برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا ’تبدیل شدہ وائرس‘ پاکستان میں پھیل رہا ہے، تحقیق

ویب ڈیسک  جمعرات 15 اپريل 2021
یہ جینیاتی تبدیل شدہ وائرس بہت طاقتور ہیں جو مختصر وقت میں ملک کی بیشتر آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ جینیاتی تبدیل شدہ وائرس بہت طاقتور ہیں جو مختصر وقت میں ملک کی بیشتر آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی: ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ، جامعہ کراچی کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس (کووڈ 19)کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ہے کیونکہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس پاکستان میں پھیل رہا ہے۔ کسی ممکنہ خطرناک صورت حال سے پچنے کےلیے اس وبائی صورتِ حال پر فوراً قابو پانے کی ضرورت ہے۔

یہ بات بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ اور کومسٹیک کے کوآرڈی نیٹر جنرل، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے جمعرات کو ڈاکٹر پنجوانی سینٹر کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی اور جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ کے کووِڈ 19 سے متعلق تحقیقی پروجیکٹس کا جائزہ لیتے ہوئے کہی۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی کی نئی تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس مثبت کیسز کے 50 فیصد کیسز برطانیہ کے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس ہیں جبکہ 25 فیصد جنوبی افریقہ کے وائرس سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال کا سبب حکومتی ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ وائرس بہت طاقتور ہیں جو بہت مختصر وقت میں ملک کی بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

انہوں نے تحقیقی سطح پر وائرس کی جینیاتی تبدیلی کی نگرانی کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کے وائرس سے متعلق دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ یہ وائرس اُن لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے جنہیں پہلے سے ویکسین لگ چکی ہوتی ہے۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے بھارت میں کرونا کی پھیلاؤ پر تشوش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ کرونا وائرس نہ صرف متعدی ہے بلکہ اس کی تشخیص بھی مشکل ہے یعنی جدید تجزیاتی سہولت (RT-PCR-based assays) سے بھی وائرس کے موجود ہونے یا نہ ہونے (منفی یا مثبت) کی تصدیق نہیں ہوپاتی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت جیسی صورتِ حال اُن ممالک میں بھی پیدا ہوسکتی ہے جہاں جینیاتی سطح پر تحقیقی سہولیات کم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔