واحد راستہ

ایم جے گوہر  جمعـء 9 جولائی 2021

افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع وہ ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان ، مغرب میں ایران ، شمال مشرق میں چین ، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔ اطراف کے تمام سے افغانستان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے بڑے مضبوط ہیں۔ افغانستان ایک قبائلی معاشرہ ہے۔ ہر قبیلے کا اپنا سردار ہے اور مخصوص علاقوں میں ان کی اجارہ داری ہے۔

ماضی میں یہ ملک کبھی ایرانیوں ، یونانیوں ، عربوں ، ترکوں ، منگولوں اور برطانیہ کے قبضے میں رہا۔ اسی کی دہائی میں روسیوں نے افغانستان پر قبضہ کیا ان کی عبرت ناک شکست کے بعد 9/11 کے سانحے کو جواز بنا کر امریکا نے افغانستان پر حملہ کرکے اسے اپنا دست نگر بنایا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی بیرونی طاقت نے افغانستان پر قبضے کی کوشش کی تو مقامی قبائل نے مزاحمت کی ایسی طویل جنگ لڑی کہ مخالفین کو ہمیشہ منہ کی کھانا پڑی اور ناکام و نامراد ہوکر بیرونی طاقتیں یہاں سے مایوس ہوکر نکلتی رہیں۔

اٹھارہویں صدی کے وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں افغانستان ابھر کر دنیا کے سامنے آیا۔ 1919 میں شاہ امان اللہ کی قیادت میں افغانوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی۔ افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے جس کے باعث پورے ملک کا نظام زندگی تباہ و برباد ہو چکا ہے نہ صرف بیرونی طاقتوں نے اسے تاراج کیا بلکہ اپنوں کی سازش اور چپقلش اور خانہ جنگی کے نتیجے میں افغانستان کھنڈرات میں تبدیل ہوتا رہا ہے۔

آج بھی افغان عوام امن کے لیے کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔اگرچہ افغانستان کے پاس نہ تیل کی دولت ہے اور نہ معدنی و دیگر لامحدود وسائل ہیں مگر اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیا ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان میں واقع ہونے کے باعث ان تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا دیرینہ مذہبی، نسلی اور ثقافتی تعلق قائم رہا ہے اور جنگی لحاظ سے علاقے میں اپنا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر و رسوخ رکھنے کی کوشش کی ہے ، چونکہ افغانستان کا زیادہ تر رقبہ پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے، یہاں کے قبائلی لوگ جنگجوانہ مزاج رکھتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کا قبضہ ان کے لیے ناقابل قبول رہا ہے وہ گوریلا جنگوں کے ماہر ہوچکے ہیں اسی باعث بیرونی طاقتوں کا افغانستان کو فتح کرنے کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

روس جیسی سپر پاور ایک عشرے تک افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکراتی رہی اور پاش پاش ہوکر اپنا وجود ہی کھو بیٹھی۔ امریکا دو عشروں سے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ جدید فوجی قوت کے ساتھ افغانستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بارود کی آگ بھڑکاتا رہا لیکن افغان جنگجوؤں کو شکست دینے میں ناکام رہا۔ چار و ناچار اسے ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا۔امریکا طالبان معاہدے کے نتیجے میں امریکا 11 ستمبر تک فوجی انخلا مکمل کر لے گا۔

مبصرین و تجزیہ نگاروں کیمطابق امریکا اپنے پیچھے کمزور افغان حکومت چھوڑ کے جا رہا ہے ، جب کہ طالبان تیزی کے ساتھ مختلف علاقوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں اور افغان فورسز ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ امریکا طالبان سے معاہدے کے پس منظر میں افغان حکومت اور طالبان کے مختلف دھڑوں کو بٹھا کر ایسا حکومتی بندوبست کرکے جاتا کہ افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہوتی بلکہ تمام گروپوں کے مشترکہ تعاون سے ایک مخلوط حکومت تشکیل پا جاتی ، لیکن امریکا نے اس جانب توجہ نہ دی۔ یہی غلطی روس نے کی تھی نتیجتاً روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا مجاہدین کے گروپس آپس میں کابل پر قبضے کی جنگ لڑتے رہے پھر طالبان کا ظہور ہوا اور وہ اقتدار پر قابض ہوگئے۔

بعد ازاں القاعدہ نے جنم لیا اور 9/11 کے سانحے کی پاداش میں القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کو جواز بناکر امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں داخل ہوگئے۔ اب دو عشروں بعد ناکام و نامراد واپس جا رہے ہیں تو افغانستان کو روس کی طرح خانہ جنگی کی نذر کرکے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں اندرونی خلفشار ، بد امنی اور حکومت طالبان لڑائی سے پڑوسی ملکوں پر پڑنیوالے منفی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص پاکستان کو اس ضمن میں شدید تحفظات ہیں۔

امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ افغانستان میں امکانی خانہ جنگی کے باعث افغان مہاجرین پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ کی تلاش میں افغانستان سے نقل مکانی کرسکتے ہیں۔ بجا کہ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر جو افغانستان سے متصل ہے باڑ لگادی ہے لیکن خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔

اسی حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیس کو ایران کا صدر منتخب ہونے پر مبارک باد کا ٹیلی فون کیا اور دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم اور خوشگوار بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے خطے کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا ، بالخصوص افغانستان کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال پر گہری تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد وہاں رونما ہونیوالے واقعات اور امکانی خانہ جنگی کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنجیدہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کیونکہ خانہ جنگی کے باعث افغان مہاجرین کی آمد کا قوی امکان ہے۔

دونوں قائدین نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے عوام کے زیر ملکیت اور زیر قیادت سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ امریکا جاتے جاتے یہ دھمکی بھی دے رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کو تحفظ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا اس مقصدکے لیے وہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں اپنے قیام کی راہیں بھی تلاش کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ’’نو مور‘‘ کا دو ٹوک جواب دے دیا ہے تاہم امریکا دیگر عرب ممالک سے ’’ اسپیس ‘‘ مانگ رہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا بھی ہے۔

پاکستان اور چین امریکی چالوں سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے گوادر میں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ امریکا کو خود سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ اسے افغانستان میں کیا کرنا ہے ، اسے اندازہ نہیں ، ایک ماہ بعد افغانستان کے حالات کس طرف جائیں گے۔

وزیر اعظم نے بجا طور پر کہا کہ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک مشترکہ کاوشیں کریں فوجی انخلا کے بعد افغانستان کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے تاکہ وہاں خانہ جنگی اور انتشار نہ پھیلے کیونکہ ایسی صورت میں سب سے زیادہ نقصان تو افغانستان ہی کا ہوگا تاہم پڑوسی ممالک بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ گویا افغانستان میں فوجی انخلا کے بعد امن کا واحد راستہ متحارب گروپوں میں سیاسی تصفیہ ہونا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔