- افغانستان میں گیارہ ستمبر سے فوجی انخلا شروع ہوجائے گا، امریکی صدر
- رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا، آج ملک بھر میں پہلا روزہ
- پرنس فلپ خلائی مخلوق اوراڑن طشتریوں کے شیدائی تھے
- سندھ کے چھ شہروں کیلیے 250 ہائبرڈ الیکٹرک بسیں خریدنے کی منظوری
- 20 فیصد پاکستانی امرا 50 فیصد ملکی آمدن کے مالک، رپورٹ
- کراچی بندرگاہ سے کروڑوں روپے کی ہیروئن پکڑی گئی
- گواہ منحرف ہوگیا، عزیر بلوچ 15 ویں مقدمہ سے بھی بری
- حب میں فٹبال میچ کے دوران دھماکا، 12 افراد زخمی
- زمین پر قدیم زندگی کے خاتمے کے مزید ثبوت پاکستان اور چین سے دریافت
- رمضان میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی اور قیمتوں کی سخت نگرانی کی جائے، وزیراعظم کی ہدایت
- ڈبلیو ایچ او نے زندہ جانوروں سےکورونا جیسی مزید بیماریوں سے خبردار کردیا
- بھارتی نژاد خاتون اقوام متحدہ کی نئی سربراہ بننے کی دوڑمیں شامل
- سونے کی فی تولہ قیمت میں یکدم 1500 روپے کی کمی
- جوہری مرکز پر حملے سے امریکا کیلیے صورتحال مزید خراب ہوجائے گی، ایران
- فواد چوہدری کو وزارت اطلاعات کی ذمہ داری سونپ دی گئی
- وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی ملاقات
- جسٹس فائز کیس کی سماعت براہِ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد
- پیپلزپارٹی اوراے این پی اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے، بات سننے کو تیار ہیں، فضل الرحمان
- احتجاج کی آڑمیں شرپسند عناصر کوامن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وزیراعظم
- وزیراعلیٰ پنجاب کی پرائس کنٹرول میکانزم مزید موثر بنانے کی ہدایت
فلم بندی کے دوران سانس اور دھڑکن ناپنے والی ویڈیو ٹیکنالوجی

یونیورسٹی آف واشنگٹن کا ویڈیو نظام چہرہ دیکھ کر نبض اور سانس کی رفتار نوٹ کرسکتا ہے۔ فوٹو: فائل
واشگٹن: کورونا وبا کے دوران ٹیلی میڈیسن ٹٰیکنالوجی پر بہت کام ہوا ہے۔ اب واشنگٹن یونیورسٹی نے ایک ویڈیو ٹیکنالوجی وضع کی ہے جو حقیقی وقت میں ویڈیو میں موجود شخص کے سانس اور نبض کی رفتار بہت درستگی سے معلوم کرسکتی ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ 8 اپریل کی اے سی ایم کانفرنس برائے صحت، انٹرفیس اور اکتساب میں کیا جائے گا۔
یہ ٹیکنالوجی چہرے کو دیکھتے ہوئے دونوں اہم طبی علامات کو نوٹ کرتی ہے۔ اب توقع ہے کہ اس طرح سے ٹیلی میڈیسن کو فروغ ملے گا۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن میں ڈاکٹریٹ کے طالبعلم، ژن لائی نے کہا کہ مشین لرننگ تصاویر کی درجہ بندی کرتی ہے۔ اب اس کی بدولت چہرے کو دیکھ کر فعلیاتی اور جسمانی کیفیات کا انکشاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہر شخص اپنی طبع میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے پورے نظام کو تیزی سے تبدیل ہونے والا ہونا چاہیے تاکہ وہ ہرشخص کی جسمانی تبدیلیوں کو پرکھا جاسکے خواہ وہ کسی بھی ماحول اور پس منظر میں موجود ہو۔
ویڈیو میں شخصی پرائیوسی کا خیال رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا ڈیٹا کلاؤڈ کی بجائے فون تک ہی محدود رہتا ہے۔ چہرے پر روشنی اور سائے کی تبدیلی سے مشین لرننگ کا عمل خون کے بہاؤ اور سانس کے اتارچڑھاؤ کو نوٹ کرتا رہتا ہے۔ اسے اصل ویڈیو اور لوگوں کی تصاویر پر تربیت دی گئی ہے۔ ساتھ میں سانس اور نبض کو آلات کے ذریعے نوٹ کیا گیا اور ویڈیو کے ساتھ ان کو ملایا گیا۔
سافٹ ویئر نے تھوڑی ہی دنوں بعد خود کو اس قابل کرلیا کہ وہ چلتے پھرتے لوگوں کی ویڈیوز سے بھی انکی سانس اور نبض کی رفتار نوٹ کرنے کے قابل ہوگیا ۔ لیکن بعض ڈیٹا سیٹس پر اس کی کارکردگی بہتر رہی جبکہ دیگر ڈیٹاسیٹس پر کارکردگی بہتر نہیں رہی اور یہ عمل مشین لرننگ میں ’اوورفٹنگ‘ کہلاتا ہے۔
اس کے بعد مشین کو انفرادی شخص کے حوالے سے تربیت دی گئی جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ تاہم سیاہ فام افراد کے لیے اسے مزید تربیت کی ضرورت ہے۔ تاہم اسمارٹ فون ویڈیو سے بھی اس سے سانس اور نبض کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔