میانمار کی خواتین مسلح جدوجہد پر کیوں مجبور ہوئیں؟

عبید اللہ عابد  اتوار 5 دسمبر 2021
طالبات، گھریلوخواتین علیحدہ مسلح گروہ کی صورت میں نہ صرف فوجی حکومت بلکہ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہیں۔ فوٹو : فائل

طالبات، گھریلوخواتین علیحدہ مسلح گروہ کی صورت میں نہ صرف فوجی حکومت بلکہ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف بھی برسرپیکار ہیں۔ فوٹو : فائل

امسال جولائی میں فوجی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے پہلے ، ’ کابیا مے‘ نے کبھی ٹرائوزر نہیں پہنا تھا۔ ’ ساگینگ ‘ نامی علاقے سے تعلق رکھنے والی یہ 23 سالہ استانی بھی میانمار کی دیگر عام خواتین کی طرح ، ایک مخصوص قسم کی چادر یا لنگی باندھتی تھی۔ تاہم اب وہ ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ (Myaung Women Warriors) نامی لڑاکا خواتین کے گروہ میں شامل ہے۔ اس لئے اس کی زندگی کا رنگ ڈھنگ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔

میانگ ویمن وارئیرز میں زیادہ تر کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات ہیں،ان کے علاوہ بعض گھریلو خواتین بھی، اور بعض سرکاری ملازمین بھی۔ یہ لڑکیاں ، خواتین اپنے گھر والوں کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کرتی تھیں۔ تاہم فوج نے بغاوت کی تو ملک میں کچھ اچھا ہونے کی ٹمٹماتی ہوئی امید بھی بجھ گئی۔

انھوں نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کیا تو سیکورٹی فورسز نے ان کے اعزا و اقربا کو گولیوں سے بھون ڈالا یا پھر انھیں لاپتہ کر دیا گیا۔ کسی کا باپ اور کسی کا بھائی، کسی کا شوہر۔ یوں ان خواتین کے سامنے جینے کی کوئی دوسری راہ نہ تھی، نتیجتاً وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر مسلح جدوجہد کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ۔

’ کابیا مے‘ کا کہنا ہے:’’ میں کتوں کی نسل ختم کرنے کے لئے اس مسلح تحریک میں شامل ہوئی ہوں۔ میں خواتین کے اس مسلح گروہ میں اس لئے شامل ہوئی ہوں کہ دنیا کو بتا سکوں کہ خواتین بھی مردوں جیسے کام کر سکتی ہیں ۔‘‘ وہ میانمار کی سیکورٹی فورسز کو کتوں سے تشبیہہ دے رہی تھی ۔ باقی مزاحمت کار بھی سیکورٹی فورسز کا تذکرہ ایسے ہی کرتے ہیں۔

یکم فروری سن دو ہزار اکیس کو میانمار کی فوج نے ایک بار پھر اقتدار سنبھالا تو اس کے خلاف لوگوں نے پرامن انداز میں احتجاج کیا ، تاہم جب سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کا قتل عام شروع کیا تو ملک میں بعض جگہوں پر پرامن تحریک ، مسلح تحریک میں بدل گئی۔

بالخصوص میانگ کا علاقہ پورے ملک میں مزاحمت کی ایک بڑی مثال بن چکا ہے ۔ یہاں بڑی تعداد میں خواتین مزاحمتی تحریک کا حصہ بن چکی ہیں لیکن ایک علیحدہ عسکری گروہ کی صورت میں۔ اس گروہ کی چار خواتین نے گزشتہ دنوں مشہور عرب میڈیا ادارے ’ الجزیرہ ‘ سے وابستہ ایک صحافی سے گفتگو کی ۔ چاروں خواتین کا کہنا تھا کہ وہ فوجی ڈکٹیٹرشپ کے پرخچے اڑانے کے ساتھ ہی ساتھ روایتی معاشرے کے مخصوص صنفی معیارات کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ قوم کی تعمیر میں خواتین کو بھی مساوی کردار دیا جائے گا۔ خواتین نے صحافی کو پابند کیا کہ ان کے فرضی نام ظاہر کئے جائیں گے اور تصاویر بھی اس انداز میں دی جائیں گی کہ جگہ کی پہچان نہ ہو سکے۔

جب آرمی چیف ’ من آنگ لینگ ‘ نے اقتدار پر قبضہ کیا تو پورے ملک میں خواتین نے مزاحمتی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ گارمنٹس فیکٹریوں کی کارکن خواتین سب سے پہلے سڑکوں پر آئیں ۔ اس کے بعد جمہوریت کے حق میں جتنے بھی مظاہرے ہوئے، خواتین سب سے آگے تھیں ۔ یہ خواتین ہی تھیں جنھوں نے سول نافرمانی تحریک شروع کی ، اقلیتی نسلی گروہوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہیں ۔ انھوں نے اپنی نسوانیت کو مزاحمتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ مردوں نے بھی ان کے ماتحت کام کیا اور اس طعنے کی پرواہ نہ کی کہ عورت کے ماتحت کام کرنے والے مرد نہیں، نامرد ہوتے ہیں۔

مزاحمت میں پیش پیش خواتین مردوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں۔ انھوں نے اپنی ’ لنگیوں‘ کو پرچم کے طور پر استعمال کیا، ماہواری کے پیڈز پر فوجی بغاوت کرنے والے ’جنرل من آنگ لینگ ‘ کی تصاویر لگائیں، اپنی لنگیوں ، نیکروں اور استعمال شدہ پیڈز کو جگہ جگہ بڑی تعداد میں لہرا کر سیکورٹی فورسزکی تضحیک کی اور انھیں آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ زیرجاموں اور سینیٹری پیڈز پر آرمی چیف کی تصاویر لگا کر مظاہرہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فوج کی نسبت یہ اشیائے ضروریہ عورت کی بہتر حفاظت کرتی ہیں۔

ایسا اس لئے ہو رہا تھا کہ فوج بلاتفریق مرد و زن جمہوریت کے حامیوں کو قتل کر رہی تھی۔ جب یہ سطور رقم کی جا رہی تھیں، ایسوسی ایشن فار پالیٹیکل پرزنرز ( برما ) کے مطابق ، سیکورٹی فورسز 1260 لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر چکی تھیں جن میں 87 خواتین شامل تھیں ۔ جن 12000 لوگوں کو سزائیں سنائی گئیں، جیلوں میں ڈالا گیا، ان میں 1300سے زائد خواتین شامل تھیں۔

خواتین کا مسلح مزاحمتی تحریکوں کا حصہ بننا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ملک میں نسلی بنیادوں پر جاری مسلح گروہوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی صفوں میں سینکڑوں خواتین موجود ہیں ۔’ نا زیپورہ سین ‘ کیرن نیشنل یونین کی سابقہ وائس چئیرپرسن ، 2015ء کے امن مذاکرات میں مسلح نسلی تنظیموں کی طرف سے مذاکرات کار تھیں ۔ فوج کے ساتھ ان مذاکرات کے نتیجے میں تاریخی سیز فائر ہوا تھا ۔

میانمار میں مسلح نسلی تنظیموں پر ایک ریسرچ رپورٹ 2019ء میں ’ دی پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اوسلو‘ کے زیراہتمام شائع ہوئی، اس کے مطابق میانمار میں خواتین نے مردوں کے ماتحت اپنا بھرپورکردار ادا کیا۔ تاہم مرد رہنماء خواتین کی صلاحیتوں کو پہچان ہی نہ سکے اور ان کی طرف سے پیش کردہ آئیڈیاز کو نظر انداز کرتے رہے۔ وہ اندازہ ہی نہ کر سکے کہ خواتین میانمار میں امن قائم کرنے میں کس قدر اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ خواتین نے اس امتیازی سلوک کو نظرانداز نہ کیا۔ اب وہ اس کے خلاف بھی لڑائی کر رہی ہیں۔

مساوات کے لئے جنگ:
بغاوت کرنے والے فوجی جرنیلوں کے خلاف مزاحمتی تحریک میں زیادہ تر نوجوان ہی ہیں۔ پہلے پہل تو وہ فوجی بغاوت کے خلاف نکلے تھے لیکن اب وہ دیگر کئی مسائل کے خلاف بھی جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ محض سیاسی نظام نہیں ، بلکہ مجموعی طور پر سارے معاشرتی نظام کی اوورہالنگ چاہتے ہیں۔ وہ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔

عمارہ ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ کی ترجمان ہیں، کہتی ہیں:’’ ہمارا گروہ زبردستی کی صنفی تقسیم کو چیلنج کر رہا ہے۔ معاشرہ مردوں اور عورتوں کے لئے مخصوص کاموں کا تعین کرتا ہے جبکہ ہم ان دقیانوسی تصورات کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ۔ ہم دنیا کو دکھا رہے ہیں کہ بچے کو جھولا جھولانے والے ہاتھ بھی مسلح انقلاب لاسکتے ہیں۔‘‘ امسال فروری میں فوجی بغاوت سے پہلے عمارہ نے کبھی تصور نہیں کیا تھا کہ وہ انقلابی جنگجو بنے گی۔ تاہم اپنے ارد گرد تشدد اور لوگوں کو قتل ہوتے دیکھ کر وہ مسلح جدوجہد کا حصہ بننے پر مجبور ہو گئی ۔ اس کے خیال میں اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہ تھا ۔ یہ بہت ضروری اقدام تھا ۔

’’ میں نے اسلحہ اس وقت اٹھایا ، جب کوئی دوسرا راستہ نہ تھا۔ میں خوفزدہ رہتی تھی کہ نجانے مجھ پر کیا مصیبت ٹوٹ پڑے لیکن اب ہم سب خواتین پُرعزم ہیں کہ ہمیں یہ جنگ جیتنا ہے۔ ہم ذہنی طور پر تیار ہو رہے ہیں ، ہم معمول کی زندگی نہیں گزار رہے ہیں،اس لئے ہمیں اپنے دماغ کو قابو میں رکھنا ہوگا۔‘‘

میانمار میں ’ دی میانگ ویمن وارئیرز ‘ کے علاوہ بھی مزاحمتی گروہ موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت 300 مسلح گروہ فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ ان میں بڑے گروہ بھی ہیں اور چھوٹے گروہ بھی۔ اراکان آرمی ، تانگ نیشنل لبریشن آرمی ، میانمار نیشنل ڈیموکریٹ الائنس آرمی اور کاچن انڈیپینڈنس آرمی نمایاں گروہ ہیں۔ زیادہ تر مقامی گروہ ہیں۔ بعض نسلی امتیاز کے ردعمل میں قائم ہوئے۔ یہ پیپلزڈیفنس فورسز کی صورت میں اکٹھے ہیں۔ عمارہ کہتی ہے: ’’ پورا ملک انقلاب کے بخار میں مبتلا ہے۔ ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور عورتوں کے کردار کو بڑھا رہے ہیں ۔‘‘

29اکتوبر کو ، ’ پیپلز ڈیفنس فورسز ‘ نے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا اور اسے نذر آتش کردیا ۔ عمارہ کہتی ہے کہ ہم نے مقامی دیہاتیوں پر حملوں کے لئے استعمال ہونے والے اس پولیس سٹیشن کو جلا دیا تھا تاکہ فوجیوں اور پولیس والوں کی راہ روکی جائے ۔ یاد رہے کہ پولیس سٹیشن پر اس حملے کی تصاویر اور ویڈیوز بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شئیر ہوئی تھیں ۔ عمارہ کہتی ہے:’’ عوام کی طرف سے حمایت نے عورتوں کو قوت فراہم کی اور جدوجہد جاری رکھنے کا جذبہ دیا۔ ان کی ساری توجہ اپنی جدوجہد پر مرکوز ہے۔ ہم خواتین کسی بھی وقت اور کہیں بھی لڑ سکتی ہیں ۔ جنگجو بہادر ہوتے ہیں، دوٹوک ہوتے ہیں اور وفادار بھی ۔ ہم قوم کی خاطر لڑائی کے لئے تیار ہیں ۔‘‘

’ کابیا مے‘ ( سابقہ استانی ) نے اس وقت اسلحہ اٹھایا جب ابھی ’ میانگ ویمن وارئیرز ‘ قائم بھی نہیں ہوئی تھی ۔گروپ کی تشکیل دو ماہ بعد ہوئی ۔ میانمار کے دیگر نوجوانوں کی طرح اس نے بھی بڑھتی ہوئی مشکلات ، عدم تحفظ کا سامنے کرنے کے بعد اور تاریک ہوتے مستقبل کو دیکھتے ہوئے اسلحہ اٹھایا۔ وہ کہتی ہے:’’ جب سے فوجی بغاوت ہوئی ہے، کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا ہے۔ نوجوان سوچ رہے ہیں کہ ان کا وقت ضائع ہو رہاہے۔ ہم آزادانہ طور پر سفر نہیں کر سکتے، جب کتے ( فوجی ) آتے ہیں ، لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ۔ میں ایسے مناظر مزید نہیں دیکھنا چاہتی ۔ ‘‘

اپنے والدین کے پانچ بچوں میں سے سب سے بڑی ’ کابیا مے‘ کا کہنا ہے کہ اس نے سن 2020ء کے اوائل میں ٹیچر ٹریننگ کالج سے گریجویشن کی ، وہ پرامید تھی کہ اس کی تنخواہ اس قدر ہوگی کہ اس کے والد کو دیہاڑی پر مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، وہ مقامی کسانوں کے کھیتوں پر کیڑے مار ادویات کا سپرے کرتا ہے۔ پھر چند ماہ بعد پورے ملک میں کورونا وبا کے باعث سکول بند ہوگئے، چنانچہ ’ کابیا مے‘ ایک باربی کیو ریسٹورنٹ پر کام کرنے لگی۔

فوجی بغاوت ہوئی تو بڑے پیمانے پر اساتذہ نے فوجی انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے سے انکار کردیا اور ہڑتال کردی۔ ’ کابیا مے‘ بھی اس ہڑتال میں شامل ہوگئی۔ جب باربی کیو ریسٹورنٹ بھی بند ہوگیا تو ’ کابیامے ‘ نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر فصلوں پر سپرے کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح وہ دیگر کئی کام بھی کرنے لگی۔ اس نے بتایا: ’’ میرے گھر میں زیادہ افراد ہیں، اور ہم روزانہ کی اجرت والے کاموں پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم ایک روز بھی کام نہ کریں تو ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

جب ’ کابیامے ‘ نے سنا کہ اس کے قصبے کے لوگ ایک مسلح مزاحمتی گروہ تشکیل دے رہے ہیں تو اس نے کسی سے پوچھا کہ وہ خواتین کو بھی شامل کررہے ہیں؟ مثبت جواب حاصل ہونے پر جولائی میں وہ اسلحہ چلانے کی تربیت حاصل کرنے لگی۔ اس دوران میں ، نہ صرف اسے پہلی بار ٹرائوزر پہننا پڑا بلکہ ایک بند کوارٹر میں غیر مردوں کے ساتھ بھی رہنا پڑا۔ اس نے بتایا:

’’ پہلے پہل مجھے بہت شرم محسوس ہوئی لیکن پھر میں عادی ہوگئی اور ہم سب ساتھی بن گئے۔ جب میں مردوں کے ساتھ ٹریننگ حاصل کر رہی تھی ، خاص طور پرڈنڈ پیلنے کے دوران میں مجھے پٹھوں اور کمر کے درد کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم میں نے اس درد کو برداشت کیا اور تربیت میں شامل رہی۔‘‘

انقلابی زندگی
میانمار کے جنوبی مشرقی علاقے میں ، تھائی لینڈ کی سرحد کے نزدیک ’ کایا ‘ ریاست اور ہمسائیہ ریاست ’ شان ‘ کے قصبات میں متحرک دو نوجوان خواتین نے بتایا کہ کورونا وبا اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں جب ان کے تعلیمی سلسلہ کو برباد کیا گیا تو انھوں نے مقامی مسلح گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنی گھریلو زندگی سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔

مئی دوہزار اکیس میں پیپلز ڈیفنس فورس( پی ڈی ایف ) نے ان علاقوں کی مقامی مسلح تنظیموں سے اتحاد کر لیا تاکہ اُس فوج کے خلاف ایک مضبوط قوت تشکیل دی جائے جو فضائی حملے بھی کرتی ہے، پورے کے پورے علاقے نذر آتش کر دیتی ہے، لوگوں پر اندھا دھند بم پھینکتی ہے، چاہے سامنے بوڑھے ہوں ، عورتیں ہوں یا بچے ہوں ۔ میانمار کے جنوبی مشرقی علاقے سے قریباً ایک لاکھ 65 ہزار افراد گھر سے بے گھر ہو چکے ہیں ۔ اگر پورے میانمار کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق فروری سے اب تک قریباً دو لاکھ 23 ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

مئی میں جب ’ کایاہ ‘ ریاست میں مزاحمتی گروہوں اور فوج کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ پھیل گیا تو ’ پالی ‘ بھی اپنے گائوں چھوڑنے پر مجبور ہوگئی، وہ اپنے گھر والوں اور گائوں کے دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں مسلسل چلتی رہی تھی۔ اکیس سالہ ’ پالی‘ نے جو کورونا وبا پھوٹنے تک یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی ، گائوں چھوڑنے کے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا:

’’ موسم بہت ٹھنڈا تھا اور پینے کے لئے پانی بھی میسر نہیں تھا۔ ہمارے پاس نہ سویٹرز تھے نہ ہی کوٹ تھے، ہمارے پاس صرف ایک ، دو دن کے لئے کھانے کا سامان تھا بس! ہمیں سخت خطرات کے درمیان میں اشیائے ضروریہ جمع کرنا تھیں۔ اچھے دن لوٹ آنے کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں ۔‘‘

نتیجتاً ’ پالی‘ نے مزاحمتی تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جولائی میں ایک دوست نے اسے ’ پیپلز ڈیفنس فورس ‘ کی مقامی شاخ میں شمولیت کی دعوت دی اور اس نے یہ دعوت قبول کرلی۔ اسے مزاحمتی گروہ کی میڈیکل ٹیم میں رکھا گیا۔ یوں وہ لوگوں کے علاج معالجہ کے فرائض سرانجام دینے لگی بالخصوص جو لوگ سیکورٹی فورسز سے جھڑپوں میں زخمی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ لوگوں کو تحریک کا حصہ بننے یا اس کی حمایت کرنے کی تربیت بھی دیتی ہے ، کھانے پکانے کے کام بھی کرتی ہے، اسی طرح وہ لڑائی سے متاثرہ لوگوں کے لئے دیگر امدادی سرگرمیاں بھی سرانجام دیتی ہے۔

بعض لوگ سخت مطالبات تسلیم کرنے یا احکامات پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں لیکن ’ پالی ‘ کو اس قسم کے حالات مضبوط اور باہمت بناتے ہیں۔ اب وہ جنگی ماحول میں جینا سیکھ چکی ہے۔ اس نے بتایا:

’’ جب میں نے پہلی بار گن فائر کی آواز سنی تو میں سخت خوفزدہ ہوئی لیکن اب میں اس کے عادی ہوچکی ہوںکیونکہ سارا وقت یہی آوازیں سنتی رہتی ہوں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہماری زندگیاں خدا کے ہاتھ میں ہیں، جب ہمارا وقت آئے گا ، تب ہی ہمیں موت آئے گی۔ یہ بات ہم سب کو آگے بڑھنے اور جدوجہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔‘‘

جنگجومرد اور خواتین مختلف اوقات میں مختلف کام کرتے ہیں۔ ’ پالی ‘ کا کہنا ہے :’’ انقلابی زندگی کی مشکلات میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے کے نتیجے میں ایک طرح کی دوستی اور مساوات قائم ہوجاتی ہے۔ خواتین کو بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں، بعض خواتین مسلح گروہوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں لیکن ان کے والدین اجازت نہیں دیتے، کیونکہ لوگ ہمیں نازک اور کمزور سمجھتے ہیں۔ ہمیں ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم سخت کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہم کر سکتی ہیں۔‘‘

بیس سالہ ’ نیوے او پان ‘ کا تعلق شان ریاست کے قصبے ’ موئی بائی ‘ سے ہے ، کورونا وبا پھوٹنے سے پہلے، وہ یونیورسٹی کی طالبہ تھی، فوجی بغاوت کے بعد جب شورش شروع ہوئی اور وہ گھر سے بے گھر ہوئی تو دربدری کی زندگی اسے ’ پیپلزڈیفنس فورس ‘ کی طرف لے گئی۔ اس نے بتایا : ’’ میں نے دیکھا کہ فوجی عام لوگوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں ، تب میں نے سوچا کہ کیا مجھ سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا؟ کیا مجھے دربدی کی زندگی ہی گزارتے رہنا چاہیے یا پھر ان فوجیوں کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے؟‘‘

اب وہ مردوں اور عورتوں کے ساتھ عسکری زندگی گزار رہی ہے۔’’ہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں کبھی جنگل میں نہیں رہی تھی،ساری زندگی پڑھنے لکھنے ہی میں گزاری، اب ہمیں روزانہ پہاڑوں پر چڑھنا اور اترنا ہوتا ہے ، چاہے دھوپ ہو یا بارش ہو۔ مجھے بالکل نئے تجربات حاصل ہوئے ہیں۔ اب تو مجھے ماہواری کے درد کا بھی احساس نہیں ہوتا، کیونکہ میں جنگلات میں رہتے اور سفر کرتے ہوئے غیر معمولی طور پر سخت جان ہو چکی ہوں۔ اس سے پہلے مخصوص ایام میں ، درد کے مارے میں بستر پر لیٹ جاتی تھی ۔ اب میں جنگل میں رہتی ہوں ، دوسروں کے درمیان میں رہتی ہوں ، پہلے کی طرح زندگی بسر نہیں کرتی ۔‘‘

’ نیوے او پان ‘ نے لڑائی کے میدان کا انتخاب کیا، وہاں اسے موت سے بڑا یہ خوف لاحق تھا کہ اگر وہ اس میدان میں آگے نہ بڑھ سکی تو دوسری جنگجوئوں پر بوجھ بن جائے گی ۔ تاہم پھر وہ روز بہ روز پراعتماد ہوتی چلی گئی۔ وہ کہتی ہے: ’’ میں اس سوچ میں پختہ ہو چکی ہوں کہ جو کچھ مرد کر سکتے ہیں، وہی ہم عورتیں بھی کر سکتی ہیں۔ میں اس انقلابی جدوجہد کے ذریعے صنفی مساوات کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

اپنی ہی قوم کو فتح کرنے والے جرنیل کئی محاذوں پر الجھ گئے
اٹھارہ سالہ ’ ماکیال زن ‘ تائیکوانڈو ، چٹ پٹی خوراک اور شوخ اور بھرپور سرخ لپ اسٹک پسند کرتی تھی۔ وہ جب ’ منڈالے ‘ میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کے لئے گھر سے نکلنے لگی تو باپ نے اسے سینے سے لگایا ، خیریت سے واپس آنے کی دعا دی۔ وہ ایک پرامن مظاہرے میں شرکت کے لئے جا رہی تھی جو ملک کے سیاسی نظام پر ایک بار پھر فوجی قبضے کے خلاف ہورہا تھا۔ مظاہرے میں زیادہ تر یونیورسٹیوں اور کالجز کے نوجوان تھے۔’ ماکیال زن ‘ بھی یونی ورسٹی طالبہ تھی ، اس نے ایک سیاہ شرٹ پہن رکھی تھی جس پر لکھا تھا: ’’ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘

سیکورٹی فورسز کو توقع نہیں تھی کہ مظاہرین اس قدر بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں گے ۔ چنانچہ انھیں منتشر کرنے کی بار بار کوشش کی گئی ۔ انھیں ڈرایا دھمکایا گیا، ان پر آنسو گیس پھینکی گئی ، ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں لیکن مظاہرین منتشر ہونے کو تیار نہ تھے ۔ وہ پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے تھے ۔ سہ پہر کا وقت ہوچکا تھا۔ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلانا شروع کردیں ۔ ایک فوجی نے پرجوش انداز میں نعرہ زن ’ ماکیال زن ‘ کے سر کا نشانہ لیا ، گولی سیدھی اس کے سر میں اتر گئی، ’ ماکیال زن‘ موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ ہلاک ہونے والی یہ اٹھارہ سالہ لڑکی ہی نہیں تھی بلکہ سیکورٹی فورسز نے پورے ملک میں مجموعی طور پر ڈھائی درجن لوگوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔ اس قدر خونی دن میانمار نے آج تک نہیں دیکھا تھا۔

جس مظاہرے میں ماکیال زن ہلاک ہوئی تھی، وہاں دو مزید لڑکیاں بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ باقی ماندہ دونوں لڑکیوں کے دل کا تاک کا نشانہ لیا گیا۔ یوں تین گولیوں نے تین جوان لڑکیوں کو ختم کردیا۔ واضح رہے کہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا ، اس سے ایک روز پہلے اخبارات میں فوجی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ جمہوریت کے حق میں سڑکوں پر آنے والوں پر گولیاں نہیں برسائے گی، اگر بہت زیادہ ضرورت پڑی تو ان کے جسموں کے بالائی حصوں کا نشانہ نہیں لیا جائے گا۔

میانمار میں فوج 1958ء سے بالواسطہ اور پھر 1962ء سے بلاواسطہ برسراقتدار رہی۔2011ء میں آنگ سان سوچی کی قیادت میں جمہوریت بحال ہوئی ، ڈری ڈری سی جمہوریت۔ تاہم دس برس بعد 2021ء میں ایک بار پھر فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ جرنیلوں کو توقع نہیں تھی کہ انھیں ماضی کی نسبت زیادہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مزاحمت کی خاص بات نوجوان نسل کا سڑکوں پر آنا ہے، اس سے بھی زیادہ اہم بات لڑکیوں ، طالبات اور خواتین کا ہراول دستے کے طور پر کردار ادا کرنا ہے۔

اب کی بار ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ سیکورٹی فورسز کے اندر بھی قیادت کے خلاف بغاوت ہوئی۔ اب تک کم ازکم 2000 فوجی اور پولیس والے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجاً استعفے دے کر سول نافرمانی یا مزاحمتی تحریکوں سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے وطن کا دفاع کرنے کا خواب سجائے فوج میں بھرتی ہوئے تھے لیکن انھیں اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برسانے کے لئے بھیج دیا گیا۔ پونے تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ کی فوج میں، اگرچہ باغی فوجیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے تاہم یہ ایک بڑے بحران کی ابتدا کا پتہ دے رہی ہے۔

اس وقت فوج کو بھرتی کے لئے نوجوان نہیں مل رہے ہیں ،67 سالہ تاریخ میں پہلی بار ڈیفنس سروسز اکیڈمی اس سال ’ فریش مین کلاس ‘ کی سیٹیں پوری نہ کر پائی۔ میانمار سٹڈیز پروگرام (انسٹی ٹیوٹ آف سائوتھ ایشین سٹڈیز، سنگاپور )کے شریک ڈائریکٹر موئی تھوزر کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر بغاوت انھوں نے کبھی نہیں دیکھی۔ فروری سے اب تک ہم مسلسل فوجیوں کو باغی ہوتے اور برسرعام باغی ملیشیائوں کی حمایت کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے زیادہ تر باغی فوج میں نچلے رینکس میں تھے ، تاہم اب باغیوں میں بعض افسر رینک کے بھی شامل ہوچکے ہیں۔

باغی فوجیوں کا کہنا ہے کہ وہ فوج چھوڑنے پر مجبور کیے گئے ہیں کیونکہ انھیں اوپر سے حکم ملتا تھا کہ سویلینز کو گولیوں سے بھون ڈالو۔ بعض فوجیوں کا کہنا ہے کہ وہ کم تنخواہوں کی وجہ سے فوج چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ایک فوجی نے بتایا کہ اس کی تنخواہ 18ہزار پاکستانی روپوںکے برابر تھی جبکہ فوج میںکھانا بھی نہایت خراب ملتا تھا۔

اب باغی فوجی سوشل میڈیا اکائونٹس بنا کر دوسرے فوجیوں کو بھی بغاوت پر قائل کر رہے ہیں۔ ایک فیس بک گروپ فوجیوں کی بیویوں پر مشتمل ہے، جہاں باغی فوجیوں کی بیویاں دوسری خواتین سے کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہروں کو فوج چھوڑ دینے پر آمادہ کریں۔ باغی فوجیوں کے فیس بک پیجز اور گروپس میں ایسی پوسٹیں عمومی طور پر وائرل ہوتی ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے :

’’فوج اپنے ہی لوگوں کو مار رہی ہے۔‘‘
’’ فوج سب سے بڑی چور ہے۔‘‘
’’ فوج اپنے مخصوص مفادات کے لئے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جب کورونا وبا پھوٹی تو اعلیٰ حکام نے بیرکوں میں متاثرہ فوجیوں کو الگ نہ کیا، جس کے نتیجے میں بیرکوں میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔
اب جب کہ فوج کو نئی بھرتی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، ان حالات میں ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ وہ واپس نہ آئے تو ان کی پنشن روک لی جائیں گی۔

دوسری طرف ملک میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ عوام فوج کی حکمرانی کو کسی بھی صورت میں برداشت کرنے کو تیار نہیں۔پورے ملک میں سول نافرمانی تحریک چل رہی ہے۔ چند روز پہلے پورے ملک میں تعلیمی ادارے کھولے گئے لیکن کلاسز مکمل طور پر خالی ہوتی ہیں۔ جس کلاس میں 600 طلبہ و طالبات ہوتے تھے، وہاں اب بمشکل ایک ، ڈیڑھ درجن ہوتے ہیں۔ طلبہ و طالبات نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ فوجی حکومت کے سائے میں تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوں گے۔ والدین بھی ان کے فیصلوں میں ساتھ ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ فوج نے یکم جون کو بھی تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا لیکن تعلیمی اداروں میں انتہائی کم حاضری دیکھ کر دوبارہ بند کرنے کا اعلان کردیا۔ملک بھر کے چار لاکھ اساتذہ میں سے آدھے سے زیادہ سول نافرمانی تحریک کے مطابق ہڑتال پر ہیں۔

ملک پر فوجی قبضے کے خلاف سویلین اور مسلح مزاحمت اس قدر زیادہ ہے کہ ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جلا وطن ’ مشترکہ قومی حکومت ‘ بھی مزاحمت کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کررہی ہے اور ان کے درمیان کوارڈینیشن بھی بڑھا رہی ہے۔کمیونسٹ پارٹی کی پیپلز لبریشن آرمی بھی اس بار خاصی متحرک ہے۔ وہ لوگوں کو عسکری تربیت دینے کا خصوصی اہتمام کررہی ہے۔ مزاحمتی کوششوں کو خود جرنیلی حکومت تقویت دے رہی ہے۔ وہ پرامن لوگوں کو گرفتار کرکے قتل یا لاپتہ کر رہی ہے، شہری آبادیوں پر ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کررہی ہے، فوجی خواتین کو گینگ ریپ کا نشانہ بناتے ہیں۔

دوسری طرف ملکی اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیلوں کو بین الاقوامی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس بار بھی آسیان کی کانفرنس میانمار کے کسی نمائندے کے بغیر منعقد ہوئی۔ حالانکہ چین نے آسیان کے رکن ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ میانمار کے فوجی حکمران ’ من آنگ لینگ ‘کو کانفرنس میں شریک ہونے کی اجازت دیں ۔ تاہم رکن ممالک بالخصوص انڈونیشیا ، ملائشیا ، برونائی اور سنگاپور نے درخواست مسترد کردی ۔ یہ میانمار کے جرنیلوں کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ ان کے قبضے کو ملک کے اندر کوئی قبول کرنے کو تیار ہے نہ ہی ملک کے باہر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔