری تک شروع کر دی گئی تھی‘ اختر مینگل ناراض ہو کر اپوزیشن میں بیٹھ گئے ہیں۔

ایم کیو ایم اڑھائی سال سے کراچی پیکیج کے لیے رو رہی ہے اور جی ڈی اے کا امیدوار پیر صدر الدین شاہ حکومت کی یقین دہانی کے باوجود سینیٹ کا الیکشن ہار گیا‘ ایک طرف آپ کا یہ رویہ تھا اور دوسری طرف اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی کو فون کرنے اور چوہدری شجاعت کی عیادت پر مجبور ہو گئے اور یہ ایم کیو ایم‘ باپ اور جی ڈی اے سے وعدے نبھانے کے لیے بھی رضا مند ہو گئے‘ کیوں؟ آپ اگر اصولوں پر کھڑے تھے تو آپ پھر آج بھی کھڑے رہیں‘ آپ پھر ’’غدار ارکان‘‘ کو پارٹی سے نکال دیں اور آپ پھر آج بھی اتحادیوں کے دباؤ میں نہ آئیں‘ آپ آج ان کو راضی کیوں کر رہے ہیں؟ اور آخری بات وزیراعظم نے چار مارچ کی شام اپنے ارکان اسمبلی سے کہا تھا‘ آپ کو اگر میری قیادت پر اعتماد نہیں تو آپ کھل کر مخالفت کریں‘ چھپ کر وار نہ کریں۔

مرد بنیں لیکن سوال یہ ہے سندھ اسمبلی کے تین ارکان نے کھل کر پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا تھا‘ یہ سینہ کھول کر سامنے کھڑے ہو گئے تھے لیکن ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا‘ انھیں اسمبلی میں پھینٹا لگا‘ آپ اگر تین مردوں کو برداشت نہیں کر سکے تو آپ باقیوں کو کیوں دعوت دے رہے ہیں چنانچہ میری وزیراعظم سے درخواست ہے کرکٹ میں بھی ساری گیندیں نہیں کھیلی جاتیں‘ بڑے سے بڑا کھلاڑی بھی چالیس فیصد گیندیں چھوڑ دیتا ہے لیکن آپ ہر گیند پر چھکا مارنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ کہاں کی سیاست ہے؟ آپ اپنے نپولین فالٹس پر توجہ دیں‘ اپنی پالیسی تبدیل کریں تاکہ ملک چل سکے ورنہ آپ کو ہر ماہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا‘ آپ دن رات اپنے ارکان پورے کرتے رہیں گے اور آپ اسی مشقت میں ایک دن ہمت ہار جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔