نو مور

ایم جے گوہر  جمعـء 2 جولائی 2021

لاہور کے مصروف و معروف علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والا کار بم دھماکہ اس امر کا عکاس ہے کہ دہشتگرد عناصر ایک مرتبہ پھر ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔

دھماکے کے حوالے سے آئی جی پنجاب انعام غنی کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کا ٹارگٹ ایک کالعدم جماعت کے سربراہ کا گھر تھا لیکن وہاں پولیس ہمہ وقت پہرہ داری پر موجود رہتی ہے، اس کی رکاوٹ کے باعث دہشت گرد اپنے مقررہ ہدف تک نہ پہنچ سکے۔

اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ 9/11 کے بعد دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کے نتیجے میں گزشتہ ایک عشرے سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا ہے۔ اسکولوں سے لے کر مساجد تک ، جلسے جلوسوں سے لے کر بازاروں تک ، علما سے لے کر اساتذہ تک اور عام آدمی سے لے کر سیاستدانوں تک ہر ایک فرد اور ادارہ دہشتگردوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔

دہشتگردی کے خاتمے اور پس پردہ شاطر قوتوں اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سرحد پار عناصر کو بے نقاب کرنے اور انھیں کیفرکردار تک پہنچانے میں ملک کے خفیہ ادارے ، ایجنسیاں اور پاک فوج نے جس حکمت ، بصیرت ، صبر و تحمل سے ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کرکے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر ملک میں امن و امان قائم کیا ہے وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔

اندرون و بیرون وطن پاک فوج کے اس مثالی کردار کی تعریف کی جاتی رہی ہے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے بھی محتاط انداز میں دہشتگردوں کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہا جاتا رہا ہے ، لیکن پہلو بہ پہلو ’’ ڈو مور‘‘ کی گردان بھی کرتا چلا آ رہا ہے۔امریکا نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش کو جواز بنا کر جس خونریز جنگ کا آغاز کیا تھا اب اس سے نکلنے اور طالبان سے تعلق استوار کرنے کی راہیں تلاش کر رہا ہے۔

اس ضمن میں اسے پاکستان کے مصالحانہ کردار کا بھی پورا ادراک ہے کہ افغان طالبان اور اتحادی فوجوں کے درمیان معاہدے میں پاکستانی حکومت نے اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کیا اور اتحادی فوجوں کے انخلا کی راہیں ہموار ہوئیں۔ یہاں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ امریکا و اتحادی کی واپسی کے بعد کیا افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا؟ کیا افغان حکومت اور طالبان شیر و شکر ہو سکیں گے؟ کیا خانہ جنگی کے سوالات دم توڑ دیں گے؟ کیا تیس لاکھ افغانی جو گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے پاکستان کے مہمان بنے ہوئے ہیں خیر و عافیت سے اپنے گھروں کو جاسکیں گے؟ ایسے بہت سے ضمنی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ، جن کا جواب تلاش کرنا آسان نہیں۔

افغانستان سے اتحادی فوجوں کی رخصتی کے بعد بھی امریکا وہاں اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لیے محدود تعداد میں اپنی عسکری طاقت کے ذریعے کابل تک آسان رسائی کا متمنی ہے اس ضمن میں وہ پاکستان سے تعاون کا طلب گار ہے کہ اسے قابل تک پہنچنے کے لیے ’’راہداری‘‘ دی جائے۔ امریکا طالبان معاہدے سے ابھی تک شش و پنج میں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے فرانس کے دورے کے دوران فرانسیسی وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’’ ہم افغانستان کی سلامتی پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہم اس بات پر بھی بہت غور کر رہے ہیں کہ طالبان تنازع کے پرامن حل کے لیے سنجیدہ ہیں یا نہیں۔‘‘ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے افغان فوج کی مدد جاری رکھیں گے۔

امریکی حکام کے حوالے سے یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کابل میں غیر ملکی سفیروں کے تحفظ کے لیے تقریباً چھ سو سے زائد امریکی فوجی وہاں موجود رہیں گے۔ اس خبر پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے طالبان نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر امریکی فوجی کابل میں موجود رہے تو ہم اسے قبضے کا تسلسل سمجھیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان میں کسی بھی شکل میں امریکی فوجوں کی موجودگی طالبان کے لیے ناقابل قبول ہے یہ لڑائی کا سبب بنے گی اور امن کا خواب بکھر سکتا ہے، جب کہ افغان صدر اشرف غنی اور سی ای او عبداللہ عبداللہ نے پینٹاگون حکام سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد موجودہ افغان حکومت گرنے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں تمام افواہیں غلط ثابت ہوں گی اور موجودہ حکومت برقرار رہے گی۔

وزیر اعظم عمران خان کا یہ دیرینہ موقف ہے کہ جنگ کے ذریعے افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ امریکا اس وقت شش و پنج میں مبتلا ہے وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ انخلا کے بعد بھی کابل پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے وہاں تک رسائی کی صلاحیت برقرار رکھے اور اس مقصد کے لیے اسے پاکستان کے ہوائی اڈوں کے استعمال کی سہولت درکار ہے۔

اس حوالے سے جب HBO کے اینکر جوناتھن سوان نے وزیر اعظم عمران خان سے انٹرویو کے دوران یہ سوال کیا کہ کیا پاکستان امریکی ادارے سی آئی اے کو القاعدہ طلبان اور داعش کے خلاف کارروائیوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیں گے؟ تو جواب میں وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ہرگز نہیں‘‘ کسی بھی ملک یا ادارے کو افغان سرزمین پر جنگی کارروائی کے لیے پاکستانی سرزمین یا ہوائی اڈے کسی بھی صورت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

وزیر اعظم کے اس جرأت مندانہ موقف پر ناقدین و حاسدین بھی ان کی پذیرائی کر رہے ہیں۔  ماضی میں کولن کی پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی پر فرنٹ لائن اتحادی بننے کی جو غلطی کی تھی اس کی پاداش میں 70 ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع اور 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان قوم کو بھگتنا پڑا اور اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے نیویارک ٹائمزکو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد اگر طالبان کابل پر قابض ہوئے تو پاکستان وہاں فوجی کارروائی نہیں کرے گا اور خانہ جنگی کی صورت میں افغانستان سے متصل اپنی سرحدیں سیل کردیں گے۔ وزیر اعظم نے بیرونی طاقت (امریکا) کی خواہش پر ’’ ڈو مور‘‘ کا کوئی بھی مطالبہ پورا کرنے سے انکار کرکے درحقیقت پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔

انھوں نے بالکل درست کہا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ پاکستان کے تعاون کو ناکافی سمجھا اور ڈو مور کا مطالبہ کیا اور بدقسمتی سے گزشتہ حکومتوں نے وہ مطالبات بھی پورے کرنے کی کوشش کی جو ممکن بھی نہ تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاک افغان اور پاک امریکا تعلقات اور درپیش پیچیدہ مسائل کے تناظر میں ’’ نو مور ‘‘ کا جو دلیرانہ و باوقار موقف اختیار کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ پاکستان دہشت گردی اور اس ناسور سے جڑے محرکات کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اس ضمن میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دیے گئے 27 میں سے چھبیس نکات کی تکمیل کر چکا ہے۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے اس کا برملا اعتراف کیا ہے اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا سمجھ سے بالا تر ہے اس پہ مستزاد مزید چھ نکات کی فہرست اور تھما دی گئی ہے۔ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کچھ طاقتیں بشمول بھارت ایف اے ٹی ایف کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ صدر ایف اے ٹی ایف کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔