احتیاط

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 6 مئ 2021
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

صورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے، روزانہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد کورونا وائرس کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں لیکن اہل وطن کو اس نقصان کی ذرہ برابر پرواہ نہیں۔ وہی لاپرواہی ، وہی ایس او پیزکی خلاف ورزیاں ، ہنسی مذاق ، مجمع لگانا اور بازاری کھانے کا شوق ۔

حیرت ہے کہ دنیا میں ایک جان جاتی ہے تو مہینوں اس کا غم رہتا ہے یہاں ہر روز ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ مارے جا رہے ہیں لیکن وہی ٹھاٹھا ، کون جی رہا ہے، کون مر رہا ہے کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔ یہ کیسا ملک ہے یہ کیسے لوگ ہیں انسان ہیں یا بھوت پریت۔ خدا ان کے حال پر رحم کرے، انھیں بہادر کہیں ، بزدل کہیں یا بے پرواہ کہیں۔

سارا کراچی جاگ رہا ہے عید کی خریداریاں زوروں پر ہیں بھیڑ کا عالم یہ ہے کہ اس بھیڑ میں پھنس جانے والوں کے کپڑے تار تار ہو رہے ہیں لیکن مستیوں کا وہی عالم ہے ویسے بھی خریدار کم نظر آتے ہیں نظرباز زیادہ نظر آتے ہیں، سر پر قیامت کھڑی ہے نوجوانوں کی مستیاں عروج پر ہیں۔ بے چاری خواتین اس بھیڑ میں اپنے آپ کو سنبھالے خیریت سے گھر پہنچنے کی جلدی میں ہیں۔

سرکار نے ایس او پیز کے نام سے عوام کو تحفظ دینے کے لیے کچھ قواعد و ضوابط بنائے ہیں ان قواعد کی ایسی دھول اڑائی جا رہی ہے کہ ہماری پاپولائزیشن پر فاتحہ پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔ ہمارے بہادر عوام کو کسی کی پرواہ نہیں حسب حال بحال ہیں بے چارے سرکاری اہلکار اپنی آنکھوں سے عوام کی یہ بدتمیزیاں دیکھ رہے ہیں لیکن ان کو ایک جگہ سے بھگائیں تو وہ دوسری جگہ جا پہنچتے ہیں۔

ڈیوٹی پر مامور سرکاری اہلکار حیرت سے ان انسانوں کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان عادی بدتمیزیوں کا کیا علاج کریں۔ خواتین ان نظر بازوں سے کترا کر ایک راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کرلیتی ہیں ان مارکیٹوں میں شرفا بھی آتے ہیں کہ عید کی خریداری بہرحال کرنا ہوتی ہے۔ پولیس جا بجا کھڑی ہے لیکن اس بھیڑ بھاڑ میں وہ سمٹی سکڑی کسی کونے میں کھڑی رہتی ہے کیونکہ عزت سادات کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، عزت بچی لاکھوں پائے۔

ان مسخروں میں پھنسنے کے بعد خیر خیریت سے گھر پہنچنا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے بے چارے شرفا برہمن خواتین کی طرح سکڑے سمٹے کسی ایک طرف کھڑے اپنی عزت سنبھالے رہتے ہیں۔یہ مسلمانوں کا ملک ہے اس کا نام مملکت خداداد پاکستان ہے رمضان کا مہینہ آتا ہے تو تاجر برادری دانت تیز کرکے آپ کو بھنبھوڑنے کے لیے تیار رہتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ غنڈہ عناصر غنڈہ گردی میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ایسے شریف نوجوانوں کی بھی کمی نہیں جو اس رش کے مارے عوام کی رہنمائی کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سودے کی تھیلیاں اٹھا کر ان کے ٹھکانے پر پہنچا دیتے ہیں دنیا مجموعہ اضداد ہے ایک طرف شرفا ہیں دوسری طرف غنڈہ عناصر ، ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

کہا جاتا ہے ہمارا ملک ایک اسلامی اسٹیٹ ہے رمضان آتے ہی کہا جاتا ہے شیطان کو بند کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں شیطان آزاد ہو جاتا ہے مہنگا بیچنا، کم تولنا، پاکستان کے تاجروں کی پہچان ہے، اس پر ہم بڑے فخر سے اپنے ملک کو مملکت خداداد پاکستان کہتے ہیں کیا ہم صحیح کہتے ہیں۔

آج دنیا کورونا کے آسیب سے سہمی ہوئی ہے ہر شخص احتیاط کرسکتا ہے لیکن احتیاط کس چڑیا کا نام ہے اس کا پتا لگانا مشکل ہے۔ اسے ہم بہادری کہیں یا جہل کہ ایس او پیز کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے مجاہد بھائی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں اور شرفا ان سے بچتے بچاتے اپنی خریداری کر رہے ہیں۔

ویسے میں نے بعض پوش ایریا میں دیکھا ہے بڑا امن ہے ہڑبونگ کم ہے یہاں کے باسی عام طور پر اطمینان کے ساتھ اپنی عید شاپنگ کرکے خیریت سے گھر چلے جاتے ہیں کوئی لڑائی نہ کوئی جھگڑا۔ امن و امان اور اطمینان کے ساتھ عید کی شاپنگ کرتے ہیں اور بے خطر عید شاپنگ کرکے گھر لوٹتے ہیں۔

بات ماحول کی ہے اور تربیت کی ہے کلفٹن میں بھی انسان ہی رہتے ہیں اور پوش ایریا اور عام ایریا میں بھی انسان ہی رہتے ہیں لیکن ان دونوں میں کتنا فرق ہے اور یہ فرق کیوں ہے یہ باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی ۔اصل مسئلہ کورونا کا ہے جو ہر شخص کے سر پر تلوار لیے کھڑا ہے برائے خدا اپنے لیے نہ سہی اپنے بچوں کے لیے احتیاط کیجیے حکومت نے عوام کی بھلائی کے لیے ایس او پیز کے نام سے کچھ قاعدے قانون بنائے ہیں برائے مہربانی ان پر عمل کیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔