حماس کی جوابی کارروائیاں اور اسرائیل کی جنگ بندی

سالار سلیمان  ہفتہ 29 مئ 2021

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

گزشتہ بلاگ میں سوالات اٹھائے تھے کہ کیا حماس حملے غلط کررہی ہے؟ عام فلسطینی حماس کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ عام مسلمان قبلہ اول سے محبت کیوں کرتا ہے اور یہ محبت دلیل کے ساتھ نئی نسل کے سینوں میں منتقل کرنا کیوں ضروری ہے؟ زیر نظر بلاگ میں ان سوالوں کے جواب پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: مظلوم فلسطین، غاصب اسرائیل اور حماس

راقم کو غزہ میں صحافیوں سے رابطہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ ان 11 دنوں کی جنگ نے بھی وہاں کا سارا انفرااسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔ ان سوالات کے جواب کےلیے راقم نے چند صحافیوں سے گفتگو کی اور اس کا لب لباب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔

عالمی سازش اور امریکا و برطانیہ کی پشت پناہی کی وجہ سے فلسطین اس وقت تقریباً 98 فیصد تک مقبوضہ ہوچکا ہے اور جو باقی 2 فیصد ہے، وہ بھی ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ ایک مغربی پٹی ہے، ایک مشرقی یروشلم کا کچھ علاقہ ہے اور ایک غزہ ہے۔ مغربی پٹی میں محمود عباس کی حکومت ہے، جس کو امریکیوں کی آشیرباد حاصل ہے اور دوسری جانب غزہ ہے جہاں پر حماس کی حکومت ہے۔ حماس کو مزاحمت اور حریت کی وجہ سے اسرائیل دہشتگرد تنظیم کہتا ہے۔

میرے ایک فلسطینی صحافی دوست نے بتایا کہ غزہ کا رقبہ لاہور سے بھی کم ہے۔ اس میں ایک جانب سمندر ہے اور تین جانب قید ہے۔ یہاں سے باہر آنا جانا تقریباً ناممکن ہے اور ایک دو خفیہ راستوں کے علاوہ باقی سب راستے اسرائیل کے پاس ہیں۔ حماس کو جب غزہ کا اقتدار ملا تھا تو کافی پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا تھا۔ آئے دن اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے اور زمینی کارروائی ہوتی تھی اور بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا جاتا تھا۔ یہ قتل عام کے الفاظ میں محاورتاً استعمال نہیں کررہا ہوں بلکہ حقیقت میں ایسا ہوتا تھا۔ لائن میں کھڑا کرکے فائرنگ اسکواڈ ان کو گولیوں سے چھلنی کردیتا تھا اور اس کے بعد ان کو دہشتگرد قرار دے دیا جاتا تھا۔

حماس کو اقتدار ملنے تک 4 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے تھے۔ فلسطینیوں کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جاری تھی اور بنیادی انسانی حقوق عالمی مسئلہ ہیں۔ اس وقت 8 لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین پڑوسی ممالک میں پناہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ اسرائیل کا جب جی چاہتا تھا وہ غزہ پر بمباری کردیتا تھا، جس میں انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا تھا اور انفرااسٹرکچر بھی تباہ ہوتا تھا۔ 2007 میں حماس کے آنے کے بعد اسرائیل کی جانب سے اوسطاً 10 فضائی حملے فی ماہ سے یک دم کم ہوکر اب ختم ہوچکے ہیں اور اب اسرائیل صرف جنگ میں فضائی حملہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل فضائی حملے نہیں کرتا۔ اور اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اسرائیل کو اب مزاحمت اور جواب کا خوف ہے۔

حماس نے پہلا راکٹ جب فائر کیا تھا تو اس کی رینج 1.5 کلومیٹر تھی، جو کہ اب بہتر ہوتے ہوئے 250 کلومیٹر تک ہوچکی ہے۔ حالیہ 11 دنوں کی جنگ میں اسرائیل نے حماس کی جانب سے مزاحمت کو بھگتا ہے اور اب پھر سے یہ بحث اسرائیل میں شروع ہوچکی ہے کہ اسرائیل کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں حماس سے صلح کرنی چاہیے، جنگ سے اسرائیل کا نقصان ہے۔

حماس کی جانب سے جیسے ہی راکٹ فضا میں بلند ہوتے ہیں تو اسرائیل بھر میں سائرن بج اٹھتے ہیں اور پورا اسرائیل پناہ کی تلاش میں بنکرز یا قریبی پناہ کی جانب بھاگتا ہے۔ آئرن ڈوم کے بار بار فیل ہونے کی وجہ سے اب عام اسرائیلی سائرن کی آواز سنتے ہی خوف سے بے حال ہوتا ہے۔ یہ افراتفری اسرائیل میں بے چینی اور غیر یقینی صورتحال کا باعث ہے۔ اس صورتحال نے عام اسرائیلیوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن کو بھی پیدا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ سے تھک چکے اسرائیلیوں کی آواز اب پارلیمنٹ میں بھی سنائی جاتی ہے۔ دوسری جانب غزہ کے باسی سمجھتے ہیں کہ اب ماضی کی طرح ان کا قتل عام حماس کی موجودگی میں نہیں ہوسکتا ہے۔

حالیہ جنگ بندی کے بعد بی بی سی نے جب وہاں کے رہائشیوں سے گفتگو کی تو اکثریت حماس سے مطمئن تھی، اس کی مزاحمت کے حق میں تھی اور دوبارہ سے حماس کو ہی الیکشن میں کامیاب کروانے کےلیے یکسو بھی تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ محمود عباس نے الیکشن ملتوی کیے تاکہ وہ شکست کا سامنا نہ کرسکے۔

یہ میں رپورٹ نہیں کررہا ہوں بلکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ دے رہا ہوں کہ حماس نے یہ جنگ جیت لی ہے۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی باوون کی تجزیاتی رپورٹ کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ حماس اس جنگ میں فاتح رہا ہے۔ شیخ الجراح میں آپریشن کا روکا جانا اور گرفتار فلسطینیوں کی رہائی حماس کا ہی مطالبہ تھی۔ مسجد اقصیٰ سے فوج بھی نکالی جاچکی ہے۔

اگر ہم مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر مذہبی مسئلہ کے طور پر بیان کریں تو ہم اپنا کیس کمزور کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ مغرب کےلیے مذہب کی حیثیت ثانوی یا نہ ہونے کے برابر ہے، لہٰذا اگر اہل مغرب کو فلسطین کا مسئلہ سمجھانا ہے تو انہیں یہ دکھانا ہوگا کہ صدیوں سے قائم آبادیوں کو یہودی آباد کاری کے نام پر صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔ اسکول، اسپتال، گھروں کو بمباری میں تباہ کیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندا جارہا ہے اور اسرائیل اس وقت فلسطین کے 98 فیصد حصے پر قابض ہوچکا ہے۔

ہمیں فلسطین سے محبت اگرچہ مذہبی بنیادوں پر ہی ہے اور میں یہاں 30 ایسی وجوہات لکھ سکتا ہوں کہ کیوں فلسطین سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ انبیا کی سرزمین ہے۔ یہاں کئی جلیل القدر مسلمانوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔ رسول اللہ کی اس شہر سے محبت بھی مثالی تھی اور اس شہر کو آزاد کروانے والوں کےلیے بشارتیں بھی ہیں۔ واقعہ معراج میں آسمانی سفر کا آغاز اسی شہر سے ہوا تھا۔ یہ سرزمین معجزات کی سرزمین ہے۔ الغرض کہ مسلمان تو اس شہر سے مذہبی بنیادوں پر بھی محبت کرتے ہیں لیکن اقوام عالم کےلیے فلسطین کے مسئلے کو بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ دکھائیں گے تو ہی رائے عامہ ہمارے حق میں ہموار ہوگی۔

بوقت تحریر غزہ میں امدادی کام اور بحالی کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان نے محض لفظی ساتھ نہیں دیا بلکہ جیسے ہی جنگ بندی ہوئی ہے تو پاکستان کی الخدمت فاؤنڈیشن کے رضاکار ترکوں کے ساتھ مل کر فوری طور پر غزہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے، جس میں راشن، پکے پکائے کھانے وغیرہ شامل ہیں۔ امید یہی ہے کہ اسرائیل اس نقصان سے سمجھے گا اور اب اپنے داخلی انتشار پر توجہ دے گا۔ اسرائیل کو سمجھ جانا چاہیے کہ جہاں وہ حملے کر رہا ہے وہ موت سے گھبراتے نہیں ہیں اور جس کو موت کا خوف نہ ہو اسے ہرانا کیسے ممکن ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔