آزمائش میں ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے؟

ڈاکٹر شائستہ جبیں  اتوار 19 ستمبر 2021
اللہ تعالیٰ انسان کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے ؟ منفی رویہ اختیار کرنے والوں کو کیا سزا ملتی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

اللہ تعالیٰ انسان کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے ؟ منفی رویہ اختیار کرنے والوں کو کیا سزا ملتی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

دنیا میں کسی بھی انسان کو سدا ایک جیسے حالات کا سامنا نہیں ہوتا ۔ کسی بھی بشر کو حاصل ہونے والی خوشی دائمی ہوتی ہے نہ غم ، بلکہ کبھی غم ہے تو کبھی خوشی، کبھی درد و الم ہے تو کبھی فرحت و انبساط ، کبھی بیماری ہے تو کبھی صحت مندی، کبھی تفکرات و الجھنیں ہیں تو کبھی بے فکری و مسرت ، کبھی تنگی ہے تو کبھی آسودگی، کبھی سکون ہے تو کبھی بے چینی، کبھی سردی ہے تو کبھی گرمی، کبھی امن تو کبھی بدامنی۔ یہ تمام سلسلے ہر فرد کے ساتھ ہیں، کوئی بھی ان سے مبرا نہیں ہے۔

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی پر درد و الم، مصائب و مشکلات کا سلسلہ دراز ہو جائے تو وہ اور اردگرد کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کی مصیبتیں اسی ایک شخص کے لئے مختص ہو گئی ہیں ۔

ہم میں سے اکثر لوگ مصائب سے جلد بددل ہو جاتے ہیں اور سمجھ بیٹھتے ہیں کہ زندگی مصیبتوں اور آزمائش کا مجموعہ بن گئی ہے ، کہ ایک مشکل سے چھٹکارا ہوتا نہیں اور دوسری حملہ آور ہو جاتی ہے ، ایک پریشانی دور ہوتی نہیں کہ اس سے بڑی پریشانی گھیر لیتی ہے ۔ دراصل ان مشکل حالات میں انسان کے طرزِ عمل کی آزمائش ہو رہی ہوتی ہے۔

آزمائش سے مراد امتحان ہے اور امتحان محض مصیبت، مشکل یا پریشانی کی صورت میں ہی نہیں ہوتا، امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات کا ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر انسان زندہ رہے ، بیمار ہو ، صحت یاب ہو، خوشی ملے، رزق میں وسعت ہو… یہ سب اس کے طرزِ عمل کی آزمائش اور امتحان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب امور میں انسان کے چال چلن کو پرکھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام رہتا ہے ۔ سورہ ملک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ وہ ذات جس نے زندگی اور موت کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ تمہیں آزمائے کون اچھے عمل کرنے والا ہے ‘‘ ۔

آزمائش کا علم اس وقت ہوتا ہے جب حالات سخت ہوں اور انسان مصیبتوں میں گھر جائے کہ اس حال میں صبر سے کام لیتا ہے یا جزع فزع کرتا ہے ۔ اسی طرح خوش حالی میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ انسان نعمت ملنے پر شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔

اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آزمائش و آفات شاید اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں سزا دینے کے لیے ہیں ۔ اس احساس کی وجہ سے ان کی مصیبتوں میں اور بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا درد اور بھی گہرا ہو جاتا ہے ۔ آہستہ آہستہ یہ احساس نفسیاتی بیماری میں بدل جاتا ہے اور انسان صبر کا دامن نہ صرف چھوڑ بیٹھتا ہے بلکہ اس کے اندر سے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے اور مزاحمت کرنے کی صلاحیت بھی ختم ہوتی چلی جاتی ہے ۔

انسان کا یہ سمجھنا کہ اس کے مصائب و مشکلات، ابتلاء و آزمائش اللہ تعالیٰ کی جانب سے سزا ہے، درست نہیں ہے، بلکہ اکثر پریشانیاں انسان کو مانجھنے اور اس کے درجات بلند کرنے کے لیے ہوتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ’’ لوگوں میں سب سے زیادہ بلائیں، مصیبتیں اور آزمائش انبیاء کو پہنچتی ہیں، پھر نیک و صالح لوگوں کو، پھرجو ان سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔‘‘

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ’’ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو چاہتا اور پسند کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے ، بندہ جب اس پر راضی رہتا ہے تو اللہ اس سے راضی و خوش ہو جاتا ہے اور بندہ اگر اس پر ناراض ہوتا ہے اور خفگی کا اظہار کرتا ہے تو اللہ اس سے ناراض و ناخوش ہو جاتا ہے۔‘‘

اس فرمان نبوی ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری، پریشانی، آزمائش سزا نہیں بلکہ اصل آزمائش مصائب میں صبر نہ کرنے میں ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آزمائش میں گھرا ہو کہ یقین سے کہا جا سکتا ہو کہ یہ اس کے گناہ کی سزا ہے تو بھی اسے عذابِ الٰہی سے تعبیر کرنا مناسب نہیں. حضرت علی ؓ سے پوچھا گیا کہ آزمائش اور سزا میں فرق کیسے ہو؟ آپ نے فرمایا : ’’ اگر مصیبت تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے تو آزمائش ہے اور اگر اللہ سے دور کر دے تو سمجھ لو کہ سزا ہے ۔‘‘

حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمائے تو دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے، اور کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ نہ فرمائے تو اسے گناہوں کی سزا نہیں دیتا تا کہ قیامت کے دن اسے مکمل سزا ملے ۔‘‘

دراصل اللہ تعالیٰ صابر اور مومن بندوں کو مصیبت میں مبتلا کر کے ان کی آزمائش کرتا ہے کہ وہ صبر کا مظاہرہ کریں اور آخرت میں انہیں صابرین کا اجر ملے، کیونکہ فرمانِ نبویﷺ ہے’’ کسی مسلمان کو کوئی کانٹا بھی چبھے تو بدلے میں اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے یا اس کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔‘‘

انسان کو آزمائش میں مبتلا کیوں کیا جاتا ہے اور اس وقت ہمارا طرزِ عمل کیسا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے ہمیں نہ صرف مکمل معلومات ہونی چاہئیں بلکہ ہر وقت آزمائش اور اس میں اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ طرزِ عمل اختیار کرنے کو بھی ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

 حق و باطل میں فرق کرنا

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی آزمائش کا ایک سبب یہ بتایا ہے کہ سچے، جھوٹے، مضبوط اور کمزور ایمان والوں کے مابین فرق کیا جائے۔  آزمائش و ابتلاء میں صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ ایک سچے مومن کی ہی شان ہو سکتی ہے۔ جب باطل قوتیں زور پکڑ لیں، تب مومنین و منافقین کے فرق کا پتہ چلتا ہے۔ ایسے مواقع پر وہی لوگ راہ حق پر ڈٹے رہتے ہیں جن کا ایمان پختہ ہوتا ہے، جبکہ کمزور ایمان والے منافق آزمائش کے موقع پر راہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

 شخصی ارتقاء

ابتلاء اور آزمائش کی ایک حکمت انسان کی شخصیت کا ارتقاء ہے۔ مومن جب مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اندر قوت ایمانی جنم لیتی ہے، جس سے بہت سی اخلاقی خرابیاں دور ہونے کا موقع فراہم ہوتا ہے، کیوں کہ صاحب ایمان خوشی و غم کے ہر مرحلہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر برداشت کرتا ہے اور یہ برداشت اس کی شخصیت کو اندرونی نکھار عطا کرتی ہے. وہ رضا بالقضا کا خوگر بن جاتا ہے ۔

 فکر و عمل میں پختگی

مصائب و آلام اور آزمائش کی ایک حکمت فکر و عمل میں پختگی پیدا کرنا ہے۔ جب مومن آزمائش سے صبر کے ساتھ گزر جاتا ہے تو اس کے فکر و عمل میں صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تکلیف اور آزمائش سے گزر کر ہی انسان کندن بنتا ہے۔ جو انسان جس قدر اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ دار ہو گا، اسے اسی قدر ابتلاء و آزمائش سے گزرنا ہو گا۔ مومن کو آزمائش کا سامنا کسی گناہ کے سبب نہیں، بلکہ گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کے سبب ہوتا ہے اور صبر و تحمل سے حالات کا سامنا کرنے کی قوت عطا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

 منفی رویہ اختیار کرنے سے گریز کریں

جب کسی آزمائش کا سامنا ہو تو یہ سوچیں کہ اس سے کس طرح نکلنا ہے اور کون سا راستہ اختیار کر کے اس مشکل کو آسان کیا جا سکتا ہے۔ آزمائش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، منفی طرزِ عمل سے گریز کریں کیونکہ منفی طرزِ عمل بندے کو خالق سے دور کر دیتا ہے۔ آزمائش میں بندہ مومن کے لیے خیر ہی خیر ہے بشرطیکہ وہ اس پر صبر کر کے اللہ کی مدد کا خواستگار ہو۔ غم و اندوہ ، حزن و ملال، رنج و تکلیف ایک چیلنج ہے، جو ہماری قوت کو ضائع کرتا ہے، اگر ہم مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہو جائیں، وساوس اور منفی خیالات پال لیں، تو آزمائش طویل ہوتی جائے گی، یہاں تک کہ ہمارے اندر اس سے نکلنے کی تحریک ختم ہو جائے گی ۔

 استقامت اختیار کریں

اہل ایمان کا شیوہ ہے کہ وہ کسی مصیبت پر واویلا نہیں مچاتے، وہ جانتے ہیں کہ آزمائش اس دنیا کا لازمہ ہے، کیوں کہ یہ عمل کی جگہ ہے جس کا بدلہ یقیناً آخرت میں ملے گا ۔ اس لیے خواہ کتنی ہی شدید مشکلات سے کیوں نہ دوچار ہوں، اللہ تعالیٰ کی رحمت پر مکمل بھروسہ رکھیں ۔ صبر اور شکر گزاری کا رویہ اپنائیں۔ اپنے کسی بھی عمل سے بے صبری اور اتاؤلا پن ظاہر نہ ہونے دیں، بلکہ سچے مومن کی طرح استقامت سے اپنے راستے پر ڈٹے رہیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ آزمائش آپ کی ذات کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے ہے نا کہ آپ کو توڑ پھوڑ کر ایک کمزور انسان بنانے کے لیے۔

 آزمائش سے حفاظت کی دعا کریں

جب بھی کسی کو مصیبت یا مشکل میں مبتلا پائیں تو فوراً مسنون دعائیں پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلب گار ہوں۔ ہم جب تک خود آزمائش میں نہ پڑ جائیں، تب تک ہمیں اللہ سے رجوع کرنے کا خیال نہیں آتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ دوسرے کی مصیبت دیکھ کر ہی محتاط رویہ اپنا لیں تا کہ آپ کو ویسی صورتِ حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو، ہر کوئی کسی نہ کسی آزمائش میں ضرور رہتا ہے اگرچہ اس کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔ جس شخص کے اندر مومنانہ روح ہوتی ہے، وہ اپنے خالق سے مربوط اور مضبوط تعلق والا ہوتا ہے، وہ خود کو حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے، حوصلے کے ساتھ حالات کا سامنا کرتا ہے اور خیر کی امید رکھتا ہے۔

جبکہ وہ شخص جو مصیبت میں پڑنے پر جزع و فزع کرتا ہے، واویلا مچاتا ہے اور اللہ سے بدگمان ہو کر نامناسب اور ناشکری کے کلمات زبان پر لاتا ہے تو اس کی آزمائش کا دورانیہ طویل اور صبر آزما ہوتا چلا جاتا ہے۔ آزمائش دراصل ہے ہی یہی کہ دیکھا جائے کون شخص مشکل میں کس طرح کے رویے کا مظاہرہ کرتا ہے؟ کیا معمولی سی تکلیف میں تمام نعمتیں بھول کر ناشکری کرنے لگ جاتا ہے یا بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ؟ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم کون سی صف میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔