ہے دل کے لیے موت

سعد اللہ جان برق  پير 8 نومبر 2021
barq@email.com

[email protected]

وہ تو سب کو پتہ ہے، یہاں تک کہ باباجی ڈیموں والی سرکاراورعلامہ ڈاکٹر پروفیسر صاحب کوبھی معلوم ہے کہ ’’بات‘‘ جب نکلتی ہے تو دوربلکہ دوردورتک جاتی ہے، قیامت کی بات ’’اس کی جوانی‘‘اوراس کی جوانی کی بات قیامت تک پہنچ جاتی ہے،اصل میں تمام چیزوں کی طرح’’باتیں‘‘بھی انڈے بچے دیتی ہیں اور پھر یہ سار ے انڈے بچے مل کر بتنگڑبن جاتی ہیں جسے ہم باتوں کا ’’پولٹری فارم‘‘بھی کہہ سکتے ہیں، اسے بتنگڑوں یا باتوں کے پولٹری فارموں کو کچھ لوگ حکومت، سیاسی پارٹیاں لیڈر،وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی برائے ’’بتنگڑ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

اس سلسلے میں ایک پشتو کہاوت اچھی خاصی چشم کشاہے کہ ’’کام ‘‘ کرنے سے ختم ہوتاہے اوربات نہ کرنے سے ختم ہوتی ہے خاص طورپر باتوں کاآخری نتیجہ جنگ بھی نہ کرنے سے ہی ختم ہوتی ہے۔

یہ تمہید ہم نے اخبار کی ایک خبرمیں لفظ مشین بلکہ ’’رن مشین‘‘ کے الفاظ دیکھ کر باندھی ہے، یاد رہے کہ اس خبر میں ’’رن‘‘ کالفظ انگریزی ہے ،پنجابی نہیں بلکہ فارسی بھی نہیں ۔خبرہے ۔

آرام ختم ’’رن مشین‘‘ دوبارہ ایکشن میں آگئی ہے ۔

ظاہرہے کہ کھیلوں بلکہ کرکٹ کی خبروں میں بھی شاعری ڈالنے والے اس خبرسازکااشارہ پاکستانی کرکٹ یاگرین شرٹ شاہینوں ہی کی طرف ہے لیکن لفظ’’رن مشین‘‘ نے ہمیں اندیشہ ہائے دوردرازمیں مبتلاکر دیا خدانخواستہ اگرچہ یہ ’’رن‘‘ انگریزی کا ہے اور’’رن مشین‘‘ کااشارہ بھی واضح ہے لیکن اعتراض ہمیں نہ رن پر ہے نہ زن پر بلکہ لفظ مشین پر ہے کیوں کہ مشینوں کے بارے میں علامہ اقبال کی رائے اچھی بالکل نہیں ہے۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

خدانخواستہ ہمارا اشارہ اپنی موجودہ حکومت کی طرف نہیں ہے اگرچہ اس کی بنیاد میں بھی رن مشین یا بالنگ مشین موجود ہے لیکن ریاست مدینہ بھی ہے اس لیے ہم شبھ شبھ ہی بولیں گے۔

لیکن ادھرجب ’’ٹرمینیٹر‘‘ جیسی فلم کاخیال آرہا ہے جس میں ’’مشینوں کی حکومت ‘‘ کابڑا خوف نام تصورہے اوراگر اسی طرح ہمارے ہاں بھی ’’مشین‘‘ ہی مشین ہوگئے تھے، کیا پتہ رن مشین کے بعد ۔گول مشین، رن مشین،جھوٹ مشین،اسپیکنگ مشین،بیانات مشین، نظریات مشین وغیرہ بھی نکل آئیں توہم تواتنی ساری مشینوں کے درمیان ’’احساس مروت‘‘ بن کرکچل جائیں گے جب کہ یہ بھی ظاہر ہے کہ ان مشینوں کی ’’پیداوار‘‘ میں کچھ بھی نہیں ہوتا،ایک لاکھ بلکہ کروڑوں ’’رن‘‘ مل کر بھی ایک روٹی نہیں بناسکتے ،چلیے ہماری رن مشین نے انگلینڈ، نیوزی لینڈ،آسٹریلیا،سری لنکابلکہ بھارت میں بھی رنوں کے ڈھیرلگادیے تو ان سے ہم کیسے جیسے بھی کرکے ایک نوالہ نہیں بناسکتے،کسی کاایک بہت حقائق پر مبنی شعرہے۔

کھڑاہوں آج بھی ’’روٹی‘‘کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیادیامجھ کو

کتابوں میں ہزاروں لاکھوں کروڑوں الفاظ اور ’’حروف‘‘ ہوتے ہیں لیکن وہ سب مل کر ایک لفظ روٹی (ر،و،ٹ،ی)نہیں بناسکتے ہیں۔ اسی بات کورنوں، گولوں،میچوں ،کپوں اورجیتوں پربھی منطبق کرلیجیے، سوال یہ ہے کہ ان رنوں اومشینوں نے ہمیں دیاکیاہے، سوائے اس ایک چیزکے اور بھی بہت سارے دے چکے ہیں اوردے رہے ہیں یعنی ’’قرض‘‘اوراسی طرح کے خوش نماالفاظ کے۔جیسا کہ اس خبرسازنے ’’رن مشین‘‘ کی شکل میں دیا ہے ’’مشین‘‘کی بات چلی ہے تو دو اور مشینوں کابھی ذکرہوجائے ،ان میں ایک ’’مشین‘‘کاذکر تو ایک مشہورانگریزی گانے میں کیاگیاہے جس کے بول ہیں۔

راسپوٹین،راسپوٹین

رشین کوئین ازلو مشین

اب ’’لومشین‘‘ کی اصطلاح درست ہے یا نہیں یہ تو راسپوٹین ہی جانیں لیکن جب رن مشین ہوسکتی ہے تو پھر ’’لومشین‘‘ بھی ہوسکتی ہے بلکہ ’’ڈیتھ مشین‘‘ بھی توہے،افغانستان اورپشتو میں ’’کلاشن کوف‘‘صرف مشین کانام دیاگیاہے اس کے باقی نام اے سینتالیس یاکلاشن کوف سارے متروک ہوچکے ہیں اورمشین کہتے ہی سمجھ لیاجاتاہے کہ کس مشین کاذکر ہورہاہے جو بلاشک وشبہ ’’ڈیتھ مشین‘‘ ہے ۔معلوم نہیں کہ میخائل کلاشنکوف کا’’قابیل‘‘سے کوئی نسلی رشتہ تھا یا نہیں لیکن ناموں میں کافی مشابہت ہے ،قابیل اورمیخائیل۔

سناہے اس نے اس ڈیتھ مشین کواس وقت ایجاد کیاتھا جب وہ بسترمرگ پرتھا،شاید اس کی یہی خواہش تھی کہ جب میں مررہاہوں تو باقی سب جائیں بھاڑ میں بلکہ کلاشنکوف کی باڑ میں برسبیل تذکرہ ہندو پاک میں جب فلموں اورفلمی گانوں کاآغازہواتو اس وقت ایک گانے والی بھی ریپڈ گانے کیوجہ سے مشہور ہوئی تھی جس کانام تھا ’’بہارمشین‘‘ کیوں کہ اس کی آوازمشینی سی تھی،بہرحال ۔۔

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔