انسانی پیٹ میں ہزاروں نئے ’’جراثیم خور‘‘ وائرسوں کی دریافت

ویب ڈیسک  جمعـء 25 جون 2021
بیکٹیریو فیج وائرس کسی جرثومے پر حملہ آور ہو کر اسے شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور بعض اوقات ہلاک بھی کردیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بیکٹیریو فیج وائرس کسی جرثومے پر حملہ آور ہو کر اسے شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور بعض اوقات ہلاک بھی کردیتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میری لینڈ: امریکی سائنسدانوں نے بڑے پیمانے پر جینیاتی تحقیق کے بعد انسانی پیٹ میں پائے جانے والے، ایسے تقریباً 50 ہزار نئے وائرس دریافت کرلیے ہیں جو جرثوموں (بیکٹیریا) پر حملہ آور ہوکر انہیں متاثر کرتے ہیں اور بعض اوقات انہیں موت کے گھاٹ بھی اتار دیتے ہیں۔

بتاتے چلیں کہ جراثیم (بیکٹیریا) کو متاثر کرنے والے وائرسوں کو سائنسی زبان میں ’’بیکٹیریوفیج وائرس‘‘ (جراثیم خور وائرس) یا صرف ’’فیج‘‘ (phage) بھی کہا جاتا ہے۔

یہ دریافت گزشتہ کئی سال کے دوران انسانی فضلے سے حاصل شدہ وائرسوں کے جینیاتی مطالعات سے استفادہ کرنے کے بعد ممکن ہوئی ہے۔

اس تحقیق میں وائرسوں کے تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار جینومز کا تجزیہ کرنے کے بعد ان میں 54 ہزار سے زیادہ ایسے وائرس سامنے آئے جو ممکنہ طور پر ’’فیج‘‘ قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔

ان میں سے بھی 92 فیصد، یعنی تقریباً 50 ہزار فیج وائرسوں کے جینوم سائنسدانوں کےلیے بالکل نئے تھے۔

اس دریافت کی بدولت پیٹ کے وائرسوں کی عالمی کٹیلاگ مزید بہتر ہوگئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے مختلف امراض اور ’’فیج وائرس‘‘ استعمال کرتے ہوئے علاج کے نئے طریقے تلاش کیے جاسکیں گے۔

مذکورہ تحقیق کے دوران چار لاکھ 59 ہزار سے زیادہ ایسے پروٹینز بھی سامنے آئے جو وائرسوں کے تیار کردہ ہیں۔ یہ بھی ہمیں پیٹ کے امراض کی تشخیص اور علاج میں مدد فراہم کرسکیں گے۔

واضح رہے کہ ’’بیکٹیریوفیج وائرس‘‘ کو عام طور پر مفید خیال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ اکثر اوقات نقصان دہ جراثیم کو ہلاک کرکے بیماریوں کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اسی بنیاد پر ’’مفید وائرس سے علاج‘‘ یعنی ’’فیج تھراپی‘‘ کا تصور بھی آج بہت پرانا ہوچکا ہے۔

پیٹ میں نئی اقسام کے فیج وائرسوں کی دریافت سے فیج تھراپی کے میدان میں ایک نیا باب کھلنے کی توقع بھی ہے۔

نوٹ: یہ تحقیق ’’نیچر مائیکروبائیالوجی‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔