عیدالاضحی پر بھی سینما گھروں کی رونقیں مانند رہیں گی... ؟

ایم اے سلیمی  اتوار 11 جولائی 2021
کورونا ویکسی نیشن کی شرط نے مالکان کو مشکل میں ڈال دیا۔ فوٹو: فائل

کورونا ویکسی نیشن کی شرط نے مالکان کو مشکل میں ڈال دیا۔ فوٹو: فائل

عاصمہ بٹ معروف فلم ڈائریکٹر اور پروڈوسر ہیں، شوبز حلقوں میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہیں،کوویڈ19 کی وجہ سے گزشتہ ڈیڑھ برس سے پاکستان فلم انڈسٹری بند پڑی ہے۔

اس صورت حال پرملک کے ممتاز فنکاروں، گلوکاروں، ہد ایتکاروں اور شائقین کی طرح عاصمہ بٹ بھی رنجیدہ ہیں،کہتی ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر کے مختلف شعبوں کی طرح شوبز انڈسٹری بھی بری متاثر ہوئی ہے، دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان تو اس شعبے میں زیادہ ہی پیچھے چلا گیا ہے،جس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی اور سرپرستی کا فقدان بھی ہے، یہ فنکار ہی ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی طرف سے پاکستان فلم انڈسٹری اور آرٹس کونسل کو خصوصی معاشی پیکج دیا جائے تاکہ شوبز کا کھویا ہوا وقار اور مقام واپس لایا جا سکے۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو عاصمہ بٹ کی اس رائے میں کافی حد تک سچائی بھی دکھائی دیتی ہے،حکومت سالہا سال سے پاکستان فلم انڈسٹری کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔گو حکومت کی طرف سے ہر سال بڑا فنڈزمختص کئے جانے کے دعوے تو کئے جاتے رہے ہیں لیکن ان دعو?ں کی کوئی عملی شکل نظر نہیں آتی۔

زیادہ دور جانے کی بات نہیں، حکومت کی طر سے جاری حالیہ نوٹیفکیشن کو ہی دیکھ لیں،این سی او سی نے یکم جولائی سے سینما ہالز کھولنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن گیارہ دن گزر جانے کے باوجود لاہور میں موجود ایک بھی سینما گھر نہیں کھل سکا ہے، کچھ اس طرح کی صورت حال پنجاب کے دوسرے اضلاع میں بھی ہیں جہاں فلم بینوں کی گہما گہمی کی بجائے سنسانیوں اور ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔

آخر سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی اجازت ملنے کے باوجود سینما گھر کی رونقیں بحال کیوں نہیں ہو سکی ہیں، تو جواب بالکل صاف اور سیدھا سادھا یہ ہے کہ این سی او سی نے صرف ویکسین لگوانے والے افراد کو ہی سینما گھروں میں جا کر فلم دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی طرف سے بھر پور مہم چلائے جانے کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد کورونا ویکسین لگوانے سے گریز کر رہی ہے،پنجاب کے ایک بڑے ضلع کے ڈپٹی کمشنر نے راقم کو خود بتایا تھا کہ ہمارے پاس ویکسین کی کوئی کمی نہیں، چھ لاکھ سے زائد ڈوز پڑی ہیں لیکن بہت کم شہری ہی ایسے ہیں جو ویکسین لگوانے میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں، جب شہری ویکسین ہی نہیں لگوا رہے تو فلم دیکھنے کے لئے کون سینما گھر آئے گا۔

کورونا کیسز میں کمی آنے کے بعد اگر صوبہ بھر کے تعلیمی ادارے کھولے جا سکتے ہیں، ریسٹورنٹس اور شادی ہالز کو کھولنے کی اجازت مل سکتی ہے، کاروبار اور ٹرانسپورٹ کھولے جا سکتے ہیں تو سینما گھروں کو بھی ویکسین کے بغیر کھولنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں شوبز انڈسٹری کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان خود سپورٹسمین رہے ہیں،1992 کرکٹ ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں۔ سیاحت،کھیل اور شوبز کی اہمیت کو خوب سمجھتے بھی ہیں، عمران خان ان دنوں سیاحت کے فروغ کے لئے خاصے متحرک ہیں لیکن نہ جانے کیوں وہ شوبز کے شعبے کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔

وہ بھی کیا دن تھے جب پاکستان میں فلم انڈسٹری کا دور دورہ تھا، فلموں کا بزنس کھڑکی توڑ ہوا کرتا ہے، پاکستان بننے کے بعد سے فلم بینی کا سلسلہ نہ صرف تسلسل کے ساتھ جاری رہا بلکہ ملک میں مشکل ترین حالات میں بھی شائقین سینما گھروں میں جا کر فلموں سے لطف اندوز ہوتے رہے، لیکن اب لاہور کی فلم انڈسٹری اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اس کی بیشمار وجوہات ہیں، رہی سہی کسر کوویڈ19 اور حکومتی ایس او پیز نے پوری کر دی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لاہور کے نگار خانوں اور رائل پارک کی رونقیں ماند پڑی ہوئی ہیں۔

رائل پارک ایک زمانے میں انتہائی بارونق جگہ تھی جہاں پر فلم ڈسٹری بیوشن کے300کے قریب دفاتر تھے یہاں کی سرگرمیاں دیکھنے سے قابل تھیں ہزاروں لوگوں کا روز گارفلم انڈسٹری اور رائل پارک سے وابستہ تھا ،ہر جانب خوشحالی کا دور دورہ تھا، آج یہاں پر ویرانیوں کا ڈیرہ ہے، کام تقریباً ختم ہوچکا ہے، تقسیم ہند سے قبل رائل پارک میں چند فلمی دفاتر تھے جو کہ ممبئی اور لاہور میں بنائی جانے والی فلموں کی ڈسٹری بیوشن کیا کرتے تھے ،ممبئی کی فلمیں پنجاب میں اور لاہور کی فلمیں وہاں پرریلیز کیا کرتے تھے، قیام پاکستان کے بعد یہاں نہایت نامساعد حالات میں فلمی صنعت کا آغاز ہوا جس کے بعد بننے والی پہلی فلم’’تیری یاد‘‘کو یہیںسے ریلیز کیا گیا۔

آہستہ آہستہ رائل پارک کی رونقیں بڑھتی گئیں اور یہاں پر تقریباً 300تقسیم کاروں نے اپنے دفاتر قائم کرلئے، یہی سے پورے پاکستان میں اردو اور پنجابی فلمیں ریلیز کی جاتی تھیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ گیا، اب فلمی صنعت ایورنیو سٹوڈیوز کے کیمرہ ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹرزایسوسی ایشن کے آفس سے شروع ہوکر چوہدری اعجاز کامران کے رائل پارک کے آفس پر ختم ہوجاتی ہے۔

موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملکی تاریخ میں مسلسل دوسرے سال بھی عیدالاضحی پر کوئی فلم ریلیز نہ ہو سکے گی۔ پاکستان میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ کے دوران صرف 24 فلمیں پروڈیوس کی گئیں جن میں بعض کے پروڈیوسرز اس عید پر امید لگائے بیٹھے تھے لیکن حکومتی پالیسوں نے انھیں شدید مایوس کیا ہے،مزید تاخیر کا شکار ہونے والی پاکستانی فلموں میں ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ زندگی تماشا‘قائداعظم زندہ باد‘،تیرے باجرے دی راکھی سمیت دیگر 20 فلمیں شامل ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ سال سے سنیما انڈسٹری تشویشناک حالت میں ہے ’24 فلموں کی شکل میں 200 کروڑ روپے سے زائد کا سرمایہ منجمد ہے ، ایک وقت تھا جب کبھی پاکستان میں1600 کے قریب سنیما گھر ہوا کرتے تھے لیکن اب 161 سنیما ہی رہ بھی گئے ہیں وہ ایک طویل عرصے سے بند پڑے ہیں۔

اب بھی فلم ڈسٹری بیوٹرز اور پرڈیوسرز عید الاضحی پر اپنی فلمیں لگانے سے کترا رہے ہیں، لالی وڈ انڈسٹری کی کوئی فلم بھی عید پر ریلیز ہونے کا امکان کم ہی ہے، امپورٹ پالیسی کی انگلش فلمیں فاسٹ اینڈ فیورس اور بلیک ویڈو عید قرباں پر سینما گھروں کی زینت بنیں گی ، شنید ہے کہ تیار پاکستانی فلموں کے فلمساز اور تقسیم کار موجودہ حالات اور ایس او پیز کی وجہ سے فلم ریلیز نہیں کریں گے ، اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو اس بار بھی شائقین سینما گھروں میں جا کر پاکستانی فلمیں دیکھنے سے محروم رہیں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔