قسمت ضرور سزا دیتی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 4 اپريل 2021
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

عظیم فلسفی اپیکٹیٹس نے کہا تھا ’’ہم جو بوتے ہیں، وہ ہی کاٹتے ہیں اور قسمت کسی نہ کسی صورت میں ہماری بد اعمالیوں کی ہمیں ضرورسزا دیتی ہے‘‘ اس نے کہا تھا’’آخرکارہر شخص کو اپنے برے اعمال کی سزا مل کر رہتی ہے، جو شخص اسے یاد رکھے گا ، وہ کسی سے ناراض نہیں ہوگا ،کسی کو برا بھلا نہیں کہے گا کسی پر تہمت نہیں دھرے گا کسی کو آزردہ نہیں کرے گا کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا کسی سے نفرت نہیں کرے گا۔‘‘

ہم اگر اپنے حکمرانوں اورکرپٹ سیاست دانوں کی اکثریت کو انتہائی قریب سے دیکھیں اور انھیں سمجھیں توہم پر ایک خوفناک انکشاف ہوگا کہ ان سب کو مکمل تربیت کی ضرورت ہے۔ ایسی تربیت جو انھیں زندگی کے فلسفے، حکمرانی کے فن ، مہارت سے لے کر اخلاقیات اور رویوں سے مکمل آگاہی دے جو انھیں یہ سکھائے کہ وہ کوئی آسمان سے اتری الگ تھلگ مخلوق نہیں ہیں۔ وہ بھی ایک عام انسان ہیں ان پر بھی وہ ہی قانون اور اخلاق کے تقاضے لاگو ہوتے ہیں جو باقی انسانوں پر ہوتے ہیں وہ بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں ، انھیں بھی اپنی عزت و وقارکو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیے عوام سے رابطے استوار کرکے اپنی بصیرت سے ان رابطوں کو مضبوط کرنا چاہیے اور دوسروں کو اپنے کردار سے متاثرکرنا چاہیے انھیں جہد مسلسل اور ذاتی علم میں اضافہ کرنا چاہیے۔

سوچنے کے لیے وقت نکالنا اور پھر اپنی سو چ کے مطابق عمل کرنا اور ملک اور قوم کے مسائل کے حل تلاش کرنا چاہیں، مسلسل مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے اندر خوبیاں ، برداشت، صبر ، ایمانداری ، دیانتداری پیدا کرنا چاہیے۔ ملک اور قوم کو درپیش چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، ہمیشہ سچ بولنا چاہیے ، اپنی شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے، یاد رکھیں وہ کوئی سپر مین نہیں ہیں ان کو بھی تربیت کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ باقی انسانوں کو ہوتی ہے اگر وہ اپنے آپ کو کوئی ’’خاص انسان ‘‘ سمجھے بیٹھے ہیں تو وہ غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔

اگر وہ ملک کے آئین اور قانون کو اپنی لونڈی سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ خوب لوٹ مار کریں ، کرپشن دل کھول کرکریں غبن کریں ، جھوٹ بولیں ، فراڈ کریں، سازشیں کریں ملک کے مفاد کے بجائے صرف اپنا مفاد عزیز رکھیں ، اپنے اقتدارکو بچانے کے لیے ملک اور قوم کی بقا کو خطرے میں ڈال دیں اورکوئی عدالت یا قانون ان سے کوئی سوال نہ کرے۔ کسی جرم کی انھیں سزا نہ دے تو یہ کسی بھی صورت نہیں ہوسکتا ہے اگر وہ کوئی بد اعمالیاں کریں گے تو بقول اپیکٹیٹس قسمت انھیں ضرورسزا دے گی اور جب قسمت سزا دیتی ہے تو پھر انھیں ہر صورت اپیکٹیٹس کی کہی گئی بات یاد رکھنی چاہیے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر وہ نفرت کی انگیٹھی میں جلنا شروع ہو جائیںگے۔

شکسپیئر نے کہا تھا ’’ اپنے دشمن کے لیے انگیٹھی اتنی گرم نہ کرو مبادا کہ یہ خود تمہیں ہی جلا ڈالے ‘‘ اور جب آپ نفرت کی انگیٹھی میں جلنا شروع ہو جاتے ہیں تو ساری قوتیںسلب ہوجاتی ہیں تم اعصاب زدہ ہوجاتے ہو تمہاری صورتیں بگڑ جاتی ہیں تم اختلاج قلب میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تمہاری زندگی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے ، بدلہ لینے کی کوشش سے آپ کوکس طرح نقصان پہنچ سکتا ہے۔

جریدہ ’’لائف ‘‘ نے لکھا تھا کہ اس سے آپ کی صحت تباہ ہوسکتی ہے خون کے دباؤ کے مریض عموماً نفرت کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جب حضرت عیسیٰ نے کہا تھا ’’ ساڑھے سات سو دفعہ درگزر سے کام لو ‘‘ تو وہ سب کو یہ بتا رہے تھے کہ خون کے دباؤ ، امراض قلب ، معدے کے زخم اور متعدد دوسری بیماریوں سے کیسے پہلو بچایا جاسکتا ہے۔ کیا ہمیں اپنی صحت اور مسرت کی خاطر قسمت کی سزا کو کھلے دل سے قبول نہیں کرلیناچاہیے اور اسے بھول جانا نہیں چاہیے۔ یہ ہی ایک بہترین اصول ہے جسے ہم سب کو اپنانا چاہیے ۔

کنفیوشس کے الفاظ میں ’’ ظلم و تعدی اور لوٹ مارکا شکار بننے سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا جب کہ تم اسے متواتر یاد نہ رکھو ‘‘ اگرآپ کا کینیڈا جانا ہو تو آپ جیسپر نیشنل پارک ضرور جایئے گا اور مغربی دنیا کے حسین ترین پہاڑکو ٹکٹکی باندھ کر دیکھیے گا ، اس پہاڑکا نام ایک برطانوی نرس ایڈتھ کیول کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 12 اکتوبر 1915 کو ایک جر من بمبار دستے کے سامنے ایک رشی کی طرح اپنی جان دی تھی اس کی وجہ ؟ اس کا جرم ؟ اس نے اپنے مکان میں زخمی فرانسیسیوں اور انگریزوں کو پناہ دی تھی انھیں کھلایا پلایا ، ان کی تیمارداری کی اور ان کی یہاں تک مدد کی کہ وہ بچ کرہالینڈ سے نکل سکیں جب اکتوبر کو اس صبح کو انگریز پادری برسلز کے فوجی قید خانے میں اس کی کوٹھری کے اندر داخل ہوا تاکہ اسے موت کے لیے تیارکرے۔

ایڈتھ کیول نے صرف دو جملے کہے جو کانسی اور سکے میں محفوظ کر لیے گئے ہیں ’’میں محسوس کرتی ہوں کہ صرف حب الوطنی ہی کافی نہیں ہے۔ مجھے کسی کے ساتھ بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ چند سال بعد اس کی نعش کو انگلستان لایاگیا اور ویسٹ منسٹر گرجا میں اس کی مغفرت کی دعائیں مانگی گئیں۔ آج لندن میں قومی مصوری کی گیلری کے بالمقابل ایک دھات کا مجمسہ نصب ہے۔ انگلستان کی ایک غیر فانی ہستی کا مجسمہ ’’میں محسوس کرتی ہوں کہ صرف حب الوطنی ہی کا فی نہیں ہے ، مجھے کسی کے ساتھ بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ اپنی غلطیوں اور اپنے دشمنوں کو معاف کرنے اور بھول جانے کا یہ ہی طریقہ ہے کہ ہم ایسے آدرش اختیارکرلیں جو ہماری ذات سے بے انتہا بڑے ہوں ، اس کے بعد ہم اپنے آدرش کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

آئیں! ہمارے موجودہ و سابق حکمران اور سیاست دانوں کی اکثریت اپنی تربیت کے کام کا آغازآج ہی سے شروع کردیں، پھر دیکھیں کہ وہ اور ملک کے عوام دونوں کس طرح سکھ اور مسرت پاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔