گیٹ وے

ایم جے گوہر  اتوار 11 جولائی 2021

امریکا جیسی سپر پاور کے بارے میں کون یہ سوچ سکتا ہے کہ دو عشروں تک افغانستان میں آتش و آہن کا الاؤ روشن کرنے کے بعد افغان جنگجوؤں سے اس قدر خوفزدہ ہوجائیں گے کہ اپنے سب سے مضبوط فوجی بیس بگرام ایئرپورٹ سے رات کی تاریکی میں خاموشی سے نکل جائیں گے، لیکن ایسا ہوا۔

افغان حکومت کو صبح معلوم ہوا کہ امریکی فوجی شب گزشتہ بگرام ایئربیس سے اپنا بوریا بستر لے کر روانہ ہوگئے۔ شرمندگی اور رسوائی کا یہ طوق امریکا اپنے گلے سے کبھی نہ اتار پائے گا۔ امریکا ایک غیر مستحکم، انتشار زدہ اور تیزی سے خونریزی و خانہ جنگی کی سمت بڑھتا ہوا افغانستان چھوڑ کر جا رہا ہے۔ افغان حکومت کی سپاہ باوجود تمام تر کوششوں کے طالبان کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔

11 ستمبر کو جب آخری امریکی فوجی افغانستان سے روانہ ہوگا ،اس کے بعد افغان حکومت کی فورسز اور طالبان جنگجوؤں کے مختلف دھڑوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جس کے منفی اثرات سے پاکستان براہ راست متاثر ہو سکتا ہے۔ بالخصوص افغان پناہ گزینوں کی پاکستان آمد کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سوویت یونین کی واپسی کے بعد بھی افغانستان میں خانہ جنگی سے متاثرہ تیس سے چالیس لاکھ افغانی پاکستان کی مغربی سرحد عبور کرکے یہاں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ رفتہ رفتہ افغان مہاجرین پورے پاکستان میں پھیل گئے۔

اسلحے کی فراوانی نے امن و امان کو نگل لیا، دہشت گردی کے واقعات کراچی تا خیبر تک پھیل گئے۔ موقع کی تلاش میں رہنے والے بھارت نے اس انتشار کا فائدہ اٹھایا۔ اس نے اپنے ’’کلبھوشن یادیو‘‘ جیسے شرپسندوں کو افغانستان اور ایران کے راستے پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں پھیلا دیا نتیجتاً ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے لگے۔

بھارت نے اپنے ہرکاروں کے ذریعے بلوچستان کے غریب، پسماندہ اور احساس محرومی کے شکار بلوچوں کو روپے پیسے اور ’’آزاد بلوچستان‘‘ کا دلفریب اور سہانا خواب دکھا کر اپنا ہمنوا بنایا جس کے باعث بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچوں نے اپنے اپنے گروپ بنا کر اپنے ہی ملک کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اور دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی لوگوں کا خون بہانا شروع کردیا۔ بلوچستان میں عام آدمی سے لے کر فوجی جوانوں تک ہر ایک کو نشانہ بنایا گیا۔

بلوچ عوام کے احساس محرومی نے ان کے اندر نفرت، غصہ اور انتقام کے جذبات کو پروان چڑھایا اور موقع پرست دشمن قوتوں، جن میں بھارت سرفہرست ہے نے اپنے مفادات کے حصول اور پاکستان کو کمزور کرنے اور مشرقی پاکستان کی طرح حالات پیدا کرکے بلوچستان کو الگ کرنے کی سازشوں کے جال بنے اور ناراض بلوچوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ایندھن بنایا۔

ماضی کی کسی قیادت نے بلوچستان کے حقیقی مسائل کو کلی طور پر سمجھنے، انھیں سنجیدگی سے حل کرنے، بلوچوں کے احساس محرومی کو دور کرنے اور ان کو جائز آئینی و قانونی حقوق دینے کے لیے دیرپا، نتیجہ خیز اور ثمر آور طویل المدت پالیسیاں نہیں بنائیں۔ محض اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے بلوچوں کو طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان میں آپریشن کیا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں بلوچوں کے نمایندہ سردار اکبر بگٹی کو نشانہ بنایا  گیا۔ البتہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج‘‘ کا اعلان کیا جس کے لگ بھگ 60 نکات میں سے صرف 15 پر عمل درآمد ہوا لیکن افسر شاہی نے اس میں بھی دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والی حرکت سے بلوچوں کو راضی نہیں کیا جاسکا۔

چوں کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کاری ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اسی باعث وہاں سیکیورٹی فورسز کا ہمہ وقت رہنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بلوچ عوام کا احساس محرومی دور کرنے اور صوبہ بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیاسی حل کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا صرف گفت و شنید کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے چند روز پیشتر گوادر میں سی پیک منصوبوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے واضح کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے یہاں اپنے صرف سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن جیتنے کا گیم کھیلا اور بلوچوں کے احساس محرومی کا فائدہ دشمن ملک بھارت نے اٹھایا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کی حکومت بلوچستان پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور صوبے کے لیے 930 ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جب کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا۔ یہاں کسی ایک پارٹی کو کلی اقتدار نہیں ملتا بلکہ عموماً مخلوط حکومت ہی بنتی رہی ہے۔ کسی بڑی سیاسی جماعت نے بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کو ٹھنڈا کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں نتیجتاً بلوچستان دیگر صوبوں کے مقابلے میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔

ساتویں بلوچستان نیشنل ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بلوچستان کی پسماندگی کے پس منظر میں برملا یہ کہا ہے کہ بلوچستان میں سماجی و اقتصادی ترقی کا عمل تیز کرنا ہوگا۔

فوج کی مکمل توجہ بلوچستان پر ہے، سیکیورٹی فورسز بلوچستان اور پاکستان کے امن و خوشحالی کے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے ثابت قدم، پرعزم اور چوکنا ہیں، بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے ضمن میں فوج اور سیاسی قیادت کا ایک پیج پر ہونا اور ہر دو فریق کے خیالات میں ہم آہنگی کا پایا جانا بلوچوں کے لیے یقیناً حوصلہ افزا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لیے جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی مقرر کردیا ہے جو حکومت اور ناراض بلوچوں کے درمیان مفاہمت، ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہ اچھی پیش رفت اور مثبت آغاز ہے ملک کے فہمیدہ طبقے بلوچستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے اٹھنے والے ہر قدم کی پذیرائی کریں گے۔

بلوچستان میں امکانی ترقی و خوشحالی کے ضمن میں سی پیک منصوبہ بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارا سب سے مضبوط دوست چین اس منصوبے کا روح رواں ہے۔ گوادر پورٹ فعال ہونے سے ترقی کے نئے راستے کھلیں گے، نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے، پسماندگی کا خاتمہ ہوگا اور بلوچوں کا احساس محرومی احساس برتری میں تبدیل ہوگا۔

چین جس تیزی سے عالمی سطح پر ایک بڑی اور مضبوط معاشی قوت بن کر ابھرنے جا رہا ہے تو امریکا و بھارت اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں جس طرح گوادر بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کا ’’گیٹ وے‘‘ ہے بعینہ وطن دشمن اور چین مخالف قوتوں کے لیے سی پیک منصوبہ ناکام بنانے اور بدامنی پھیلانے کے بلوچستان ’’گیٹ وے‘‘ کا کام دے گا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ’’گیٹ وے‘‘ کی حفاظت کے لیے فول پروف اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔